"NNC" (space) message & send to 7575

مسلم کش بھارتی ترمیمی بل

رواں ماہ بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا ایک متنازع قانون منظور کیا‘ جس سے پاکستان‘ بنگلادیش اور افغانستان میں مذہبی بنیاد پر ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے صرف غیر مسلم افراد کو ہی بھارتی شہریت دینے سے مشروط رکھا گیا۔ بھارت کے مغربی بنگال‘ پنجاب‘ کیرالہ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ نے بل کی مخالفت کی اور واضح پیغام دیاکہ وہ اس متنازع قانون پرعمل درآمد نہیں کریں گے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں اس بل کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔نا صرف بھارت‘ بلکہ دنیا بھر میں اس قانون کے خلاف احتجاج ہوا‘ نیزعالمی سطح پر بھی بھارتی شہریت ترمیمی بل کو امتیازی قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارتی آئین میں 1976ء میں کی جانی والی 42 ویں ترمیم کے مطابق‘ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے‘ اس کا مطلب ہے کہ ریاست تمام مذاہب کے ساتھ مساوی رویہ اختیار کرے گی۔ برصغیر کو بڑے مذاہب کا پیدائشی وطن بھی کہا جاتا ہے‘ جیسا کہ ہندو مت‘ بدھ مت‘ جین مت اور سکھ مت ۔ تقسیم ہند سے قبل پوری تاریخ میں‘ مذہب ملکی ثقافت کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ تقسیم کے بعدمذہبی تنوع اور مذہبی اعتدال سے دونوں ممالک میں بذریعہ قانون اور رسوم کے قائم ہوئے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر حقوق دئیے گئے اور ان کا احترام بھی کیا گیا‘ جبکہ بھارت کا آئین صرف الفاظ کی حد تک مذہبی آزادی کو بنیادی حق قرار دیتا ہے‘جہاں نا صرف مسلمان‘ بلکہ دوسرے مذاہب کو بھی مذہبی آزادی حاصل نہیں‘جن میں سکھ‘دلت اورعیسائی و دیگر شامل ہیں۔
بھارت میں مسلم مخالف اور متنازع شہریت بل‘ بھارتی صدر کے دستخط کے بعداب‘ باقاعدہ قانون بن چکا‘ لیکن متنازع بل کے بعد اچانک بھارتی ریاستوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔آسام میں پولیس کی فائرنگ سے 3 مظاہرین ہلاک ہوگئے‘ جبکہ گوہاٹی میں فوج تعینات ہے اور کرفیو نافذ کرکے 10 اضلاع میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ۔بھارتی ریاستوں میں احتجاج کے پیش نظر جاپانی وزیراعظم‘ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ بھی بھارت کادورہ منسوخ کرچکے ۔ امریکہ نے بھی بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں امریکی شہریوں کے لیے ٹریول الرٹ جاری کردیا ہے۔متنازع ترمیمی بل 2019ء (ءCitizenship Act, 2019) بھارت کی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ ایک ایکٹ ہے‘ جس کے ذریعے 1955ء کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس کی رو سے 31 دسمبر 2014ء سے قبل پاکستان‘ افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہندو‘ سکھ‘ جین مت‘ بدھ مت‘ مسیحی اور پارسی غیر قانونی مہاجرین کو بھارت کی شہریت ملے گی اور ان کے خلاف سارے مقدمات بھی واپس لے لیے جائیں گے۔ 1955ء کے بل میں ان سب کو غیر قانونی مہاجر مانا گیا تھا۔ اس بل میں عطائے شہریت کی مدت 11 سال سے کم کر کے 5 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ان چھ اقلیتوں کو حقوق دئیے گئے‘ مگر مسلمانوں کو یکسر طور پر نظر انداز کیا گیا۔ایسا صرف آر ایس ایس (ہندو انتہا پسند تنظیم) کی ایماء پر کیا گیا‘جس کے پیچھے کئی محرکات ہیں۔
بھارت میںمسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا یہ پہلا موقع نہیں۔رواں عشرے کے آغاز میں‘ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلم آبادی کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا کیاگیا کہ 2035ء تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 92.5 کروڑ ہو جائے گی‘ جبکہ ہندوؤں کی آبادی صرف 90.2 کروڑ تک ہی پہنچ سکے گی۔ 2040 ء تک ہندو تہوار منائے جانے بند ہو جائیں گے۔ بڑے پیمانے پر ہندوؤں اور غیر مسلموں کا قتل عام ہو گا اور 2050 ء کے آتے آتے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 189 کروڑ سے بھی زیادہ ہو جائے گی اور ہندوستان ایک مسلم ملک بن جائے گا۔یہ پروپیگنڈا ڈھکے چھپے انداز میں گمنام پمفلٹس اور پرچوں کے ذریعے‘ کبھی مختلف بلاگز اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں کے ذریعے تو کبھی کھل کر واویلا مچایا گیا۔اکتوبر 2013 ء کے دوران آر ایس ایس کے قومی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہندوؤں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنی آبادی میں اضافے کے لیے کم از کم تین بچے تو ضرور پیدا کریں۔انہی دنوں ساکشی مہاراج اور سادھوی پراچی نے ہندوؤں سے چار چار بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ وشوا ہندو پریشد کے ایگزیکٹو صدرپروین توگڑیا بھی پیچھے نہیں رہے‘ جنوری2013ء میں انہوں نے بریلی میں وشوا ہندو پریشد کے 50 ویں یوم تاسیس کی تقریب میں کہا تھا کہ ''چار بچوں کی بات کرنے پر اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا ہو رہا ہے؟ جب مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں‘ تو لوگ کیوں چپ رہتے ہیں۔ مسلمان چار شادیاں اور 10 بچے پیدا کرتے ہیں‘ اگر
دو بچوں کی بات کرنی ہے تو قانون بنایا جائے‘ جو لوگ زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں‘ ان کیخلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘
یہ اشتعال انگیز شگوفہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں چھوڑا گیا ‘بلکہ افواہ مشینری تو یورپ کے لوگوں کو بھی خوفزدہ کرنے میں مصروف رہی کہ جس طرح سے مسلمانوں کی آبادی پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے‘ اس کی وجہ ایک دن یورپ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ ''یوربیا‘‘ بن جائے گا۔
بھارت میں مردم شماری 2011ء کی رپورٹ سرکاری طور پر اب تک شائع نہیں کی گئی‘ لیکن لیک ہو کر یہ رپورٹ کچھ جگہوں پر شائع ہوچکی۔ 2013ء میں یہ لیک رپورٹ دوبارہ شائع ہوئی‘ جس کے مطابق‘ 2011 ء کی مردم شماری کی ''لیک‘‘ رپورٹ میں بھارت کی آبادی میں مسلمان 13.4 فیصد سے بڑھ کر 14.2 فیصد اور پہلی مرتبہ ہندوؤں کا80 فیصد سے نیچے چلے جانے کا امکان ظاہر کیا گیاہے۔ 1961ء میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 10.7 فیصد تھی‘ جبکہ ہندو 83.4 فیصد‘ 2001 ء میں مسلمان بڑھ کر 13.4 فیصد ہو گئے اور ہندو کم ہو کر 80.5 فیصد ہی رہ گئے۔ پچھلے تین عشروں میں عالمی سروے کی بات کریں‘ تو49مسلم اکثریتی ممالک میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں 41فیصد کمی ہوئی ہے۔ 
بھارت کی ہندو انتہا اور قومیت پرست قوتیں تمام مذہبی اقلیتوں کی الگ مذہبی شناخت کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ تمام علامتیں بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی اور عدم برداشت کی ہیں‘ جس کی وجہ سے سیکولر ازم کی حامی قوتیں دیوار سے لگادی گئیں‘ لہٰذا بھارت میں بسنے والی تمام مذہبی اقلیتیں خصوصاً مسلمان اس انتہا پسندی کے باعث خدشات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں