جس سفر کا آغاز 1991ء میں ہوا تھا اور جس عدالتی جہاد کو اس ملک میں سودی نظام کے پروردہ سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے حیلہ سازی اور تاخیری حربوں سے روکنے کی کوشش کی اور ہر کسی نے مقدور بھر اپنا حصہ ڈالا۔ اب اس کی ایک اور منزل آگئی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت ضیاء الحق نے بنائی اور ساتھ ہی یہ پابندی لگا دی کہ یہ مالی معاملات کے بارے میں دس سال تک کوئی کیس نہیں سن سکے گی۔ جیسے ہی 1991ء میں پابندی ختم ہوئی لوگ وفاقی شرعی عدالت میں چلے گئے۔ شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا۔ نوازشریف حکمران تھے ،وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔ اس کے بعد بے نظیر‘ پھر نوازشریف‘ سب کے دور میں یہ کیس لٹکتا رہا۔ پرویز مشرف نئے نئے تخت نشین ہوئے تھے کہ سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے سود کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ ایک دم ایوانوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ ایک پرائیویٹ بنک کی طرف سے نظرثانی کی اپیل کروائی گئی۔ تمام عدالتی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نئے بنچ نے پہلے بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پھر اس کی جگہ خود فیصلہ لکھنے کی بجائے کیس کو لٹکانے کے لیے واپس وفاقی شرعی عدالت میں بھیج دیا۔ گزشتہ دس سال سے یہ کیس وہاں گرد آلود فائلوں میں پڑا تھا۔ 21 اکتوبر 2013ء کو فیڈرل شریعت کورٹ میں ایک دفعہ پھر یہ امّت اس بات پر بحث کرے گی کہ سود حرام ہے یا حلال، کون سا سود حرام ہے اور کیا موجودہ دور میں سود کو ترک کرکے ہم زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ سب بھی اس لئے ممکن ہوا کہ شریعت کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ کے شریعت بنچ تک ہر کوئی ایک ہی سوال کرتا تھا کہ ’’سودی نظام کا متبادل کیا ہے؟‘‘ لیکن اب درہم و دینار تحریک کے روح و رواں عمر ابراہیم وڈیلو نے ستر صفحات پر مشتمل ایک مکمل متبادل نظام تحریر کیا اور اسے نئی اپیل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ عمر ابراہیم وڈیلو 8 جولائی 2012ء کو العلم ٹرسٹ کی دعوت پر پہلی دفعہ پاکستان آئے اور انہوں نے ایوان اقبال لاہور میں پاکستان کے کونے کونے سے آنے والے افراد کے سامنے ایک پُرجوش خطاب کیا جس کی لمحہ بہ لمحہ ترجمے کی سعادت اس گنہگار کو حاصل رہی۔ ایوان اقبال پاکستان کا شاید سب سے بڑا ہال ہے جوکھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ چار گھنٹے تک تقریب جاری رہی۔ اس دوران بجلی بند رہی، صرف یوپی ایس سے چند بلب اورپنکھے چلتے رہے۔ لیکن لوگوں کا جذبۂ ایمانی ایسا تھا کہ پورا ہال ہمہ تن گوش رہا۔ اسی تقریب میں حمیرا اویس شاہد نے پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے اس بل پر بھی روشنی ڈالی جو بیع سلّم کے بارے میں تھا۔ اس بل کے ذریعے آڑھتیوں کے سود سے نجات ملتی تھی۔ حمیرا پنجاب اسمبلی کی ممبر تھیں اور اللہ نے انہیں یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ اس جہاد کی علمبردار بن جائیں۔ بل منظور ہوا‘ لیکن حکومت پنجاب آج تک اس پر عملدرآمد نہ کرسکی۔ پاکستان کی سرزمین چونکہ صدیوں سے امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز رہی ہے اوراس کی وجہ سید الانبیاءﷺ کی وہ احادیث ہیں جو آپ نے اس خطے کے بارے میں ارشاد فرمائیں اور جن کا ذکر اقبال نے اس مصرعے میں سمودیا ’’میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا یہاں سے‘‘۔شاید یہی وجہ تھی کہ عمر ابراہیم وڈیلو کو ان کے مرشد شیخ عبدالقادر کی جانب سے حکم ہوا کہ پاکستان جا کر آباد ہوجائو۔ اندلس کے شہر غرناطہ میں پیدا ہونے والا یہ شخص اس مملکت خداداد پاکستان میں یوں مکین ہوا کہ جب مجھے عمر ابراہیم وڈیلو نے حمیرا اویس شاہد سے نکاح کی خوشخبری سنائی تو میری آنکھوں سے اللہ کے حضور تشکر کے آنسو نکل آئے۔ دعوت ولیمہ کی وہ تقریب جو لاہور کے ایک شاندار ہوٹل میں ہوئی اس میں عمر ابراہیم وڈیلو نے اس ملک میں آنے کی غایت اور اللہ کی طرف سے نصرت کا جس طرح ذکر کیا اس کے گواہ لاہور کے شہری ہیں۔ وہ غرناطہ میں پیدا ہوئے جسے یورپ کی تمام مسیحی قوتوں نے مل کر ایسا تباہ کیا تھا کہ وہاں ایک مسلمان بھی زندہ نہ رہے۔ جس شہر کی مشہور مسجد قرطبہ میں آج بھی نماز ادا نہیں ہوتی، وہیں اسی شہر میں اللہ نے ایک ایسے گھر میں اس شخص کو مسلمان کیا جو پادریوں کا گھرتھا۔ یہ بتانا اس لئے مقصود تھا کہ حمیرا اویس شاہد کے ذریعے دس سال سے سردخانے میں پڑے ہوئے اس کیس کو زندہ کیا جا رہا ہے۔ 1991ء میں محمود الرحمن فیصل کے ذریعے یہ پٹیشن دائر ہوئی تھی اور اب وہ غائب ہیں۔ شاید مقصد یہی تھا کہ پٹیشن مردہ رہے۔ بہرحال اس کی وجوہ وہ خود ہی بہتر جانتے ہوں گے۔ لیکن اب ایڈووکیٹ فہد احمد صدیقی کے ذریعے اس پٹیشن کو زندہ کرنے کی درخواست دی گئی ہے اور حمیرا اویس شاہد اس کی محرک ہیں۔ اس پٹیشن میں تیس سال سے کیے جانے والے سب سے بڑے اعتراض کا جواب جمع بھی کروایا گیا ہے کہ ’’کیا سودی نظام کا کوئی متبادل ہے‘‘۔ یہ پورا جواب العلم ٹرسٹ کی ویب سائٹ.PK ALILMTRUST.COMاور ALILMTRUST کے فیس بک پیج پر بھی موجود ہے۔ میری درخواست ہے کوئی صاحب علم پیش کردہ اس متبادل نظام کا اردو میںترجمہ کردے تاکہ ہم اسے شائع کرسکیں۔ میں بھی ترجمے کی کوشش میں ہوںلیکن وقت کی تنگی آڑے آ رہی ہے۔ اس پٹیشن کی شنوائی 21 اکتوبر2013 کو وفاقی شرعی عدالت میں ہوگی۔ لیکن اس پیشی سے پہلے شرعی عدالت نے اپنے سینئر ایڈوائزر قاضی فضل الٰہی کے ذریعے ایک چودہ نکاتی سوال نامہ ہمیں ارسال کیاہے۔ اس سوالنامے کا جواب ترتیب دیا جا رہا ہے‘ لیکن اس سوالنامے کے چند سوال میں اس قوم کے سوچنے والوں کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ پڑھئے اور حیرت میں ڈوب جایئے۔ -1 کیا قرض اور Loan دونوں قرآن کے نزدیک ہم معنی ہیں ؟ -2 کیا سود کے حرام ہونے کا اطلاق غیر مسلم شہریوں پر بھی کیا جائے گا اور دوسرے ملکوں سے جو قرض لیا گیا ہے اس پر اس قانون کو کیسے لاگو کیا جائے؟ -3 کرنسی کی شرح میں کمی بیشی میں سود کی حرمت کیسے نافذ کی جائے؟ -4 ’’راس المال‘‘ یعنی اصل زر اگر کچھ عرصے کے بعد اپنی قدرکھودے اور قرض دینے والے کو جو پیسے واپس ملیں وہ اصل سے بہت کم ہوں تو اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ ان سوالوں کے بعد وہی سوال دہرایا گیا ہے کہ متبادل کیا ہے اور کیا اس وقت ملک میں موجودہ اسلامی بینکاری اس کمی کو پورا نہیں کر رہی ہے۔ اسلامی بینکاری کے بارے میں پٹیشن کے ساتھ ملک بھر کے علماء کا ایک فتویٰ لگادیا گیا ہے جو اسے حرام تصور کرتے ہیں۔ یہ فتویٰ بھی انشاء اللہ العلم ٹرسٹ کی ویب سائٹ اور فیس بک پیج پر مل جائے گا۔ لیکن اصل مسئلہ سوالات اوران کی نوعیت کا ہے۔ چونکہ معاملہ عدالت میں ہے‘ اس لئے ہم جو کچھ بھی کہیں گے عدالت میں کہیں گے۔ یہ سوال صرف اس قوم کے اہل دانش کو حیرت میں ڈالنے کیلئے رکھ دیے ہیںکہ اگر یہی اصول تمام قوانین وضع کرنے کیلئے مان لیاجائے تو کل یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ کیا قتل، چوری، زنا، بہتان وغیرہ کے اسلامی قوانین کا اطلاق غیر مسلموں پر بھی ہوگا۔ زیادہ بحث نہیںکرنا چاہتا کہ بحث 21اکتوبر 2013ء کو عدالت میں ہوگی۔ آپ سے صرف دعائوں کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو استقامت عطا فرمائے۔