سرسبز و شاداب باغات میں گھرا ہوا یہ شہر ہمیشہ سے صاحبانِ علم اور واقفانِ عالمِ حیرت کا مسکن رہا ہے۔ کیسے کیسے فلسفی، شاعر، سائنس دان اور صوفیاء اس شہر نے پیدا کیے۔ تہران سے مشہد جاتے ہوئے جب راستے کی تھکن اور منزل کے انتظار کی شدت ناقابلِ برداشت ہونے لگے تو اس شہر کی خوبصورتی و دلفریبی آپ کو سکون بخشتی ہے۔ فریدالدین عطار کا شہر نیشاپور۔ یہ شہر ہمیشہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے حملہ آوروں کی زد میں رہا۔ بار بار اُجڑا اور بار بار آباد ہوا۔ ایران‘ صفوی حکومت کے آنے سے قبل صوفیاء اور اولیائے کرام کا مسکن تھا۔ یہیں سے صوفیائے کرام برصغیر، تُرکی اور چین تک اسلام کا پیغام لے کر نکلتے تھے۔ اسی نیشاپور سے معین الدین چشتی اجمیریؒ نے اپنے ساتھ ہندوستان لے جانے کے لیے ایک گوہرِ تابدار خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کو چُنا تھا۔ صفوی آئے تو ان کی حکومت کی پہلی تلوار اہلِ تصوّف پر چلی کہ یہ لوگ (اہلِ صفا) مسلک اور فرقے کی جنگ کو اپنے اوپر حرام تصور کرتے تھے۔ لیکن اس دور سے قبل لاکھوں مستجاب الدعوات، بندگانِ خُدا ایران کے شہروں میں آباد تھے لیکن نیشاپور تو جیسے ان کا دیار تھا۔ دنیا کی بے ثباتی، مال و دولت سے استغنا، بندگانِ خُدا کی خدمت اور دادرسی اور روزِ حشر اللہ سے ملاقات کی خواہش ان بزرگوں کا سرمایہ تھی۔ یہ صوفیا کسی میں کوئی گوہرِ یگانہ دیکھتے تو چُن لیتے اور پھر ریاضت کی سان پر چڑھا کر ایسا چمکدار بناتے کہ اس کی روشنی ایک عالم کو منوّر کرنے لگتی۔ ایسا ہی ایک گوہرِ نایاب فرید الدین عطّار‘ نیشاپور میں تجارت میں محو اور معاملاتِ دنیا میں منہمک تھا۔ ایک بہت بڑے دوا خانے کا مالک۔ دکان پر بیٹھا تھا کہ ایک فقیر‘ جو جانتا تھا کہ اس شخص کے اندر ایک گوہرِ نایاب کی صورت خشیت الٰہی کا دل موجود ہے لیکن دُنیا کی آلائش نے اس کی چمک کو ماند کر رکھا ہے۔ اس نے دکان کے دروازے پر آ کر صدا لگائی۔ عطّار اپنی دکان اور کاروبار میں منہمک رہے۔ فقیر کی صدا کا کچھ اثر نہ ہوا۔ فقیر سامنے آیا اور بولا ’’تم دنیا میں اتنے گم ہو، جان کیسے دو گے؟‘‘ عطّار جھنجھلا کر بولے: ’’جیسے تم دو گے۔‘‘ فقیر ہنسا اور بولا: ’’میری طرح؟‘‘ کشکول اپنے سر کے نیچے رکھا، ٹیک لگائی۔ زبان سے لا الہ الا اللہ کا نکلنا تھا کہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ عطّار حیرت میں گم‘ سناٹے میں آ گئے۔ دل کے نگینے پر دنیا کی آلائشوں نے جو مَیل چڑھا رکھی تھی اتر گئی۔ آواز لگائی ’’میری دکان سے جس کا جی چاہتا ہے‘ جو کچھ اٹھانا ہے‘ اٹھا لے‘‘ اور اس مالکِ حقیقی کی معرفت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے جس سے ملاقات ہی اہلِ دل کی منزل ہوا کرتی ہے۔ مدتوں شیخ رکن الدین اسکاف کی تربیت میں بسر کیے۔ پھر شیخ مجدد الدین بغدادی کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلوک کی منزل کے راہی بن گئے۔ اپنی ریاضتوں اور مخلوقِ خدا کی خدمت سے بارگاہِ الٰہی میں یہ مقام پایا کہ مُستجاب الدُّعا ہو گئے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں اللہ جن کی دعائیں رد نہیں کرتا کہ وہ ذاتی غرض سے پاک ہوتی ہیں۔ اسی نیشا پور میں اب وہ تاجر نہیں بلکہ بندۂ خدا کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے۔ تاتاریوں کی یلغار تھی، شہر کے شہر اُجڑ رہے تھے، سروں کی فصلیں کٹ رہی تھیں، شہر اور بستیاں ویران ہو رہی تھیں۔ تاتاری اللہ کا عذاب تھاجو لوگوں کے اعمال کی وجہ سے ان پر مسلّط ہو چکا تھا۔ نیشاپور کی شہرت تاتاریوں تک بھی پہنچی، وہ اس شہر کو تاراج کرکے اس کی دولت لوٹنا چاہتے تھے۔ اِدھر تاتاری لشکر نیشاپور کی طرف روانہ ہوا اور ادھر فرید الدین عطّارؒ نے بارگاہ الٰہی میں دستِ دُعا بلند کیا۔ فریاد کے بعد خاموشی سے مٹی کا رکھا ہوا پیالہ اپنے سامنے اُلٹا دیا۔ تاتاری نیشاپور کے اردگرد گھومتے رہے لیکن نیشاپور ان کی آنکھوں سے اوجھل رہا، ناکام واپس لوٹ گئے۔ اگلے دن دوبارہ قصد کیا، عطار نے پھر اپنے اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کی اور پیالہ اوندھا کر دیا۔ نیشاپور پھر تاتاری فوج کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ اگلے روز سپہ سالار نے خود قصد کیا۔ تقدیر کا فیصلہ آ چکا تھا۔ مشیتِ الٰہی لوگوں کو تاتاریوں کے عذاب کا مزا چکھانا چاہتی تھی۔ انسانوں کے اعمال اس عذاب پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کے لیے کافی تھے۔ تاتاری افواج کی آمد سے چاروں جانب گرد اُڑنے لگی‘ عطّار نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کرنا چاہے تو ایک شخص‘ جن سے عطّار واقف نہ تھا کہ وہ تو اللہ کے تکوینی نظام کا کارندہ تھا، تلوار سونت کر عطّار کے سر پر کھڑا ہو گیا اور بولا: ’’اگر اب پیالہ اوندھا کرنے کی کوشش کی تو سر تن سے جدا کر دوں گا۔‘‘ اللہ کی مشیت کے سامنے عطّار کی کیا مجال۔ اٹل فیصلوں اور تقدیرِ الٰہی کے سامنے تو پیغمبروں کو بھی حکم مل جاتا کہ اب بستی چھوڑ کر نکل جائو، یہ لوگ اصلاح کے قابل نہیں رہے۔ عطّار خاموش تقدیرِ الٰہی کا انتظار کرنے لگے۔ تاتاری داخل ہوئے تو سپاہیوں کے ہاتھ لگنے والا پہلا شخص یہی گدڑی پوش عطار تھے۔ ایک تاتاری سپاہی عطار کو گھسیٹتا ہوا لے جا رہا تھا۔ جاننے والے ایک شخص نے کہا۔ اس بوڑھے کو مت مارو۔ میں تمہیں اس کے بدلے دس ہزار اشرفیاں دوں گا۔ عطّار نے کہا: مجھے اس کے ہاتھ فروخت مت کرنا، تمہیں اس سے زیادہ قیمت مل جائے گی۔ سپاہی خوشی میں آگے بڑھا۔ ایک اور شخص جو عطار کی عظمت سے واقف تھا، گھاس کا ایک گٹھا سڑک پر رکھے بیٹھا تھا۔ سپاہی سے کہنے لگا: اس بوڑھے شخص کو چھوڑ دو، میں تمہیں گھاس کا یہ گٹھا دے دوں گا۔ عطّار نے کہا مجھے بیچ دو کہ شاید تمہیں پھر اس سے زیادہ قیمت نہ مل سکے۔ سپاہی طیش میں آیا، تلوار نکالی اور عطار کا سر تن سے جدا کر دیا۔ قوموں پر اجتماعی طور پر اللہ کی ناراضی بندگانِ الٰہی کے آنسوئوں، ہچکیوں اور آہوں سے لبریز دعائوں سے دور ہوتی رہتی ہے کہ اللہ اپنے ایسے بندوں کی دعائیں رد نہیں کرتا۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب اس کا فیصلہ اٹل ہو جاتا ہے۔ ایسے دعا کرنے والے ہاتھ بھی اس انجام کا حصہ بن جاتے ہیں جو پورے شہر، علاقے یا قوم پر آتا ہے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اللہ کسی قوم پر عذاب مسلّط کرنے سے پہلے وارننگ نہ دے۔ ’’اور اس بڑے عذاب سے پہلے بھی ہم انہیں کم درجے کے عذاب کا مزہ ضرور چکھائیں گے۔ شاید باز آ جائیں۔‘‘ (السجدہ 21) اس کم درجے کے عذاب کو اللہ نے سورہ الانعام کی 65 ویں آیت میں واضح کیا ہے کہ ’’تمہیں مختلف ٹولیوں یا گروہوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے سے لڑوا کر ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھائے۔‘‘ یہ عذاب ہم پر کئی برسوں سے مسلّط ہے‘ لیکن ہمارے رہنما، لیڈر اور علماء کرام اسے عذاب تصور نہیں کرتے۔ یہ سب اس عذاب کی شدّت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ان کی صفوں میں کون ہے جو دوسروں کی گردنیں کاٹتا ہے‘ سب جانتے ہیں کہ کون ہیں جو رات دن موبائل فونوں پر میسیج کرتے ہیں۔ اتنے سنی، اتنے شیعہ، اتنے سندھی، اتنے بلوچ، اتنے پنجابی اور اتنے پٹھان مارے گئے۔ سب ایک دوسرے کو انتقام کا درس دیتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کو شہادت کی منزل دکھاتے ہیں۔ سب صرف اپنے مرنے والوں کا ماتم کرتے ہیں، اپنے مرنے والوں کا جنازہ پڑھتے ہیں‘ اپنے مرنے والوں کو شہید کہتے ہیں۔ دوسرے گروہ کے مرنے والوں پر نفرین بھیجتے ہیں، انہیں جہنم رسید سمجھتے ہیں، ان کے جنازوں سے دور رہتے ہیں۔ ایسے میں کوئی فرید الدین عطارؒ دستِ دعا بلند بھی کرے تو اللہ کے اٹل فیصلوں کے سامنے اس کی کیا حیثیت اور کیا اوقات!