ایک جانب نیٹو اتحاد کے قیام کے 70 برس پورے ہونے پر اتحاد کے سربراہی اجلاس ہورہا ہے تو دوسری جانب انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات کی خلیج گہری ہو رہی ہے۔ ان اختلافات کی بنیادی وجہ ‘شام میں فوجی آپریشن کی صورت میں جارحیت اور روس کے ساتھ ترکی کے دفاعی تعلق کا پروان چڑھنا ہے۔3دسمبر کو امریکی وزیر دفاع‘ مارک ایسپر نے ترکی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ بالٹک کے ممالک اور پولینڈ کے لیے نیٹو اتحاد کے دفاعی منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ روک دے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقرہ اس امر کو شام میں امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز کے خلاف اپنے فوجی آپریشن کی اس سپورٹ کے ساتھ مشروط نہ کرے‘ جس کے واسطے ترکی مسلسل نیٹو اتحاد پر دباؤ ڈال رہا ہے۔نیٹو کے سربراہی اجلاس سے قبل پیر کے روز غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو میں ایسپر نے خبردار کیا کہ ''انہیں (ترکی سے) جو خطرات محسوس ہو رہے ہیں‘ وہ کسی (نیٹو اتحاد کے رکن ممالک) کو بھی نظر نہیں آ رہے‘‘۔ انہوں نے اس بات پرزور دیا کہ واشنگٹن اور انقرہ کے درمیان تعلقات پر طاری جمود توڑنے کے لیے ''کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹ‘‘ (تنظیم) کو دہشت گرد قرار دینے کے ترکی کے موقف کی حمایت نہیں کی جائے گی ۔ امریکی وزیر دفاع نے انقرہ پر زور دیا کہ وہ نیٹو اتحاد کو درپیش بڑے چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرے اور کہا کہ نیٹو اتحاد کی تیاری اور صفوں میں یک جہتی کا مطلب بڑے معاملات پر توجہ دینا ہے‘ بالخصوص سب سے بڑا معاملہ نیٹو اتحاد کی ہمہ وقت استعداد ہے۔
نیٹو اتحاد کے نمائندوں کو سرکاری طور پر تمام 29 رکن ممالک کی موافقت درکار ہے ‘تا کہ روس کی جانب سے کسی بھی خطرے کے خلاف پولینڈ‘ لیٹوینیا‘ لیٹیویا اور سٹونیا کے دفاع کی بہتری کے منصوبے پر عمل درآمد کیا جا سکے۔ترکی کا نیٹو سے مطالبہ ہے کہ امریکی نواز تنظیم کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس کو دہشت گرد جماعت قرار دیا جائے۔ اس تنظیم کا مرکزی جزو سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) ہے۔ ترکی نیٹو اتحاد کے رکن ممالک کی جانب سے اس تنظیم کو سپورٹ کیے جانے پر برہم ہے۔دوسری جانب صدرطیب اردوان ‘نیٹو سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے انگلینڈ کے دارالحکومت لندن پہنچ چکے ‘ جہاں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کے نمائندئے لارڈ وینسینٹ تھامسن برطانیہ کی وزارت خارجہ نے صدر اردوان کا استقبال کیا۔اردوان اور ان کی اہلیہ ایمنے اردوان ‘ وزیر خارجہ میولود چاوش اولو وزیر قومی وزیر دفاع حلوصی آقار وزیر خزانہ بیرات البرائک ‘ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ترجمان عمر چیلیک ‘ آق پارٹی کے ازمیر سے رکنِ پارلیمنٹ بن علی یلدریم ‘ صدارتی اطلاعاتی امور کے چیئرمین فاحرتین آلتون اور صدارتی ترجمان ابراہیم قالن بھی صدر کے ہمراہ لندن پہنچے‘تاہم لفظی گولہ باری کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ‘کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔
اس سے قبل رواں سال کے وسط میں امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات میں سرد مہری دیکھی گئی ‘جب ترکی نے امریکہ کی طرف سے شدید مخالفت کے باوجود روسی ساخت کے ایس چار سو فضائی دفاع کے میزائل نظام کا کچھ حصہ وصول کیا۔ترکی کی وزارتِ دفاع کے مطابق روسی میزائلوں کے نظام کے چند حصوں پر مشتمل کھیپ ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ایک ہوائی اڈے پر وصول کی گئی۔امریکہ نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے روس سے یہ میزائل نظام حاصل کیا تو وہ ترکی کو ایف 35 طیاروں کی ترسیل روک دے گا۔ترکی نے امریکہ سے ایف35 لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ کر رکھا ہے اور ان طیاروں کی خریداری بھاری سرمایہ کاری بھی کی ہے۔حالات کے کشیدہ ہونے کا عندیہ انہی دنوں میں دیا گیا تھا۔ نیٹو کے اتحاد میں شامل کسی رکن ملک کی طرف سے روسی ساخت کے ہتھیاروں کی خریداری ایک انتہائی غیر معمولی اقدام تھا‘ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔امریکہ نے پہلے ہی ترکی کو ایف 35‘ لڑاکا طیاروں کی ترسیل روک دی تھی اور اس معاہدے کے تحت امریکہ میں ترک ہوا بازوں کی تربیت کا پروگرام بھی بند کر دیاگیا تھا۔ترکی کو ایف 35 طیاروں کی تیاری اور مرمت کے پروگرام سے مکمل طور پر علیحدہ کرنے کا کام شروع ہوا۔ ترکی ایف 35 طیاروں کے 900 سے زیادہ پرزے ترکی میں تیار کر رہا تھا‘ اس کے علاوہ آگے چل کر نیٹو کے رکن ملکوں کے زیر استعمال ایف 35 طیاروں کی مرمت کیلئے ترکی ایک بڑا مرکز بننے والا تھا۔
ترکی کی جغرافیائی پوزیشن اور شام کی جنگ میں اس کے کردار کو دیکھیں تو ترکی ایسا ملک نہیں‘ جس سے نیٹو اپنا منہ موڑ لے۔دوسری طرف روس بہت اچھے ائیر ڈیفنس سسٹم بناتا ہے‘ لیکن اگر نیٹو ممبر ملک ترکی میں یہ سسٹم لگتا ہے‘ تو پھر اس کے لیے وہاں زمین پر اس کی تربیت اور سپورٹ درکار ہوگی‘ جس پر سکیورٹی کے حوالے سے امریکہ کی جانب سے کئی سوالات بھی اٹھائے گئے ۔خدشات ظاہر کیے گئے کہ اس نظام کو انسٹال کرنے کے لیے روسی وہاں اپنی موجودگی کے دوران پتا نہیں‘ مزید کس قسم کی معلومات حاصل کر لیں گے ۔ امریکہ کو خدشہ تھاکہ ترکی کی ایئر ڈیفنس میں روسی مداخلت وہ بھی ایک ایسے وقت پر جب وہاں ایف 35 بھی موجود ہیں‘ اس سے ماسکو سود مند انٹیلی جنس اکھٹی کر سکتا ہے‘تاہم ترکی کا اصرارتھا کہ میزائل اور وہ اڈے جہاں ایف 35 موجود ہیں‘ مختلف جگہوں پر ہیں۔
روس کے پاس پہلے ہی ایف 35 کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنے کے لیے وسائل موجود ہیں۔ یہ طیارے اسرائیلی ائیر فورس کے استعمال میں ہیں اور روس ان کی نقل و حرکات کو شام سے ریڈاروں کے ذریعے مانیٹر کر رہا ہے۔