معین اختر مرحوم منی بیگم کے حوالے سے ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ پشاور میں منی بیگم ایک شو کرنے گئیں۔ غزل کی گائیکی اور منی بیگم کا دھیما انداز‘ محفل کچھ دیر تک تو چلتی رہی‘ لیکن موسیقی کی کوئی ایک تال بھی ایسی نہ آئی کہ وہاں بیٹھے پختون جوش میں آ کر خٹک ڈانس کرنے لگیں۔ مجمعے کی اکتاہٹ دیکھ کر ایک شخص پستول ہاتھ میں پکڑے سٹیج پر آ دھمکا۔ منی بیگم ڈر کر خاموش ہو گئیں۔ وہ ایک دم بولا ’’تم گائو‘ تم تو ہمارا بہن ہے‘ ہم تو اس کو ڈھونڈ رہا ہے جو تمہیں لے کر آیا تھا‘‘۔ ملالہ یوسفزئی کی کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ پڑھنے کے بعد معین اختر کا یہ لطیفہ شدت سے یاد آتا ہے اور ساتھ ہی اس امریکی کا فقرہ بھی ذہن میں ہتھوڑے کی طرح ٹکرانے لگتا ہے جو اس نے ایمل کانسی کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کے بعد کہا تھا کہ ’’پاکستانی پیسے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں‘‘۔ کرسٹینا لیمب‘ جس نے ملالہ کی باتیں سن کر یہ کتاب تحریر کی ہے‘ کو میں نے بلوچستان کے شہر پشین میں 1989ء میں ایک بلوچ سردار اور اس وقت کے وزیر کے ساتھ دیکھا تھا‘ جو اسے ہر پارٹی میں لیے پھرتا تھا۔ ملالہ کی یہ کہانی‘ جو 276 صفحات پر مشتمل ہے‘ پڑھنے کی آپ کو شاید ضرورت نہ ہی پڑے اگر گزشتہ بیس سالوں سے اسلام‘ مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں‘ جس طرح اسلام‘ مسلمان اور پاکستان کو بدنام کیا جاتا ہے‘ وہ سب آپ کے علم میں ہو۔ یہ تمام الزامات اور پھر کتاب سے سولہ سالہ ملالہ کی کہانی کے اقتباسات سامنے رکھیں تو آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ اس کمسن بچی کے منہ میں میرے دین‘ مسلمان اور پاکستان کے لوگوں کے بارے میں یہ ذلت آمیز لفظ کس نے ڈالے اور کس مقصد کے لیے ڈالے گئے؟ سب سے پہلے جس شخص کا تذکرہ ہے وہ سیدالانبیاءﷺ‘ امہات المومنین اور اہلِ بیت کے خلاف غلیظ الفاظ استعمال کرنے والا سلمان رشدی ہے‘ جو مغرب کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اس کے بارے میں ملالہ لکھتی ہے: ’’پاکستان میں اس کتاب کے خلاف مضامین سب سے پہلے ایک ایسے مولوی نے لکھنے شروع کیے جو ایجنسیوں کے بہت نزدیک تھا‘‘ (صفحہ 30)۔ تاریخ کا یہ بدترین جھوٹ اس کے منہ میں کس نے ڈالا؟ اسے کس نے یہ لکھنے پر مجبور کیا کہ سلمان رشدی کو ’’آزادیِ اظہار‘‘ کے تحت یہ پورا حق تھا؟ تاریخ کے یہ اندھے کیا اس قدر لاعلم ہیں کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف مظاہرے سب سے پہلے لندن اور یورپ کے شہروں میں شروع ہوئے تھے اور ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے تو اس کے قتل کا فتویٰ تک دے دیا تھا۔ لیکن ایجنسیوں کے ساتھ سیدالانبیاﷺ کے عشق کو جوڑنے کی جسارت صرف ملالہ جیسی ’’سولہ سالہ معصوم‘‘ بچی ہی کر سکتی ہے۔ اس کے بعد ضیاء الحق کا ایک مضحکہ خیز قسم کا حلیہ بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ شور جو اس ملک میں مچایا جاتا ہے کہ ’’عورتوں کی زندگی ضیاء الحق کے زمانے میں بہت زیادہ محدود ہو گئی تھی‘‘ (صفحہ 24)۔ کوئی 1977ء سے 1988ء کے درمیانی عرصے میں ٹیلی کاسٹ ہونے والے پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کی فہرست اٹھا لے تو اسے پتہ چلے گا کہ یہ پی ٹی وی اور ڈرامے کا سنہری ترین دور تھا۔ حسینہ معین‘ فاطمہ ثریا بجیا اور نورالہدیٰ شاہ اسی دور کی علامتیں ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ان فقروں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے تمام سکول‘ یونیورسٹیاں‘ کالج بند کر دیے گئے تھے اور عورتیں پس دیوار قید ہو گئی تھیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بیکن ہائوس‘ سٹی سکول‘ امریکن سکول‘ گرامر سکول وغیرہ سب ضیاء الحق کے دور میں کھلے اور اس ملک کے طول و عرض میں ان کی شاخیں کھولی گئیں۔ لیکن مغرب کو گالی دینے کے لیے ایسا آدمی چاہیے ہوتا ہے جو نماز پڑھتا ہو یا اللہ کا نام لیتا ہو۔ مغل سارے ظالم تھے لیکن گالی اورنگ زیب کو ہی دی جاتی ہے۔ یہ تصور اس پوری کتاب کے سبھی صفحات میں ملتا ہے اور یہ تصور اس سولہ سالہ معصوم ملالہ کے ’’عظیم‘‘ دماغ کا مرہون منت ہے۔ پاکستان سے محبت کا عالم یہ ہے کہ ملالہ پاکستان کی پچاسویں سالگرہ کے دن چودہ اگست کی خوشی منانے سے اپنے والد کے انکار کو فخر سے بیان کرتی اور بتاتی ہے کہ اس کے والد اور اس کے دوستوں نے اس دن بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھی تھیں (صفحہ 45)۔ پردے اور برقعے تو ایک معمول ہے‘ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے ملالہ کہتی ہے کہ برقعہ ’’گرمیوں میں ایک کیتلی کی طرح ہوتا ہے (صفحہ 51)۔ ملا محمد عمر کا ذکر کرتے ہوئے اسے انتہائی تمسخر کے ساتھ (One eyed Mullah) کہا گیا ہے۔ میں یہاں اس کا ترجمہ نہیں لکھنا چاہتا کہ میرے آبائو اجداد‘ میرے مذہب اور میری اخلاقیات نے مجھے اس طرح کے تمسخر کی تعلیم ہی نہیں دی۔ اس کے بعد امریکہ کے صدر بش کی زبان اس لڑکی کے منہ میں ڈال دی گئی اور وہ صفحہ 71 پر لکھتی ہے ’’ہر کوئی سمجھتا ہے کہ مشرف ڈبل کراس کر رہے تھے‘ امریکہ سے پیسے لیتے تھے اور جہادی لوگوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ آئی ایس آئی انہیں سٹریٹیجک اثاثہ سمجھتی تھی‘‘۔ امریکہ کی زبان بولتے ہوئے ملالہ کو ذرا بھی شرم نہیں آئی کہ یہ وہی فوج ہے جس نے اس کے سوات کو بقول اس کے طالبان کے ’’ظالمانہ شکنجے‘‘ سے نکالا تھا‘ لیکن کیا کیا جائے اس ’’سولہ سالہ معصوم‘‘ ملالہ سے وہ سب کچھ کہلوانا مقصود تھا جو امریکہ اور اس کے حواری کہلوانا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور اسلام کے ساتھ تمسخر کا وہی انداز ہے جو پوری مغربی دنیا اور اس کے سیکولر حواری اپنی گفتگو میں اپناتے ہیں۔ ملالہ نے اسلام کی ساری تعلیمات کو‘ جو ہماری نصابی کتب میں پڑھائی جاتی ہیں‘ ضیاء الحق کی اختراع قرار دیا ہے۔ صفحہ 24 پر اس نے لکھا ہے کہ یہ سارا نصاب ضیاء الحق کے دور میں ہمیں یہ بتانے کے لیے ترتیب دیا گیا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ ملالہ کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا دکھ بھی بہت ہے کہ اس کے نزدیک یہ کام تو پارلیمنٹ کا تھا ہی نہیں۔ اس کے نزدیک بچوں کو یہ پڑھانا بھی غلط ہے کہ ہم ایک مضبوط قوم ہیں اور بھارت سے جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے مطابق انہیں اصل حقائق بتائے جانے چاہئیں کہ ہم جنگ ہارے بھی تھے۔ یہ تاریخی طور پر صحیح ہوگا لیکن کیا دنیا کے کسی ملک میں بچوں کو ایسا پڑھایا جاتا ہے؟ کیا امریکی بچے پڑھتے ہیں کہ ان کے آبائو اجداد نے ریڈ انڈین کا قتل عام کیا تھا اور ان سے پچاس ہزار دفعہ معاہدہ کیے اور توڑے تھے؟ ملالہ نے اپنے بچپن کا ہیرو سکندر اعظم بتایا ہے(صفحہ 20)۔ اس لیے کہ اس ’’معصوم‘‘ نے سکندر کا جو چہرہ انگریزی نصابی کتب میں پڑھا‘ وہ ایسا ہے کہ بچے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ پورے مغرب میں بچوں کو کوئی نہیں پڑھاتا کہ سکندر وہ ظالم تھا جس نے تھیبس شہر کے تمام شہریوں حتیٰ کہ معصوم بچوں کو صرف اس لیے قتل کردیا تھا کہ انہوں نے دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھے تھے۔ اس نے دنیا میں پہلی دفعہ سفارت کاروں کو قتل کرنے کی رسم ڈالی تھی۔ اس نے ایران کے مشہور پارسی عبادت خانے پرسی پولس کو اس لیے تباہ کیا تھا کہ اس میں موجود خزانہ لوٹ سکے۔ لیکن ملالہ نے اپنے والد کے قائم کردہ سکول میں بچپن میں جو نصاب پڑھا تھا اس کے مطابق سکندر ایک ہیرو ہے۔ اپنے آبائو اجداد کا تمسخر اڑانے کا درس صرف مسلمانوں کو دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اپنے بچوں کو حقائق بتائو‘ لیکن کوئی اس اصول کو اپنے ملک میں نافذ نہیں کرتا۔ یہ کتاب اب یورپ کی ہر دکان پر موجود ہے‘ امریکہ کے بازاروں میں اور پاکستان کے ہر انگریزی پڑھنے والے قاری کی دسترس میں ہے۔ لوگ یہ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ ایک سولہ سالہ معصوم بچی کیسی عالمی سوچ اور خیالات رکھتی ہے۔ وہ تو وہی کہتی ہے جو پورا مغرب کہتا ہے۔ اسے بھی پاکستان‘ اسلام اور مسلمانوں میں وہی خرابیاں نظر آتی ہیں جو پورے مغرب کو نظر آتی ہیں۔ ایک معصوم بچی حالات و واقعات کا کس قدر ادراک رکھتی ہے۔ ایسی بچی کو تو آنکھوں کا تارا ہونا چاہیے۔ خاندان کے منہ پر کالک ملنے والی بچی قابلِ عزت اور گھر کے عیب کی پردہ پوشی کرنے والی فرسودہ‘ دقیانوس اور جاہل۔ یہ ہے میڈیا پر روز چیخنے چلانے اور اس ملک کی توہین کرنے والے لوگوں کا معیار۔ لیکن کیا کریں‘ یہ سب ہمارے اپنے ہیں ’’ہم تو ان کو ڈھونڈتا ہے جو ان کو کھلاتے‘ پلاتے‘ اوڑھاتے اور زندگی کی آسائشیں فراہم کرتے ہیں‘‘۔