اس ملک میں انگریز کی ذہنی غلامی میں جکڑا ہوا طبقہ تعلیم کی پسماندگی کی دو وجوہ بڑے زور و شور سے بیان کرتا چلا آرہا ہے ۔پہلی یہ کہ ہم لوگ اپنی مادری زبانوں پنجابی، سندھی، پشتواور بلوچی سے پیدائش سے آشنا ہوتے ہیں، یہی زبانیں بولتے ہیں، انہی میں خواب دیکھتے ہیں، پھر ہم پر اُردو مسلط کر دی جاتی ہے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی ہماری مجبوری ہے۔ یوں ساری عمر زبانوں کی دھماچوکڑی میں ہمارے بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں دب کررہ جاتی ہیں۔ دوسری وجہ تو اب ہم پر اس قدر مسلط کر دی گئی ہے کہ ہماری پوری قوم بلکہ علم سے دور اور جہالت کے اندھیروں میں گم ہماری سیاسی قیادت نے بھی اسے تسلیم کر لیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ انگریزی اب ایک عالمی زبان بن چکی ہے اس لیے پہلی کلاس سے ہی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دینی چاہیے۔ اس مکتبہ فکر کے سرخیل پہلے پرائیوٹ سکولوں کے سربراہان ہوتے تھے لیکن اب حکومت نے اس کا عَلم اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس سچ سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دنیا کی پانچ ہزار سال کی تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا یا ہو اور ترقی کی ہو۔ دنیا کے ایسے ترقی یافتہ ممالک‘ جن کی آبادی پچاس لاکھ سے بھی کم ہے‘ وہ بھی اپنی زبان کو پی ایچ ڈی تک ذریعہ تعلیم بناتے ہیں۔ انگریزی زبان ذریعہ تعلیم بنانے پراصرار کرنے والے عموماًبھارت کی مثال دیتے ہیں جو اوّل تو دنیا کا سب سے بڑا غربت کا سمندر اور جھونپڑ پٹی ہے اور دوسرے وہ ترقی یافتہ ملک بھی نہیں۔ اس کے باوجود 29جولائی کو ’’دنیا‘‘ اخبار میں ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کے مضمون میں انگریزی ذریعہ تعلیم سے بھارت کو جو نقصانات پہنچے ہیں اس کا جو نقشہ انہوں نے کھینچا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ایک نقلچی قوم‘ جس میں 22کروڑ بچے ہر سال سکول میں داخل ہوتے ہیں اور اس زبان کے المیے کی وجہ سے صرف40 لاکھ گریجویشن کر پاتے ہیں۔ اپنی زبان میں ذریعہ تعلیم کی حقانیت پوری دنیا کے سامنے آشکار ہے سوائے ہماری سیاسی قیادت کے‘ جو انگریز کی پروردہ بیورو کریسی کی چاپلوسیوں کی زد میں ہونے کی وجہ سے سوچنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہے۔ یہ بیورو کریسی وہ منافق نسل ہے جو پنجابی ، سندھی، بلوچی اور پشتون سائل سے اس کی زبان میں گفتگو تو کر لیتی ہے لیکن اُسے آڈر انگریزی میں تحریر کرکے دیتی ہے، اس کی فائل انگریزی زبان میں مرتب کرتی ہے۔ اس ملک کا کوئی دفتر ، کوئی عدالت یا عوام سے منسلک کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں ا نگریزی میں گفتگو ہوتی ہو لیکن ان کا سا را ریکارڈ، ساری فائلیں اور سارے فیصلے انگریزی میں تحریر نہ ہوتے ہیں۔ یہ ہے ہماری منافقت اور یہ ہے ہماری عام آدمی سے بالا تر رہنے کی بھونڈی ترکیب۔ اب دوسری دلیل کی بات کرتے ہیں۔ مدتوں ہمارے تعلیمی اداروں میں تین سے چار زبانیں عام طور پر پڑھائی جاتی تھیں۔ دنیا کی چھ صدیاں ا یسی گذری ہیں جن میں سارا علم عربی یا فارسی میں تھا، اس لیے یہ دونوں زبانیں ہمارے ان مدرسوں میں عام تھیں جہاں سے ان چھ صدیوں میں علم کی دنیا پر راج کرنے والے مسلمان فلسفی اور سائنسدان نکلے۔ برصغیر میں بھی یہ دو زبانیں علاقائی طور پر مروجہ زبان کے علاوہ تھیں جو یہاں بولی جاتی تھی۔ انگریز آیا تو اس نے انگریزی کو لازمی اور واحد ذریعہ ملازمت قرار دیا اور تعلیم کو نوکری سے جوڑ دیا؛ البتہ وہ ہماری سیاسی قیادت سے زیادہ عقلمند تھا۔ اس نے یہاں حکومت کرنے کے لیے اُردو زبان‘ جو رابطے کی زبان بن چکی تھی، کو عام عدالتی امور میں رائج کیا۔ اس شعبے کو وہ ورنیکلر شعبہ کہتا تھا اور ہر ضلعی دفتر میں ورنیکلر ریکارڈ اور فائلیں چلتی تھیں۔ تمام قوانین کا اُردو ترجمہ کروایا اور سائلوں سے درخواستیں اُردو ہی وصول کرنا شروع کی گئیں۔ عرضی نویس کا ایک مستقل پیشہ موجود رہا جواب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہا ہے۔چند دہائیاں قبل تک ہمارے اسلاف تین سے چار زبانوں کا علم رکھتے تھے اور یہی وہ دور تھا جب اس برصغیر میں علم کے درخشندہ ستارے طلوع ہوئے‘ جو بیک وقت کئی زبانوں پر عبور رکھنے والے تھے‘ لیکن ذریعہ اظہار اپنی زبان کو بناتے تھے۔ میر تقی میر سے غالب، اقبال اور فیض، فراز، منشی پریم چند سے منٹو، بیدی، کرشن چندر اور ٹیگور، مولانا محمد علی جوہر سے مولانا ظفر علی خان ، ابوالکلام آزاد سے سید ا بوالاعلیٰ مودودی اور سر سید سے غلام احمد پرویز ، یہ سب کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے لیکن تخلیق کا ذریعہ انہوں نے اُردو بنایا‘ جو پورے ملک میں مروجہ زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی۔ اس دور کا آج کے انگلش میڈیم دور سے مواز نہ کریں تو آپ کو صرف نوکری کی تلاش میں علم کی چوکھٹ پر سر ٹکرانے والے کا روباری طالب علموں کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ ایک نسل جسے دو ائیوں اور بیماریوں کے نام ، مشین اور اس کے پرزوں کی ہیت، قانون کی کتابوں کے جملے انگریزی میں آتے ہیں‘ جن سے ان کی آمدن وابستہ ہے اور باقی ساری زندگی ان کی مادری زبان میں گذرتی ہے، ایسی زبان جس کا نہ وہ لٹریچر پڑھ سکتے ہیں اور نہ اس کے علم کی دنیا سے آشنا ہونے کا انہیں موقع ملتا ہے ۔ یہ وہ نقلچی نسل ہے جس کا المیہ بھارت کے ویدک پرتاپ نے کیا ہے اور یہی ہمار المیہ ہے۔ ایک زبان کا علم رکھنے اور اجنبی زبان میں علم حاصل کرنے والے۔ لیکن گذشتہ پانچ سالوں میں انسانی ذہن پر کام کرنے والے سائنس دان حیران کن تحقیق سامنے لے کرآئے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف ایک زبان سیکھنے والا اور اسی میں تعلیم حاصل کرنے والا بچہ جسے(Monoglot) کہتے ہیں وہ اکیسویں صدی کا جاہل بچہ تصور ہو گا۔ یہ الفاظ امریکہ کے ماہر دماغ ولسا نیات گریگ رابرٹس کے ہیں۔ گریگ کے نزدیک ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے والے دماغ تیز کام کرتے ہیں اور کم توانائی خرچ کرتے ہیں۔ ان کی سیکھنے کی صلاحیت دیر پا ہوتی ہے ، ان کے ہاں بڑھاپے کی علامات کم ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ان میں یادداشت کے ختم ہونے کی بیماری پیدا نہیں ہوتی۔ 29جولائی کے ٹائم میگزین نے دنیا بھر میں ہونے والی اس ضمن کی تحقیقوں پر ایک طویل مضمون شائع کیا ہے۔ انہی تحقیقوں کے نتیجے میں امریکہ کی ریاست یوٹا(UTAH)میں2009ء میں 25سکولوں میں چار زبانوں فرانسیسی، چینی، ہسپانوی اور پرتگالی کی بیک وقت تعلیم دینا شروع کی گئی۔ اس وقت1400بچے تھے اور اب ان کی تعداد بیس ہزار ہوچکی ہے کیونکہ ان تمام بچوں کی تعلیمی ترقی ایک عام امریکی بچے سے کئی گنا بہتر تھی۔ اسے وہPOLYGLOTدماغ کہتے ہیں۔ سائنس دانوں کے نزدیک مادری زبان تو بچہ ماں کے پیٹ میں چھٹے مہینے سے سن کرسیکھ لیتاہے اور ہم صرف اسے بعد میں دہراتے ہیں۔ وہ تمام الفاظ جو بولے جار ہے ہوتے ہیں اس کے دماغ کے خلیوں پر نقش ہو چکے ہوتے ہیں۔ اسے دنیا کی دیگر زبانوں کی تعلیم دینا ضروری ہو جاتی ہے تا کہ اس کا ذہن ترقی کرے۔ دنیا بھر کے ممالک‘ جو ترقی کے راستے پر گامزن ہیں‘ نے کبھی اپنے بچوں کو ایک زبان کی تعلیم نہیں دی۔ پورے یورپ میں ہر بچہ اپنی زبان کے ساتھ ماخذ زبانیں ضرور سیکھتا ہے جن کی تعداد تین یا چار ہوتی ہے لیکن ذریعہ تعلیم اپنی زبان ہوتی ہے تاکہ تخلیقی صلاحیت نکھر کر سامنے آئے۔ ہماری بدقسمتی کا آغاز ہی اس وقت ہوا جب ہم نے اپنی زبان میں تعلیم کو چھوڑا اور پھر ماخذ زبانوں کی تعلیم حاصل کرنا بھی ترک کردی۔ ہماری ماخذ زبانیں عربی اور فارسی ہیں۔ اگر اس ملک کا بچہ عربی سیکھے گا تو اسے قرآن سمجھنے کے لیے کسی مولوی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ غالب یا فیض کے شعر کسی ماہر سے نہیں سیکھے جاتے‘ ان کے سحر میں گرفتار ہوا جاتا ہے۔ ہم نے خود کو آج تک قرآن کے سحر میں گرفتار ہی نہیں کیا۔ اگر ایسا کیا ہوتا تو نہ مولوی ہوتا اور نہ فرقہ بندی۔ دوسرا ان زبانوں کا علم ہمیں اپنے اسلاف سے وابستہ کرتا۔ ہمارا بچہ سنڈریلا پڑھتا ہے، لیکن پھر وہ ابوبکر صدیق اور علی مرتضیٰ کے بارے میں پڑھتا۔ فارسی کا علم ہمیں ایک قریب کے جہان میں لے جاتا جہاں سے ہمارے صوفیا علم اور عرفان کے خزانے لے کر آئے تھے۔ ہم انگریزی بھی سیکھتے کہ اس میں موجود علم تک بھی ہماری رسائی ہوتی۔ ہم کثیر زبانی ذہن یعنیPLOYGLOTہوتے اور آج کی اکیسویں صدی کے جاہل نہ کہلاتے۔ ہم کس قدر بدقسمت ہیں کہ ایک اجنبی زبان میں تعلیم دلوا کر ہمیں ایک جاہل قوم میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ایک نقلچی، تخلیق سے عاری، کند ذہن اور پسماندہ۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہم اس تباہی کے لیے اپنی جیب سے ہزاروں روپے ماہانہ خرچ کرتے ہیں اور ہمارے سیاسی قائدین فخر سے سراونچا کر کے کہتے ہیںہم نے کمال کر دیا، سب کو ا نگریز بنا دیا ہے۔