کس قدر خوش بخت ہیں اس مملکتِ خدا داد پاکستان کے باسی جنہیں ایک ایسا خطہ عطا ہوا جو پوری دنیا میں موجود دو سو ممالک یا خطّوں میں سے واحد عظیم سر زمین ہے جس نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی قائم کردہ ازلی اور ابدی تقسیم کا اعلان کیا اور اسی تقسیم کی بنیاد پر لوگوں نے خون، رنگ ، نسل اور زبان کے رشتوں میں جڑے ہوئے اپنے بھائیوں سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا۔ اللہ کی قائم کردہ تقسیم سے انسان نے ہر دور میں انکار کیا اور زمین پر اپنی وضع کردہ تقسیموں میں بٹ گئے اور پھر خود کو گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کی مدتوں گردنیں کاٹتے رہے اور آج بھی کاٹ رہے ہیں۔ اللہ کی بنائی ہوئی یہ ازلی تقسیم تا ابد اس لیے قائم رہے گی کہ یہ سب انسان خواہ امریکی ہوں یا فرانسیسی، چینی ہوں یا جاپانی، بلوچ ہوں یا پٹھان، پنجابی ہوں یا سندھی سب کے سب اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے‘ پھر ایک روز‘ جسے یوم حشر کہا جاتا ہے‘ اٹھائے جائیں گے۔ اس دن پورا میدانِ حشر دوقومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہو جائے گا۔ کیا اعلان ہے جو روز حشر کیا جائے گا؟ سورۃ یٰسین کی59ویں آیت میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے ’’اور چھَٹ کر الگ ہو جائو تم آج اے مجرمو‘‘۔ پورا میدان حشر دو قوموں ، دوملتّوں اور دو گروہوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ ماننے والے اور نہ ماننے والے۔ یہ دونوں گروہ ازل سے چلے آ رہے ہیں اور ابد تک موجود رہیں گے۔ اللہ ایک گروہ کو حزب اللہ کا لقب دیتا ہے اور دوسرے گروہ کو حزب الشیاطین کے نام سے پکارتا ہے۔ اللہ یہاں شیطان کا صیغہ استعمال نہیں کرتا بلکہ شیطانوں کا گروہ کہتا ہے کہ صیغۂ واحد تو صرف اور صرف اسی ذاتِ والا کو زیبا ہے‘ وہی وحدہ‘ ہے، وہی لا شریک لہ‘ ہے۔ جو اس کو مانتا ہے، اس کی خدائی کا اقرار کرتا ہے، اسے اس دنیا کا حاکم اور فرمانروا تسلیم کرتا ہے اور ان تمام بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا جو نسل، رنگ، علاقے اور زبان نے تخلیق کئے ہیں، وہ اللہ کے اس کے گروہ میں شامل ہے۔ تعصب وہ شرک ہے جس کی نفی کرنے کے لیے تمام ادیان نازل ہوئے اور تمام پیغمبر تشریف لائے۔ سید الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ نے خطبہ حجۃُ الوداع میں اپنی دعوت کی تکمیل پر اعلان کیا: ’’آج تمہاری نسل، زبان اور قبیلے کی عصبیتو ں کے بت میرے پائوں تلے پاش پاش ہو چکے ہیں‘‘۔ آپﷺ نے بار بار اس کا اعلان کیا۔ حدیثوں کی کتابیں آپﷺ کے اس جملے کوبار بار دہراتی ہیں: ’’جس میں رائی برابر بھی تعصب ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘۔ لیکن ہم وہ انسان ہیں جو انہیںعصبیتوں کی بنیاد پر خود کو تقسیم کرتے ہیں۔ میدانِ حشر کی کیفیات جو قرآن بیان کرتا ہے اس میں ان عصبیتوں کو پالنے والے، اس کی پوجا کرنے والے، ان بتوں کے آستانوں پر کروڑوں لوگوں کی جانیں بھینٹ چڑھانے والے، سب کے سب ایک گروہ میں شامل ہو نگے‘ اور جو اللہ کو ایک مانتے ہیں، اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں وہ ایک علیحدہ گروہ کا حصہ ہوں گے۔ سورۃ واقعہ ان دونوں گروہوں ، دونوں ملتّوں اور دونوں قوموں کی تفصیل بتاتی ہے‘ ان کے حالات بتاتی ہے۔ حشر میں ان کی حالتوں کی بنیاد بھی دو قومی نظریہ پر ہے۔ ایک دائیں ہاتھ والے اصحابُ الیمین اور دوسرے بائیں ہاتھ والے اصحابُ الشمال۔ اللہ دائیں ہاتھ والوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’کیا کہنا دائیں بازُو والوں کی خوش نصیبی کا، وہ ایسے باغوں میں ہوں گے جن میں بیریاں ہو ں گی بے خار اور کیلے تہہ بہ تہہ اور چھائوں دور تک پھیلی ہوئی اور پانی ہر دم رواں اور طرح طرح کے لذیذ پھل بکثرت‘ کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک اور نشست گاہیں اونچی اونچی۔ ہم پیدا کریں گے ان کے ازواج نئے سرے سے اور بنا دیں گے انہیں کنوارا۔ اپنے زوج کے عاشقِ زار اور عمر میں ہم سن‘‘ (واقعہ)۔ اب دوسری قوم کا حال دیکھیں جسے اللہ اصحاب الشمال یعنی بائیں بازو والا کہتا ہے: ’’اور بائیں بازو والوں کی بدنصیبی کا کیا ٹھکانہ۔ وہ ہوں گے لُوکی لپٹ میں اور کھولتے پانی میں اور سائے میں سخت کالے دھوئیں کے جو نہ ٹھنڈا ہو گا نہ آرام دہ‘‘ (واقعہ) اسی سورۃ میں بائیں بازو والوں کو ان کے انکار اور جھٹلانے کو یاددلا کرپھر ذکر کیا گیا ہے: ’’پھر یقینا تم اے گمراہو! اور جھٹلانے والو!، ضرور کھائو گے ایک درخت میں سے جو از قسم’’ زقوم‘‘ ہوگا۔ سو بھروگے اسی سے اپنے پیٹ‘ پھر پیو گے اوپر سے کھو لتا ہوا پانی۔ سو پیو گے جیسے پیتے ہیں پیاس کے مارے اونٹ‘‘۔ یہ ہوگی بائیں بازو والوں کی ضیافت روز جزا (واقعہ)۔ یہ تفصیل میں نے اس لیے لکھ دی کہ اللہ اس میں روز جزا یعنی یوم حشر کی کیفیات کا ذکر کر رہا ہے۔ وہ دن جس کی گرمی میں کوئی پناہ میسر نہ ہوگی سوائے عرشِ الٰہی کے۔ اس دن اللہ کائنات کی آفرینش سے لے کر آج تک اس دنیا پر پیدا ہونے والے لوگوں کو اقرار ا ور انکار کے حوالے سے دو قوموں میں تقسیم کر دے گا۔ یہی وہ اعلان ہے جو قرآن میں سورۃ الکافرون میں واضح طور پر اس دنیا کیلئے بھی فرما دیا گیا: ’’تمہارے لیے تمہاری راہ اور میرے لیے میری راہ‘‘۔ یہی وہ دو قومی نظریہ ہے جس سے جنگ انسان نے ازل سے کی ہے، پہلے انسان نے زمین اور علاقوں پر قبضے کیے، پھر اسے قائم رکھنے کے لئے گروہوں میں تقسیم ہو کر جنگ کرتا رہا لیکن گذشتہ تین صدیاں تو ایسی گذری ہیںکہ اس دنیا کے دانش وروں، عمرانیات کے ماہروں، سیاسی علوم کے خوشہ چینوں اور آثار قدیمہ کی بنیاد پر انسانوں کی نسلی توجیہات کرنے والوں نے ان تعصبات کو علمی اور تحقیقی بنیادیں فراہم کیں۔ انسان کا وہ جرم جو اس نے صدیوں کیا اس کو عزت دی، تکریم کے ساتھ پیش کیا۔ پھر اس بنیاد پر اس دنیا پر قابض طاقتوں نے پوری دنیا کو ان تعصبات کی بنیاد پر لکیریں کھینچ کر تقسیم کر دیا۔ سرحدوں پر کروڑوں فوجی کھڑے کر دیئے گئے اور ان کے لئے زمین کے ٹکڑے پر کٹ مرنے کے لیے عزت وتو قیر لکھ دی۔ لیکن جس دن یہ زمین ہموار کر دی جائے گی، جس دن اس زمین سے کونپلوں کی طرح لوگ نکلیں گے اور ایک ہجوم کی صورت جمع ہوں گے‘ اس دن ایک ہی اعلان ہوگا: چھٹ کر الگ ہو جائو نہیں ماننے والے، انکا رکرنے والے لوگ نکلیں۔ کس قدر خوش نصیب ہے یہ دھرتی‘ یہ ملک کہ جو اللہ کی قائم کردہ اس ازلی تقسیم پر قائم ہے اور یہی تقسیم حشر کے دن اسے سرفراز کرے گی اور کس قدر بدنصیب ہوں گے وہ لوگ جو اس تقسیم سے انکار کرتے رہے اور ان کے لیے چھَٹ کر علیحدہ ہو جانے کا حکم صادر ہوگا۔