2011ء میں شرق اوسط میںپیداہونے والی شورشیںکسے یاد نہیں‘ جنہیں ''عرب سپرنگ‘‘ کا نام دیا گیا ۔لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین نے سڑکوں پر آ کر ایک نئے آغاز اور تبدیلی کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں بہت سے آمر حکمرانوں کا تختہ بھی الٹا۔ مظاہرین کی بہت سی امیدیں تھیں‘ جو پوری نہ ہو ئیں۔ لازم نہیں کہ سب پوری ہوں۔یوں یہ خطہ جنگ اور جبر کا ایک نیا محور بن کر سامنے آیا۔مظاہرین کی وہ شکایات جن کی بناپرنہ رکنے والا مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ‘ان کا ازالہ نہ ہوسکا۔دو ممالک عراق اور لبنان کے صدور مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے‘ جبکہ سینکڑوں مظاہرین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک اور زخمی ہوئے‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کہیں کشیدہ صورتحال پر قابو پا لیا گیا تو کہیں اب بھی حالات جوں کے توں ہیں۔لبنان میں مظاہرے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب یہ حزب اللہ کے اس بندوبست کے لیے بھی واضح خطرہ ہیں جو اس نے گزشتہ ایک عشرے کے دوران چابک دستی سے اپنی موجودگی اور ساکھ کو واضح کیا ہے۔حزب اللہ غیر ریاستی کردار سے ملک کی بالادست سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ حزب اللہ حالیہ احتجاجی مظاہروں سے پریشان نظر آتی ہے کیونکہ ان مظاہروں کا بیانیہ سماجی انصاف ہے‘جسے سیاسی رنگ نہیں دیا جا سکتا۔لبنان میں روزمرہ اشیائے ضروریہ عوام کی دسترس سے باہر ہیںاور شدید معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔ شرق اوسط کے وہ ممالک جہاں تیل کی دولت دستیاب نہیں ہے‘ وہاں کے عوام کی زندگی بہت سی معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ وہاں بسنے والے لوگ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔لبنان میں ''ہارڈ کرنسی‘‘ یا نوٹوں کی شدید قلت محسوس کی جاتی ہے۔ لبنان کو ڈالرز کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں کے سٹورز میں دستیاب زیادہ تر اشیا درآمد شدہ ہیں۔صرف یہی نہیں لبنانی مظاہرین اپنے ملک میں گہری ہوتی فرقہ واریت کے ہاتھوں تنگ آ چکے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں لبنان کی مسلح افواج (ایل این اے) اس احتجاجی تحریک کے دوران میں غیر جانبداررہی ہیں‘جس سے حزب اللہ کی پوزیشن مزید ابتر ہوئی ہے۔ اتحادیوں کا کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں۔صدر میشیل عون اور ایف پی ایم تحریک کو ماضی کی طرح لبنان کی مسلح افواج میں اثرورسوخ حاصل نہیں رہا ۔ لبنانی فوج نے صدر عون کے مطالبے پر مظاہرین سے بند شاہراہوں کو کھلوانے اور ان سے الجھنے سے انکار کردیا تھا۔ تمام عوامل کے ساتھ ساتھ ایران کی جانب سے ملنے والی مالی امداد میں کمی اور نظم ونسق کا پست معیار واضح ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حزب اللہ شکست سے دوچار ہے‘ مگر وہ پہلے جیسی صورتحال بھی نہیں رہی۔روس مغربی ایشیا میں بحر متوسط کے مشرق میں واقع خطے (الشرق الادنیٰ‘لیوانٹ) میں ایک علاقائی ثالث کار طاقت مانا جاتا ہے۔اس کے علاقائی طاقتوں کے ساتھ اچھے سفارتی و ذاتی تعلقات استوار ہیں۔ روس شام میں مداخلت کے بعد سے ایک مؤثر مذاکرات کار کے روپ میں بھی سامنے آیا۔اس نے بڑی کامیابی سے شام کے جنوبی علاقے کو ایرانی اثرونفوذ سے پاک کیا اور شامی کردوں اور ترکی کے درمیان حالیہ محاذ آرائی میں اہم کردار ادا کیا ہے،شامی نظام اور کرد فورسز کے درمیان ایک مفاہمت طے کرانے میں مذاکرات کیے ہیں۔تاہم ‘امریکہ ان علاقوں میں یہ معیارحاصل نہیں کرسکا۔روس کی مغربی ایشیا کے اس علاقے میں بہتر پوزیشن ہے کیونکہ اس نے عرب اسرائیل تنازع میں ایک غیر جانبدار مؤقف اختیارکیا تھا اور اس نے مختلف علاقائی قوتوں ایران‘ اسرائیل‘ مصر‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کر لیے ہیں۔
روس کے علاقائی کردار کی حیثیت کا یہ مطلب نہیں کہ لبنان میں امریکہ کا کوئی اثر و رسوخ نہیں۔روس اور امریکہ دونوں کے اثرات باہم مل کر موجود رہے ہیں اور دونوں ممالک کے لبنان میں استحکام اور ایک مضبوط مرکزی حکومت سے ہی وسیع تر مفادات وابستہ ہوسکتے ہیں۔روس شام میں تو ایران کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے‘ لیکن لبنان میں اس کی ایران سے حکمت عملی ذرا مختلف دکھائی دیتی ہے۔لبنان میں روس کے حزب اللہ کے ساتھ تعلقات روایتی سے ہیں اور ان میں قریبی یا گرم جوش تعلقات استوار نہیں۔ ایران کے برعکس روس لبنانی حکام سے پس پردہ معاملات طے کرتا ہے اور وہ لبنان کی خود مختاری کی حمایت کے عزم کا کئی بار اعادہ کرچکا ہے ‘جبکہ اس کے مقابلے میں ایران کی ترجیح غیر ریاستی کردار ہیں۔اسی حوالے سے گزشتہ ماہ لبنان کے صدر کے مشیر امل ابو زید نے کہاتھا کہ روسی حکام نے لبنان میں ہر قسم کی بیرونی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ روس کے بعض اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے ‘جس میں انہوں نے لبنان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بیرونی مداخلت کی شدید الفاظ میںمخالفت کی ہے۔اس پریس کانفرنس میں امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ابو زید کا کہنا تھا کہ لبنان میں روس کے سفیر بھی اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ امریکہ‘ لبنان میں حالات خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے اس بات کی تائید بھی کی کہ روس‘ لبنان کے صدر میشیل عون کی مکمل حمایت کرتا ہے۔موجودہ صورت حال میں لبنان ایرانی اثرات سے آزاد نہیں ہوسکے گا اور یورپی طاقتیں اس ضمن میں بہت تھوڑی مدد کریں گی۔روس کی پوزیشن دونوں صورتوں میں ایران کے خلاف یا حمایت میں زیادہ اہم ہے۔ کوئی بھی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا‘ وقت کے ساتھ وفا داریاں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں‘تاہم یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گاوقت ہی ثابت کرے گا۔