"OMC" (space) message & send to 7575

کس کس کے ہاتھ میرے گریباں تک آگئے

پاکستان کی سیاست پر قابض جب چند خاندانوں کے اس سر زمین پر ظہور پذیر ہونے، اُبھرنے اور پھر اپنے علاقے کے لوگوں کو محکوم بنا کر رکھنے کی تاریخ سے میں نے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ یہ وہ لوگ تھے جن کے آبائو اجداد نے اپنے بھائیوں کا خون بہا کر انگریزوں سے جاگیریں وصول کیں، اپنے حقِ نمک کی قیمت کے طور پر راج سرکار کے عہدے حاصل کیے اور پھر اپنے علاقے، خاندان اور قبیلے کے لوگوں کو انگریز کے قائم کردہ دو اداروں’’ تحصیل‘‘ اور’’ تھانے‘‘ کے ذریعے محکوم بنایا تو بہت سی انگلیاں میری جانب اٹھیں۔ لیکن ایک قلم کی جنبش نے تو مجھے حیران کر دیا۔ نسل در نسل انسانوں کو محکوم بنانے والوںاور آج تک انہیں بھیڑ بکریوں سے بھی کم حیثیت دینے والوں کے حق میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓاور فتحِ مکہ کے زمانے تک اسلام لانے والوں کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا کہ ان کے آبائو اجداد بھی اسلام نہیں لائے تھے۔ کیا خوبصورت دلیل ہے جسے کالم میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ کیا ابوجہل کے فرزندِ ارجمند حضرت عکرمہؓ ابوجہل کی روش پرچلتے رہے؟ عصبیت کے اسی حوالے کو اپنے لیے اسی طرح باعثِ فخر سمجھتے رہے؟ انہوں نے اپنے باپ دادا کے نہ صرف مذہب کو چھوڑا بلکہ ان کے اپنائے ہوئے طرزِ زندگی کو بھی ترک کیا۔ کون سا ایسا صحابیِ رسولؐ ہے جس نے اپنے مشرک والدین پر فخر کیا ہو؟ ان کی تشبیہہ آج کے بددیانت، چور، اور ظالم جاگیرداروں کے ساتھ دے کر معروف کالم نگار کیا ثابت کرنا چاہ رہے تھے، یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اقتدار پر قابض یہ وہ خاندان ہیں جن کے گھر کے ڈرائنگ روموں میں انگریزوں سے وفاداری اور ملک وقوم سے غداری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والے آبائو اجداد کی قد آدمِ تصویریں نصب ہیں۔ وہ وردیاں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں، وہ دعوت نامے محفوظ ہیں، جو تاج برطانیہ انہیں بھیجتا تھا۔ وہ تصویریں اور اسناد ان کے ڈرائنگ روموں کی زینت ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غداری کے عوض ملنے والی جائیدادوں پر یہ پل پل کر موٹے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک اور منطق کہ ان کا جمہوریت سے کیا تعلق۔ جس طرح دنیا کی ہر جمہوریت میں کچھ قبضہ گروپ ہوتے ہیں جیسے امریکہ کا کارپوریٹ مافیا جس نے32ہزار ارب ڈالر چرا کر کمین آئی لینڈ میں رکھا ہوا ہے اور چند ارب ڈالر سالانہ پارٹی فنڈ دے کر پوری کانگریس کو خرید لیتا ہے اور کوئی ایک جمہوری طور پر منتخب فرد چیختا تک نہیں کہ اس ملک کا چوری کیا ہوا سرمایہ واپس لائو۔ اسی طرح انگریز کے بنائے ہوئے یہ چند ہزار خاندان میرے ملک کی جمہوریت کے سب سے بڑے اجارہ دار ہیں۔ معزز کالم نگار نے شاید کبھی کسی گائوں میں ترکھان، موچی، لوہار، چمار، مصلی،مزارع، مراثی، نائی یا کمیّ کی حیثیت سے زندگی نہیں گذاری ہوگی۔ اگر وہ اپنا یہ استدلال ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور کہتے کہ دیکھو تمہارے ووٹوں سے فلاں چوہدری، فلاں خان اور فلاں ملک جیتا ہے تو لوگ ان کے ذہین چہرے کو حیرت سے دیکھتے۔ کاش کوئی اس معاشرے میں ایسا ہوتا جسے زبان کھولنے کا مرض ہوتا تو وہ بول ہی پڑتا کہ ہماری زندگیاں، اولادیں حتیٰ کہ عورتیں تک گروی ہیں، غلام ہیں، محکوم ہیں تو اس کا غذ کی پرچی جسے تم ووٹ کہتے ہو ہمارے لیے اس کی کیا اہمیت ہوگی۔ جمہوریت پر یہ قبضہ ان کا آبائی نہیں ہے۔ یہ قبضہ انگریز نے مستحکم کیا اور پھر انہوں نے اپنے آبائواجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے قائم رکھا۔ یہ لوگ جن کے قبضۂ قدرت میں دو ادارے جاگیر کی طرح ہیں، ایک تھانہ اور دوسری تحصیل۔ پھر ان دونوں اداروں میں گذشتہ ساٹھ سالوں میں انہوں نے اپنے وفادار بھرتی کروائے، ان کے کیرئر کا تحفظ کیا، انہیں مرضی کی تعیناتیاں دلوائیں، ان کے خلاف کرپشن کی انکوائریاں ختم کروائیں۔ ان کے خلاف ایکشن لینے والے ایماندار آفیسروں کو نشانِ عبرت بنایا۔ یہ تحصیل اور تھانے کے اہل کار ان کے بے دام غلام بن چکے ہیں۔ یہ وہ خود کارکارندے ہو چکے ہیں جو ان لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان ’’عظیم جمہوری خاندانوں‘‘ کے افراد کے گائوں میں اگر کوئی اکڑ کر چلنا شروع ہو جائے تو اس کے پورے خاندان کو عورتوں سمیت تھانے لے جایا جاتا ہے، اس پر قتل‘ اغوا اور ڈکیتی کے پرچے درج کیے جاتے ہیں، اس کی تھوڑی سی زمین پر قبضہ کر لیا جاتا ہے اور پھر تحصیل کے اہلکار فردات اور کھتونیوں میں ایسی تبدیلیاں کرتے ہیں کہ عدالتیں بھی انصاف نہیں دے پاتیں۔ معزز کالم نگار کبھی صوبوں کے بورڈ آف ریونیو میں چلنے والے تیس تیس سال پرانے کیسوں اور پیشیاں بھگتتے مظلوموں کو دیکھیں تو انہیں ان جمہوری طور پر منتخب لوگوں کا چہرہ نظر آجائے۔ ان ’’عظیم خاندانوں‘‘ کی پشت پناہی سے ہرگائوں میں غنڈوں، بدمعاشوں، اٹھائی گیروں‘ سمگلروں اور منشیات فروشوں کے ٹولے موجود ہوتے ہیں جنہیں ان کے پروردہ تھانے کے اہلکار تحفظ فراہم کرتے ہیں اور پھر ان کی بندوقوں کے خوف سے گائوں کی اکثریت ووٹ ڈالنے نکلتی ہے۔ میں پنجاب اور سندھ کے ہزاروں دیہات کی ایک فہرست فراہم کر سکتا ہوں جہاں یہ لوگ موجود ہیں۔ ممکن ہو تو کسی ایس ایچ اوکا رجسٹر نمبر25‘ اگر مل سکے تو‘ کھول کر پڑھ لیں۔ آپ کا ووٹ کی طاقت پر ایمان تازہ ہو جائے گا۔ لوگ کہتے ہیں الیکشن ایک آزادانہ الیکشن کمیشن کرواتا ہے اور میرے ملک میں ایک آزاد الیکشن کمیشن ہے۔ انہیں ان جمہوری خوفناک اجارہ داروں کے خوف سے سہما ہوا سکول ٹیچر نظر نہیں آتا جو پریزائیڈنگ آفیسر ہوتا ہے، جو ان کے اشارے پر کام کرتا ہے۔ گذشتہ دس الیکشنوں کے ’’وسیع‘‘ تجربے نے اس جمہوری مافیا کو دھاندلی کے کام میں طاق کر دیا ہے اور اب یہ عوام کے ’’صحیح اور مستقل نمائندے ‘‘ بن چکے ہیں۔ اگر ان کے آبائو اجداد غداری نہ کرتے، جائیدادیں نہ بناتے، عہدے نہ لیتے تو آج ان کے خلاف یہی تھانیدار اور پٹواری سرگرمِ عمل ہوتے اور یہ عزت بچاتے پھرتے۔ جمہوری مافیا کے یہ اجارہ دار کمال کے جادوگر نہیںہیں کہ موجودہ الیکشن میں اس ملک کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں سے جوق در جوق لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ یہ لوگ جمہوریت پر ایمان لے کر نکلے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے ووٹ سے حکومتیں بدلا کرتی ہیں۔ لیکن ان کے مقابلے میں دیہاتوں اور قصبوں سے خوف اوردہشت میں نکلی ہوئی اس اکثریت نے ثابت کر دیا کہ تمہاری تعلیم، تمہاری سوچ، تمہاری اس ملک کو تبدیل کرنے کی خواہش تھانیدار اور پٹواری کے سامنے ذلیل ورسوا ہے۔ کسی مکان کو اس وقت تک خوبصورت نہیں بنایا جا سکتا جب تک اس پر قابض جناّت کا قبضہ ختم نہ کرایا جائے۔ یہ جنّ ہر جمہوری معاشرے میں ہیں اور قابض ہیں، میڈیا کا جنّ، پارٹی فنڈنگ کا جنّ، مراعات کی لولی پاپ کا جنّ، اور میرے ملک میں انگریز کے بنائے ہوئے خاندانوں کا جنّ۔ بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے ہم نے خود اپنے نئے جنّ بنانے شروع کر دیے ہیں۔ بس کسی ایک دو ممبر پارلیمنٹ کو مٹھی میں رکھ کر شوگر مل یا ٹیکسٹائل کو ٹہ یا کوئی اور کاروباری سلطنت بنانے کی دیر ہے آپ چند سال بعدخود’’ عظیم جمہوری رہنما‘‘ بن جائیں گے۔ میں محترم کالم نگار کا مدتوں سے قاری ہوں، ان کے طرز استدلال کا قائل بھی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ کسی گائوں میں مراثی، چمار، جولاہے، نائی یا کسی کمیّ کی حیثیت سے زندگی نہیں گذار رہے ، کسی سندھی وڈیرے کے مزارع نہیں یا کسی بگٹی قبیلے کے فرد نہیں، ورنہ اگر کوئی ان سے آکر یہ کہتا کہ تمہارے ایک ووٹ سے حکومت تبدیل ہوئی ہے اور یہی جمہوریت ہے تو وہ اس کا منہ دیکھتے رہ جاتے اور گھر واپس لوٹ کر تکیے میں منہ دے کر پھوٹ پھوٹ کر روتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں