ایسے لگتا ہے کہ ہوسِ اقتدار کی تڑپ سب کو گھیر گھار کے ایک ایسے میدان میں اکٹھا کر رہی ہے جس میں پینسٹھ سال سے ظلم، جبر، ناانصافی اور بھوک و افلاس سے انگارہ بنے ہوئے عوام ایک لمحے میں دہکتی آگ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس آگ کا ایندھن بننے کے لیے اقتدار کے پجاری بیرونِ ملک پُر آسائش زندگی چھوڑ کر الائو کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ کتنے خوش فہم ہیں وہ سیاسی رہنما، دانشور اور تجزیہ کار جو تصور کرتے ہیں کہ اس مملکتِ خداداد میں لوگوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ان کے ووٹ سے ملک میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی اس بات پر سروے کرنے کی جرأت نہیں کرتا کہ لوگوں سے صرف ایک سوال پوچھ لے کہ کیا انہیں اس بات پر یقین ہے کہ ان کے ووٹ سے اس ملک میں تبدیلی آ سکتی ہے؟ اکثریت اس کا جواب نفی میں دے گی۔ یہ قوم اس جمہوری نظام پر عدم اعتماد تیس برسوں سے کر رہی ہے۔ گزشتہ سات انتخابات میں ساٹھ فیصد افراد نے ووٹ ہی نہیں ڈالے۔ اگر ہر بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے خانوں اور نشانات کے بعد ایک خانہ ایسا بنا دیا جائے جس میں یہ لکھا جائے کہ ’’میںان سب کو ناپسند کرتا ہوں‘‘ تو سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار بھی دس سے پندرہ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکے گا اور ان تمام امیدواروں کی نفی کرنے والے اور اس جمہوری نظام کو مسترد کرنے والوں کی تعداد ساٹھ فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو گی۔ 1985ء میں جب یہ تمام پارٹیاں جو آج جمہوریت کی چیمپئن ہیں موجود نہیں تھیں، انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ اُس وقت ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ لوگوں نے ووٹ دیئے یعنی 52.93فیصد۔ 1988ء میں 43.07فیصد، 1990ء میں 45.46فیصد، 1993ء میں 40.28 فیصد، 1997ء میں 35.17فیصد، 2002ء میں 41.80فیصد اور 2008ء میں 44.55فیصد۔ آخری الیکشن اس قوم کی جمہوریت کے ساتھ آخری امید تھی۔ آپ حیران ہوں گے کہ 2008ء کے الیکشن میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 2.70فیصد تھی یعنی اصل میں 41.75فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالا تھا۔ ان سات انتخابات میں جمہوریت، الیکشن اور حکومت بدلنے کے اس فرسودہ طریقِ کار کو کبھی اکثریت کی حمایت نہیں ملی۔ 55فیصد ووٹر اس نظام کو مسترد کر کے گھروں میں بیٹھے رہے۔ یہ لوگ بچے نہیں تھے، یہ فاترالعقل اور پاگل بھی نہیں تھے۔ ان لوگوں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ اس فرسودہ، ناکارہ اور غیر نمائندہ جمہوری نظام کا حصہ نہیں بننا۔ آپ حیران ہوں گے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا اثر اور تمام امیدواروں کا زور صرف ان ووٹروں پر چلتا ہے جو ان کی برادری، حلقہ اثر، قبیلے یا پھر کسی طرح ان کے محکوم ہوتے ہیں۔ یہ ان کو گاڑیوں میں زبردستی ٹھونس کر پولنگ اسٹیشنوں تک لاتے ہیں۔ ان کو بیلٹ بکس تک دھکیلتے ہیں اور ووٹ ڈلواتے ہیں۔ ان میں اکثریت گائوں کے ناخواندہ افراد، زیرِ اثر خواتین یا پھر خون اور نسل کے رشتے میں بندھے ہوئے لوگوں کی ہوتی ہے۔ میں نے بلوچستان میں بار بار الیکشن کے دوران ریٹرننگ آفیسر کی خدمات انجام دی ہیں جہاں پولنگ اسٹیشن بہت زیادہ فاصلے پر ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اور امیدوار، اونٹوں، گھوڑوں، ٹریکٹر ٹرالیوں، ٹرکوں اور بیل گاڑیوں میں لوگوں کو کئی کئی کلو میٹر سے کھینچ کر لاتے ہیں۔ بعض جگہ تو کئی سو میل کی مسافت کئی کئی دنوں میں طے ہوتی ہے۔ مثلاً ژہوب اور کوہلو کے بہت سے علاقے ایسے ہیں۔ اس لیے یہ بات غلط ہے کہ لوگ ذرائع آمدورفت کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالتے یا دور دراز پولنگ اسٹیشنوں کی وجہ سے ووٹنگ کم ہوتی ہے۔ ایسا ہوتا تو بلوچستان میں ووٹ ہی نہ ڈلتے۔ جو ووٹ ڈالنے نہیں جاتا وہ سوچ سمجھ کر اس نظام کے خلاف ووٹ ڈال رہا ہوتا ہے۔ اس نظام کو مسترد کرتا ہے۔ سیاستدان تو ترغیبات کے معاملے میں آخری حد تک گزر جاتے ہیں۔ ایک انتخابی مہم یاد آ رہی ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کا انتخابی نشان چابی تھا۔ ژہوب پشین اور لورالائی کے علاقوں میں وہ اکثریت سے جیتے تھے۔ مولانا مفتی محمود جو مولانا فضل الرحمن کے والد گرامی تھے‘ اس وقت اس جماعت کے قائد تھے اور بلوچستان کی اکثر مساجد میں ان کا سکّہ چلتا تھا۔ بلوچستان میں پانی کا کنواں ہو نہ ہو‘ گائوں میں مسجد ضرور ہوتی ہے۔ ہر مسجد کا مولوی کہتا تھا یہ چابی جنت کی چابی ہے۔ اس پر مہر لگائو گے تو جنت ملے گی۔ لوگ عورتوں کے ووٹ کے بارے میں سوال کرتے تو کہتے تم کیسے بدبخت ہو‘ خود جنت میں جانا چاہتے ہو اور اپنی ماں‘ بیٹی‘ بہن اور بیوی کو اس سے محروم رکھنا چاہتے ہو۔ اس کے باوجود وہ پچاس فیصد ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک نہ لا سکے۔ اس نظام پر عدم اعتماد کرنے والوں کی تعداد پھر بھی زیادہ رہی۔ اس نظام کی دوسری بدقسمتی دیکھیے کہ اس میں جو پارٹی حکمران ہوتی ہے اسے اس ملک کے 20 فیصد سے بھی کم ووٹوں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ 2008ء میں 41.75 فیصد ووٹ ڈالے گئے جن میں سے پیپلز پارٹی کو 30.79 فیصد ووٹ ملے یعنی کل ووٹوں کا 13 فیصد جس کی بنیاد پر انہوں نے پانچ سال حکومت کی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں ڈالے گئے ووٹوں کا 28.28 فیصد ملے جس کا مطلب ہے وہ دس فیصد ووٹ لے کر صوبے بھر پر حکومت کرتی رہی۔ یہی حال باقی جماعتوں کا ہے۔ امریکہ کے انتخابات میں بیلٹ پیپرز کے آخر میں ایک خانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ میں ان تمام امیدواروں میں سے کسی ایک کو بھی پسند نہیں کرتا۔ اگر وہ چاہے تو اپنی پسند کے آدمی کا نام بھی لکھ سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں تمام بیلٹ پیپروں پر یہ خانہ درج کر دیا جائے کہ میں ان تمام سیاست دانوں میں کسی ایک کو بھی پسند نہیں کرتا تو آپ حیران رہ جائیں کہ 60 فیصد کے قریب لوگ اس خانہ پر مہر لگانے والے ہوں گے۔ اگر ہر گھر میں مردم شماری کی طرح پورے ملک میں ایک دن کرفیو لگا کر صرف یہ پوچھ لیا جائے کہ آپ اس آئین‘ جمہوریت‘ جمہوری نظام اور سیاسی پارٹیوں کو درست سمجھتے ہیں تو ملک کی اکثریت اس کا جواب نفی میں دے گی اور ایسا وہ بار بار الیکشن سے دور رہ کر بتا چکی ہے۔ گزشتہ آٹھ انتخابات کے بعد لوگوں کو اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ یہ سب ایک فراڈ اور دھوکہ دہی ہے۔ کل تک یہ ساٹھ فیصد خاموش تھے‘ علیحدہ تھے‘ اپنے گھروں میں قید تھے لیکن اب یوں لگتا ہے کہ اس جمہوری نظام نے ان ساٹھ فیصد لوگوں کا جینا اتنا حرام کردیا ہے کہ ان کے لیے زندگی اور موت میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف جمہوری نظام میں ہی ایسا ہوا کہ لوگوں نے اپنی جانیں اور مال بچانے کے لیے اپنے گھروں سے ہجرت کی۔ آپ کو ہر شہر میں ہجرت زدہ خانماں برباد لوگ ملیں گے۔ ان کی نفرت آگ ہے‘ ان کا غصہ الائو ہے اور اس آگ کے الائو کا ایندھن وہ لوگ بننے والے ہیں جنہوں نے پینسٹھ سال اس ملک کو لوٹا ہے۔ یہ آج بھی اسی زعم میں ہیں کہ وہ میڈیا‘ انتخابی مہم‘ جوڑتوڑ‘ نگران حکومت‘ بیوروکریسی اور سرمایہ کے بل بوتے پر لوگوں کے خواب چوری کر لیں گے۔ انہیں نئے خواب تحفے میں دیں گے۔ لیکن اس کاروبار کے زمانے چلے گئے۔ اب صرف کسی طالع آزما کی چھوٹی سی غلطی ایک چنگاری بن جائے گی اور پھر دیکھیے یہ خشک لکڑیوں جیسے انسان کیسے جلتے ہوئے انگاروں میں تبدیل ہو کر ان سب پر گرتے ہیں۔