آمریت میں قیادت کی منتقلی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے؟خاص طور پر ذاتی نوعیت کا نظام‘جس میںاقتدار ایک ایسی طاقتور سیاسی جماعت کو سونپا جائے‘ جہاںادارہ جاتی میکانزم کی کمی پائی جاتی ہو ‘اس کاہر ذی شعور بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے ۔
روس میں اقتدار کی منتقلی کی خبریں عالمی میڈیا کی زینت بنے ہوئی ہیں۔ 15 جنوری کو روسی صدر نے اپنی قومی سالانہ ریاست کی تقریر میں‘ روسی حکومت کے اندر اقتدار کو دوبارہ تقسیم کی بات کر کے آئینی تبدیلیوں کی تجویز پیش کرتے ہوئے عوام کو حیرت میں ڈال دیا۔ یوں2024 ء میں روسی صدر کی مدت پوری ہوگی۔ایسا نہیں کہ روس کے قانون میں ترمیم کی جائے گی ۔ توقع کی جارہی تھی کہ پیوٹن 2024 ء سے آگے اقتدار میں اپنا وقت بڑھانے کا کوئی راستہ نکالیں گے‘ جیسے ماضی میں وہ کرتے آئے ہیں ۔ پیوٹن کی جانب سے یہ اعلان ‘ اگلے کئی برسوں کے دوران بننے والے ممکنہ دباؤ کو کم کرنے کے لیے کیا گیا‘جو ممکنہ طور پر مظاہروں کی صورت میں ہو سکتا تھا‘ کیونکہ روس میں پہلے ہی اشرافیہ کی لڑائی شدت اختیار کررہی تھی اورحالیہ برسوں میں ترقی پذیر روسی معیشت سے عوام کی عدم اطمینانی صاف جھلک رہی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ روس کے جمود کا معاشی نقطہ نظر خراب ہوسکتا ہے ۔عین ممکن ہے کہ پیوٹن آئینی طریقے سے وزیر اعظم کے کردار میں واپس آ جائیں‘ جیسے کہ وہ 1999ء-2000ء اور 2008ء - 2012ء میں اقتدار میں آئے اورانہوں نے اپنے منصب کے اختیارات کو مستحکم کیا۔ یہ اقدام ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوششوں کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے‘ جنہوں نے ایک مستحکم صدارتی نظام تشکیل دینے‘ وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش ہونے اور پھر اپنے آپ کو 2014 ء میں صدر منتخب کرانے کے لیے قومی ریفرنڈم کا مطالبہ کیا ۔عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ دور میں پیوٹن کے لیے یہ آپشن خطرناک ثابت ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ہمیشہ حالات وہ نہیں رہتے‘ جیسے آپ چاہتے ہیں۔
زیادہ امکان ہے کہ پیوٹن سٹیٹ کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے ایک نئے کردار میں قدم رکھیں گے ‘ جیسا کہ صدر کے خصوصی مشیر کی حیثیت سے2000 ء کی دہائی میںاس کی بہترین مثال موجود ہے‘ لیکن اب کی بار کہانی کچھ اور ہی ہو۔ پیوٹن کی اس حیثیت میں تبدیلی کا خیال ‘جس میں وہ سینئر سیاستدان یا قوم کے والد کا کردار ادا کرسکتے ہیں‘ کچھ عرصے سے کریملن کے اذہان میں زیرگردش ہے۔ پیوٹن اپنا الگ نظریہ رکھتے ہیں۔
پیوٹن نے ریاستی کونسل کا درجہ بڑھانے پر زور دیا۔ یہ راستہ قزاقستان میں اقتدار کی تبدیلی (2018ء) سے ملتا جلتا ہے‘ وہاں صدر نورسلطان نذربائف نے قازقستان پر تقریباً 30سال حکومت کی‘ تاہم گزشتہ سال استعفیٰ دینے سے قبل‘ نذر بائف نے ملک کی سلامتی کونسل کے اختیارات کو مستحکم کیا اور پھر وہ تاحیات چیئرمین بنے‘ جس سے وہ تا مرگ قازقستان کے طاقت ور بروکر بن گئے۔قطع نظر اس کے پیوٹن جو بھی راستہ اختیار کریں‘ یقینی بات ہے کہ وہ مستقبل قریب میں روسی سیاست کی تار کھینچتے رہیں گے‘ لہٰذا نتیجہ روس کے لیے منفرد نہیںہوگا۔ آمرانہ حکومتوں کے لیے یہ عام نصاب ہے ‘جو روس میں نظر آرہا ہے۔ آمرانہ نظام ایک ہی رہنما کے ذریعہ کئی دہائیوں تک چلایا جاتا ہے۔
تمام ممالک میں قائدانہ منتقلی کا اسر نوع جائزہ لیں ‘تو حالات درست منظر کشی کرتے ہیں‘ آمرکھیل کے اصولوں کو وقت اور حالات کے مطابق ‘آئینی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تبدیل کرتے ہیں اور اقتدار کو اپنی فطری موت تک برقرار رکھتے ہیں۔ مثال کے طور شام میںحفیظ الاسد نے تقریباً 30 تیس سال حکومت کی ‘یہاں تک کہ وہ اپنے عہدے پر رہتے ہوئے اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔ ترکمانی صدر سپرمورات نیازوف اور ازبکستان کے اسلام کریموف بالترتیب 16 اور 25 سال برسر اقتدار رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔یہ الگ بات ہے کہ حالات کشیدہ ہوں اور مردہ پالیسیوں کی بدولت عوامی دباؤ سے اقتدار چھوڑنا پڑ جائے۔ 1946ء سے 2012 ء کے درمیان قدرتی وجوہ کی بناء پر مرنے والے تمام 79 آمر رہنماؤں کی تاریخ پڑھیں تو 92 فیصدآمر تا مرگ حکومت پر قابض رہے۔ ترکمانستان اور ازبکستان کی مثالیں موجود ہیں۔ دونوں حکومتوں پر نیازوف اور کریموف قابض رہے۔
جب ایک مطلق العنان اقتدار میں مر جاتا ہے‘ توسیاسی اشرافیہ ایک نئے جانشین کے گرد اتحاد کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کے اختیارات میں تقسیم کا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے‘اس کا مطلب ہے کہ اہم تبدیلی لانے کی بجائے پیوٹن کا اعلان ممکنہ طور پر جمود کو جاری رکھنے کا محض اشارہ تھا‘ کیونکہ ملک کے نئے وزیر اعظم کے طور پر میخائل مشستین کا اعلان اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔ فیڈرل ٹیکس سروس کے سربراہ کی حیثیت سے‘ مشستین ایک نسبتاًغیر معروف شخصیت تھی ۔
سیاسی پنڈت جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کسی بھی منتقلی میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا‘ جب تک وہ اپنا خاص مقام نہ رکھتا ہو۔ قیادت کی منتقلی میںآمر رہنما کمزور عہدیداروں کو مقرر کرنے کی کوشش کرتے ہیں (بعض اوقات غلطی سے)‘ تاکہ وہ ان پر اپنی گرفت مضبوط رکھ سکیں اور اگر اشرافیہ اور طاقتور ارکان یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس طرح سمجھوتہ کرنے والے شخصیات پر قابو پالیں گے‘ تو وہ اس فیصلے پر عمل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے ہیں۔