"OMC" (space) message & send to 7575

ایمپائر

ہرکوئی شاداں ہے۔ سب انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔ ملک جمہوریت کی پٹڑی پر رواں دواں ہوچکا ہے۔ اب کسی طالع آزما کو اس کے مقدر سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کوئی جمہوریت پر شب خون نہیں مارسکے گا۔ عدلیہ کسی غیرآئینی اقدام کو جائز قرار نہیں دے گی۔ ایک آزاد عدلیہ نے جنم لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک طاقتور میڈیا ہے جس کی جاگتی آنکھ نہ کسی دھاندلی کو چھپائے گی اور نہ کسی دھونس کو۔ سب کے چہرے بے نقاب کرے گی۔ کوئی بددیانت ، چور، رشوت خور، ٹیکس چور اور خائن اپنے آپ کو نہیں چھپا سکے گا۔ الیکشن کمیشن آزاد ہے، خودمختار ہے، اپنے فیصلے کسی دبائو کے بغیر کرتا ہے ۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔ اس نے اپنے بہت سے قوانین خود بنائے ہیں۔ فوج تو اس قابل نہیں رہ گئی کہ کسی قسم کی مداخلت کرسکے۔ ملک کے مختلف محاذوں پر پھنسی ہوئی ہے اور اگر آئی یا مداخلت کی کوشش کی تو عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی مل کر اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ یہ ہے وہ منظر نامہ جو اس ملک کے عوام کے سامنے گزشتہ ایک سال سے پیش کرنے کے بعد ایک ایسی ’’غیرجانبدار‘‘ نگران حکومت معرض وجود میں آئی ہے جس نے یوں لگتا ہے کہ انتہائی پرامن، معاشی طورپر خوشحال اور تشدد سے پاک ملک میں بڑی آسانی اور مرنجاں مرنج فضا میں دوماہ کے اندر ’’خوش اسلوبی‘‘ سے الیکشن کروانے ہیں۔ لگتا ہے‘ سب نے سمجھ لیا ہے کہ آئندہ الیکشن ایسے ہوں گے جیسے جمخانہ کلب‘ اسلام آباد کلب، روٹری، لائنزیا اپوا کے الیکشن ہوتے ہیں۔ لوگ آرام سے نہادھو کر گھروں سے نکلیں گے، کہیں چائے کے کپ پر خوش گپیاں کریں گے، امیدواروں کی اہلیت پر گفتگو ہوگی اور پھر ووٹ ڈال کر گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ اس لیے کسی تجربہ کار، مشاق، انتظامی امور میں تجربہ کار اور چاک وچوبند نگران حکومت کی کیا ضرورت ہے ۔ بس خاموشی سے الیکشن ہی تو کرانے ہیں۔ انہوں نے کون سا ملک سنبھالنا ہے۔ یہ ہے وہ منظر نامہ جس میں ہرکوئی شاداں و فرحاں ہے۔ ہرکسی نے یہ تصور کرلیا ہے کہ آئندہ ڈیڑھ دوماہ میں لوگ انتخابی سرگرمیوں میں اتنے مصروف ہوجائیں گے کہ کوئی ڈکیت، چور، قاتل یا اغواکار اپنی کارروائی نہیں کرے گا، اسے الیکشن سے فرصت ہی نہیں ہوگی۔ لوگ الیکشن کی گہما گہمی میں اتنے مصروف ہوں گے کہ انہیں روزمرہ کے دکھ جن میں مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور بیماری شامل ہیں‘ سب بھول جائیں گے۔ ٹارگٹ کلنگ کرنے والے، اجرتی قاتل، دھماکے کرنے والے، خودکش بمبار سب کے سب اس ملک کو جمہوریت کا تحفہ دینے کے لیے دوماہ کے لیے جنگ بندی کردیں گے۔ بیرونی طاقتیں جو پاکستان کے خلاف سازشیں کرتی ہیں، وہ بھی دوماہ کے لیے ہاتھ روک لیں گی کہ ایک دفعہ جمہوری حکومت برسراقتدار آجائے پھر ہتھ جوڑی ہوگی، ابھی ذرا سانس لے لیں۔ نہ آئی ایم ایف اپنی قسط مانگے گا، نہ بینک اپنے قرضوں کا سود طلب کریں گے، نہ ہی ان دنوں کوئی چیز باہر سے منگوانی ہوگی کہ زرمبادلہ کے ذخائر کی ضرورت ہو۔ یہ دومہینے تو گویا پورا ملک چھٹی پر ہوگا، سب لوگ ساٹھ روزہ ویک اینڈ منارہے ہوں گے‘ اس لیے نگران حکومت کے لیے تجربہ کار اور اہل ہونا کونسا ضروری ہے۔ بس اسے غیرجانبدار ہونا چاہیے اور اس کی اولین شرط یہ ہے کہ اُسے حکومت اور اپوزیشن غیرجانبدار مان لے۔ اس مرنجاں مرنج، خوش خیال اور خوبصورت منظرنامے کا خواب اتنا حسین ہے کہ آنکھ کھولنے سے ڈرلگتا ہے۔ پاکستان جن حالات سے گزررہا ہے اس میں اس کی مکمل انتظامی مشینری دن کے چوبیس گھنٹے کے لیے ایک بے بس تماش بین کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اس کا کام صرف لاشیں گرانا ، موقع سے شواہد اکٹھے کرنا، ایف آئی آر درج کرنا اور مشکوک افراد کے خاکے شائع کرکے انعام کا اعلان کرنارہ گیا ہے۔ پورے ملک کی انتظامی استعداد عام حالات میں بھی جب لوگ اپنے گھروں، دفتروں یا محفوظ مقامات پر ہوتے ہیں‘ اس قدر محدود ہے کہ وہ ان کے جان ومال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔ یہاں معاشی بدحالی اور عالمی سطح پر زبوں حالی کا ذکر نہیں۔ یہ اس ملک کے روزمرہ کے حالات ہیں۔ لیکن الیکشن کے دنوں میں پورا ملک انتظامی زبان میں ایک نرم چارہ یا Soft Bellyبنا ہوتاہے۔ پورا ملک دن رات کی مصروفیت میں گم ہوتا ہے اور کوئی بھی اپنی مصروفیات کم کرنے پر تیار نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح اسے اپنی ناکامی کا ڈرہوتا ہے۔ اجلاس ، کارنر میٹنگ، استقبالیہ جلوس، جلسے، گھر گھر کنویسنگ ، بڑے پیمانے پر ریلیاں اور جلسے ہرسطح کے لیڈر اور امیدوار کے بے تکان دورے، غرض کوئی بھی ان تمام معاملات کو ترک کرنا نہیں چاہتا کہ ایسے میں اس کے مخالف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پورے ملک میں ایک لاکھ کے قریب پولنگ اسٹیشن بنیں گے جن پر تعینات کرنے کے لیے پانچ سے زیادہ اہلکار ملک کی سیکورٹی ایجنسیوں کے پاس موجود نہیں ہوں گے۔ یہ دوماہ ایسے ہیں جن کے دوران ملک میں سب سے تیز، انتظامی طورپر سب سے تجربہ کار اور صلاحیتوں کے اعتبا ر سے بہترین نگران حکومت کی ضرورت ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم اس گمان میں ہیں کہ یہ کوئی ایک روزہ کرکٹ میچ ہے جس میں بس ایمپائر چاہیے، سو ایمپائرچن لیے، لیکن انہیں اندازہ تک نہیں کہ الیکشن کوئی کرکٹ میچ نہیں ہوتا جس میں 22کھلاڑی کھیل رہے ہوتے ہیں بلکہ اس میں پورے کا پورے سٹیڈیم کھیل میں شامل ہوتا ہے۔ یہی نہیں‘ وہ لوگ بھی جو باہر شہر میں رہ رہے ہوتے ہیں‘ وہ بھی ذرا سی خبر ملتے ہی سٹیڈیم کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوسکتے ہیں، وکٹیں اکھاڑکر پھینک سکتے ہیں، کھلاڑیوں کو پائوں تلے روند سکتے ہیں۔ ایسے میں ایمپائر کتنا بھی غیر جانبدار ہوصرف ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کسی ملک میں اس کی سیاسی قیادتوں نے لوگوں کی بھوک، غربت، افلاس ، بیماری اور بدنصیبی سے بے پروا ہوکر الیکشنوں کو ملک کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ سمجھ لیا تو وہ ملک غصے میں بپھرے ہوئے لوگوں کے لیے نرم چارہ بن گیا۔ یاد نہ آئے تو سن لیجیے فرانس کے بادشاہ لوئی اور انگلینڈ کے چارلس اول دونوں عوام کے ہاتھوں قتل سے پہلے بڑے مطمئن تھے کہ ہم ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخاب کرارہے ہیں لیکن انہی انتخابات کی کوکھ سے ان انقلابیوں نے جنم لیا جو خود ان کی جان لے کررہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں