ایران کے سپاہِ پاسدارانِ انقلاب کی '' القدس فورس‘‘ کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کے ردعمل میں‘ایران نے عراق میں قائم امریکی فورسز کے کیمپس کو نشانہ بنایا۔ امریکا اور اس کے مفادات سے بدلہ چکانے کے لیے ایران کے پاس بہت سے راستے موجود ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سلگتی آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔عالمی سطح پر پیش گوئیاں کی گئیں کہ ایران کا اگلا قدم کیا ہوگا؟کہا گیا کہ پاسدارانِ انقلاب کی بحریہ خلیج عرب میں بحری جہازوں کونشانہ بنا سکتی ہے یا پھر آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔یہ آبی گزرگاہ دنیا کی تجارت کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں کہا گیا کہ ایران پہلے کی طرح امریکی فورسز‘ اڈوں یا اتحادیوں پر راکٹ حملے کر سکتا ہے (ان حملوں میں اسرائیل اور خلیج میں توانائی کے انفراسٹرکچر کے خلاف حملے بھی شامل ہیں)۔
الغرض کئی خبریں زیر گردش رہیں۔شرق اوسط میںہی نہیں‘ عالمی سطح پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ ایران کی جانب سے کسی بھی بڑی خونیں کارروائی کی صورت میں خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پرشرق ِاوسط میں ایک مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے‘تاہم ایسی خبریں پھیلانے والے یا تجزیہ کار‘ایران کی موجودہ صورت ِ حال کو یکسر نظر انداز کررہے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ سال ستمبر 2019ء میں امریکا تیل و گیس برآمد کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ۔یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف بیانات میںواضح اشارہ دیا ہے کہ حالات اب وہ نہیں رہے‘ کیونکہ امریکا تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو چکا ہے۔یہ سہولیات اس سے قبل صدر بش یا اوبامہ کو حاصل نہ تھیں‘صدرٹرمپ کے تیور شاید اسی وجہ سے بدلے بدلے دکھائی دیتے ہیں۔
کشیدہ صورت حال میں جغرافیائی قافلوں میں شریک دوست ممالک ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان نے امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرانے کے لیے مصالحتی کوششوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے اور اس سلسلے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور آئندہ روز امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سمیت دیگر اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ اتوار کو ایک وفد کے ہمراہ ایران پہنچے اور ایرانی ہم منصب جواد ظریف اور ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقاتیں کیں ‘ جس کے بعد انہوں نے سعودی عرب کااہم دورہ کیا۔پاکستان کی جانب سے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوششیں تو جاری ہیں۔ کیا پاکستان ایران اور امریکا کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرپائے گا یا نہیں؟کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
ایران کے رہبراعلیٰ آیت اللہ علی خامنائی اپنے آئندہ اقدام کو عملی جامہ پہنانے سے قبل تشویش کی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔جنرل قاسم سلیمانی ایران کے قومی ہیرو تھے‘اگر کوئی ظاہری اقدام نہیں کیا جاتا ‘ تو خامنا ئی کی پوزیشن کم زورہونے کے خدشات بھی موجود ہیں۔وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ کسی بھی بڑے حملے کی صورت میں سپر پاور امریکا کے ساتھ براہِ راست بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے نظام کا بھی خاتمہ ہوسکتاہے۔ جیسا کہ لیبیا‘شام ‘عراق کی مثالیں موجود ہیں۔خامنائی یقینی طور پر ایک ایسا جواب دیں گے‘ جس سے ان کا بھرم بھی رہ جائے اور ان کا اقدام زیادہ سخت نہ ہو۔یقیناامریکا ایک شاطرانہ چال کے موڈ میں ہے۔ اب‘ وہ ان خدشات سے کھیلنے کی کوشش کرے گا۔صدر ٹرمپ نے گزشتہ اتوار کو ایران کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ امریکا یا اس کے اتحادیوں کے خلاف انتقام میں کوئی بڑی کارروائی کرتا ہے‘ تو اس کے جواب میں ایران میں 52 اہداف کی ایک فہرست تیار کر لی گئی ہے۔ ایران کے لیے اہمیت کی حامل ان جگہوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے‘مگر اس کے بدلے ایرانی حکومت کی جانب سے موثر جواب دیا گیا‘ جس کے بعد الفاظ کی جنگ تھم سی گئی۔امریکا گزشتہ ہفتے خطے میں مزید فوجی بھیجنے کا اعلا ن بھی کر چکا ۔یہ بھی سد ِ جارحیت کو تقویت پہنچانے والا ایک پیغام تھا۔فوجی نفری کی یہ قسط بھی امریکا کی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم کومزید تقویت دے گی۔
تمام قیاس آرائیوں کے درمیان صورت ِ حال نے یہ تشویش پیدا کر دی ہے کہ مستقبل میں خطے کے حالات کس کروٹ بیٹھیں گے؟ اگر کشیدگی بد ستور بڑھتی رہی تو اس کے منفی اثرات سے پوری دنیا محفوظ نہیں رہ پائے گی۔ ایران کے خام تیل پر انحصار کرنے والے مشرقی ممالک زیادہ متاثر ہوں گے ‘حالات بگڑنے سے بین الااقوامی سطح پر تیل کے داموں میں اضافہ ہو گا ‘ جس سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو نے کا امکان ہے۔اس وقت ایران اور عراق کے بیانات میں جو امریکا کیخلاف نفرت‘دھمکیاں اور غم و غصہ کی جوشدت پائی جا رہی
ہے‘ وہ خطے کے امن و استحکام کے پر سکون مستقبل کی جانب تو ہر گز اشارہ نہیں دے رہی اور اس سے محسوس ہو رہا ہے کہ خطے میں کشیدگی میں کمی لانے کے لیے کوئی سعی کامیاب نہیں ہو گی ‘مگر امید پر دنیا قائم ہے۔وقت بڑے سے بڑے زخم بھر دیتا ہے۔حالات واقعات اور اپنی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے کڑوے گھونٹ بھرنا پڑتے ہیں۔ایرانی سپریم لیڈر نے جس انداز میں امریکا کو دہشت گرد کے لقب سے للکارا اور جوہری توانائی کے معاہدے کو توڑنے کا اعلان کیا‘ اس سے ایران نے امریکا کو بے وقعت کرنے کی کوشش کی ہے اور عراقی پارلیمنٹ کی جانب سے کئے گئے اقدامات ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ اس ہنگامی صورت ِ حال میں ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔دوسری جانب خلیج فارس میں امریکی افواج کی مشقوں نے صورت ِ حال مزید کشیدہ کردی ہے۔ خلیج فارس میں تعینات امریکی ففتھ فلیٹ ایریا میں دو روزہ مشقوں میں فضا سے فضا میں حملوں کی تربیت کی گئی۔ مشقیں ابراہم لنکن ایئرکرافٹ کیریئر کے ساتھ امریکی میرین کور کے تعاون سے کی گئیں۔یہ بات واضح کرتی ہے کہ امریکا کی ایران کے بارے میں وسیع تر حکمت ِعملی کے تحت فوجی آپشنز اب دوبارہ زیرغور ہی نہیں‘زیر عمل آرہے ہیں۔
ایسے میں وقت ہی بتائے گا کہ دوست ممالک کی کوشش کیا رنگ لاتی ہے ۔