یا جوج اور ماجوج کی سب سے بڑی علامت جو سیّد الانبیاءﷺ نے بتلائی وہ یہ ہے کہ ’’اگر انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ لوگوں پر ان کی معاش میں فساد پھیلائیں گے۔ (طبرانی) اسی طرح ان کی طاقت اور ناقابل تسخیر قوت کا ذکر صحیح مسلم کی ایک حدیثِ قدسی میں ہوا ہے: ’’ہم نے اپنے بندوں سے (یاجوج ما جوج) ایسے تخلیق کیے ہیں کہ کوئی ان کو شکست نہیں دے سکتا حتیٰ کہ مَیں ان سے جنگ کروں‘‘۔بنی آدم کی نسل سے پیدا ہونے والے یہ یا جوج اور ماجوج وہ ہیں جنہیں قرآن پاک کی سورہ کہف میں فساد پھیلانے والے کہا گیا ہے اور جنہیں اللہ خود جنگ کے ذریعے ختم کرے گا۔ قرآن پاک سے ایک دلیل اس گروہ کو واضح کرتی ہے۔ سورہ فاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک اللہ نے کسی گروہ کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا سوائے سود کھانے والوں کے ۔ اللہ فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔ (البقرہ: 278-279) اللہ نے قاتلوں،زانیوں، مشرکوں، چوروں، غیبت کرنے والوں حتیٰ کہ کسی بڑے سے بڑے گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا‘ لیکن سود کھانے والوں کے خلاف کیا ہے۔ اللہ حکیم و دانا ہے، عالم الغیب ہے۔ وہ جانتا تھا کہ یا جوج اور ماجوج جب اس دنیا پر اپنے فتنے سے غالب آئیں گے تو ان کی پشت پر ایک مضبوط سودی نظام ہوگا۔ یہی معاش میں وہ بگاڑ ہے جس کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا ہے۔ یا جوج اور ماجوج کے اس فتنے کے بارے میں عموماً یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ یہ دجاّل کے خروج کے ہمر کاب ہوں گے‘ لیکن قرآنِ پاک چونکہ اسے یروشلم میں یہودیوں کی واپسی کے ساتھ منسلک کرتا ہے، بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم زمانہ بتاتا ہے تو اس اعتبار سے آج ہم اسی یا جوج اور ماجوج کے ورلڈ آرڈر میں زندہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کی ایک ترتیب اس حدیث میں بتائی ہے جو مسند احمد، ابودائود، مستدرک ِ حاکم اور نعیم بن حماد کی الفتن میں درج ہے۔ ان فتنوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر باقی حدیث کی کتابوں میں بھی موجود ہے‘ لیکن ترتیب زمانی یہاںہے: ’’حضرت عمیر بن ہانی نے فرمایا‘ میں نے عبداللہ بن عمر کو فرماتے سنا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کو بیان فرمایا یہاں تک کہ احلاس کے فتنے کو بیان کیا۔ کسی نے پوچھا احلاس کا فتنہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ فتنہ فرار، گھر بار اور مال کے لٹ جانے کا ہوگا۔ پھر خوشحالی اور آسودگی کا فتنہ ہوگا۔ اس کا دھواں ایسے شخص کے قدموں کے نیچے سے نکلے گا جو یہ گمان کرتا ہوگا کہ وہ مجھ سے ہے حالانکہ وہ مجھے سے نہیں‘ میرے اولیا تو متقین ہیں۔ پھر لوگ ایک نااہل شخص پر متفق ہو جائیں گے۔ پھر تاریک فتنہ ہوگا‘ یہ فتنہ ایسا ہوگا کہ امت کا کوئی فرد نہیں بچے گا جس کو اس کے تھپیڑے نہ لگیں۔ جب بھی کہا جائے گاکہ یہ فتنہ ختم ہو گیا تو وہ لمبا ہو جائے گا۔ ان فتنوں میں آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر۔ لوگ اسی حالت میں رہیں گے یہاں تک کہ دو خیموں میں بٹ جائیں گے۔ ایک ایمان والوں کا خیمہ جس میں بالکل نفاق نہیں ہوگا ۔ دوسرا نفاق والوں کا خیمہ جس میں ایمان نہیں ہوگا۔ تو جب تم اس طرح تقسیم ہو جائو تو بس تم د جال کا انتظار کرنا کہ آج آئے یا کل آئے‘‘۔ اس حدیث میں جس تاریک فتنے کاذکر کیا گیا ہے اس کی ایک اور حدیث سے مطابقت ملتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا سود اس قدر عام ہو جائے گا کہ ہر کسی تک اس کا غبار ضرور پہنچے گا۔ یعنی یہ فتنہ پوری بنی نوعِ انسان کو گھیرے میں لے لے گا۔ حرم کی چاردیواری اور مدینۃ النبیؐ کے اردگرد، بغداد کی گلیوں، مشہد کے با زاروں، سیّد علی ہجویری کی نگری، غرض کوئی جگہ اور مقام دیکھ لیں آپ کو سودی نظام معیشت کی کار فرمائیاں نظر آئیں گی۔ کرنسی نوٹوں سے اے ٹی ایم مشینوں اور بینکوں کی عمارات تک سب کی سب اس دجالی ورلڈ آرڈر کی گواہی دیتی ہیں جسے یاجوج اور ماجوج نے اس دنیا پر نافذ کررکھا ہے اور جس کا بظاہر کوئی توڑ اس دنیا کو نہیں سوجھ رہا‘ اس لیے کہ اس کے پیچھے وہ پورا نظام ہے جو ٹیکنالوجی، فوجی طاقت اور ریاستی جبر کے ساتھ سیکولر تعلیم اور اخلاقیات کے ساتھ پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس میں صبح کا کفر اور رات کا ایمان بتایا گیا ہے۔ ہم اس پورے نظام کے کل پرزے بن چکے ہیں۔ ہم دن بھر اسے قائم رکھنے کی ’’عبادت‘‘ میں مصروف رہتے ہیں اور رات کو اپنے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر مومن ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ اس نظام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یاجوج اور ماجوج دو مخصوص عربی الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ یاجوج عربی زبان کا فاعل (Active)لفظ ہے اور ماجوج مفعول(Passive) یعنی یہ دوچہروں والے لوگ ہوں گے۔ ظلم کریں گے اور کہیں گے ہم امن کے پیامبر ہیں۔ اپنے آپ کو مذہب کے علمبردار کہیں گے لیکن مذہب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ ہوگا۔غرض یاجوج اور ماجوج بنی آدم میں سے ایسی قوم،قبیلہ یا گروہ ہے جو اس قدر طاقتور ہے جسے صرف اللہ ہی اپنی طرف سے اعلانِ جنگ سے ختم کرے گا جو معیشت میں فساد پھیلائیں گے اور قرآن کے مطابق یہی مفسدین ہیں۔ یہ طاقتور مفسدین وہ ہیں جو انسانوں کے ہر مروجہ نظام میں فساد پھیلانے کے قابل ہیں۔ سیاسی نظام ،عدالتی نظام اور معاشی نظام کا فساد تو امورِمملکت کے حوالے سے واضح ہے۔ ہر وہ حکم جو اللہ نے ان معاملات میں دیا ہے، اس کے مقابلے میں انہوں نے ایک مربوط تصور کے ساتھ نظام وضع کیا، سودی معیشت ، عوام کی حاکمیت، زنا، چوری اور قتل کی سزائوں کی مخالفت‘ زنااوربے حیائی و فحاشی کو معاشرتی رویہ قرار دینا، چوروں کو دارالاصلاح کی راہ دکھانا اور قصاص کا قانون جس میں اللہ نے زندگی رکھی ہے‘ اسے ختم کرنا۔ یہ ایک پورا ورلڈ آرڈر ہے جس کی بقا سود کے معاشی نظام پر ہے۔ ان کایہ فساد صرف اور صرف حکمرانی کے معاملات میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں نظرآتا ہے۔ خاندانی نظام کا فساد جس کی وجہ سے اب بعض معاشروں میں حرامی اور حلالی بچے کی تمیز ختم ہو گئی ہے‘ جنسی تعلقات کا فساد کہ اب بعض سماج ہم جنس پرستی اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ زراعت کے نظام میں فساد کہ اب جس طرح کیمیکل اور جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے بیچ تیار ہورہے اور ان میں قوموں کو تباہ کرنے کے لیے زہرتک شامل کیاجارہا ہے۔ نسلی فساد ایسا کہ ایک خاص منصوبے سے پوری کی پوری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ مذہبی تصورات میں فساد ایسا کہ ہر مذہب کی ایک نئی صورت دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور پھر اپنے پروردہ مذہبی علماء کو اس نظام کا ایسا گرویدہ بنایاجاتاہے کہ وہ انہی کے نظام کو اسلامی جمہوریت، اسلامی سوشلزم، اسلامی بینکنگ، اسلامی کلچر وغیرہ جیسی اصطلاحات دے کر اس دین کا حلیہ بگاڑتے ہیں۔ اسلام ایسا دین ہے جو اپنی اصطلاحات اور اپنی طرز زندگی لے کر مبعوث ہوا تھا۔ صرف ایک مثال دیکھئے کہ بڑے سے بڑا اسلامی مفکر بھی انسانی حقوق کی اصطلاح استعمال کرتا ہے‘ حقوق العباد نہیں کہتا کیونکہ یہ لفظ بولنے سے اللہ کا تصور سامنے آجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ حقوق العبادانسانی رشتوں کے حوالے سے ہیں جب کہ یاجوج ماجوج کے دجالی نظام میں یہ تصور ہی بے معنی ہے۔ اسلام میں والدین، اولاد، پڑوسی، بیوہ، یتیم، نادار، مسکین، بیوی اور خاوند کے حقوق ہیں‘ لیکن انسانی حقوق کے چارٹر میں کہیں ان کا ذکر نہیں‘ بس لفظ انسان رکھا گیا ہے۔بوڑھا ہے تو اولڈ ایج ہوم میں بھیج دو اور بے نیاز ہو جائو۔خاندانی نظام سے ماورا بچے پیدا کرو اور ریاست کو ذمہ دار بنا دو۔ یاجوج اور ماجوج کے بارے میں بہت سی ضعیف اورگھڑی ہوئی احادیث کے عام ہونے کی وجہ سے انہیں کوئی مافوق الفطرت مخلوق سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ قرآن حکیم اور احادیثِ صحیحہ بالکل مختلف تصور پیش کرتی ہیں۔ آخرمیںایک حسن حدیث لکھ رہا ہوں کہ ان فتنوں سے بچنے کا راستہ کیا ہے۔ حضرت حذیفہؓ بن یمان نے فرمایا، لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیرکے بارے میں سوال کرتے اور میں شر کے بارے میں سوال پوچھتا، اس خوف سے کہیں شر مجھے پکڑ نہ لے(بخاری ،مسلم) انہی حذیفہ بن یمان کا قول نعیم بن حماد نے کتاب الفتن میں درج کیا ہے: ’’یہ فتنے ایسے لمبے ہو جائیں گے جیسے گائے کی زبان لمبی ہوتی ہے۔ ان فتنوں میں اکثر لوگ تباہ ہو جائیں گے البتہ وہ رہیں گے جو پہلے سے ان فتنوں کو پہچانتے ہوں گے‘‘۔ پہچانو‘ یہ پورا دجالّی نظام یاجوج و ماجوج کی سودی معیشت کے راستے ہمارے سروں پر مسلّط ہے اور ہمیں خبر تک نہیں کہ ہم تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تباہی اور خوشحالی کو دنیا تک محدود کرلیا ہے جب کہ ہمارا انجام اس سودی نظام کے کارندوں اور اللہ کے خلاف جنگ کرنے والوں میں ہوتا جارہا ہے۔کیا ہم روز محشر اللہ کے حضور ایسا اٹھنا پسند کریں گے؟ یہ ہے اصل تباہی۔جلد دنیا دو خیموں میں تقسیم ہو جائے گی‘ کفر اور ایمان کے خیمے۔ڈرو اس وقت سے جب ہم اس نظام کی چکا چوند سے اندھے ہو کر کفر کے خیمے میں کھڑے ہوں گے۔ (ختم)