"OMC" (space) message & send to 7575

گرداب

جب تاج برطانیہ کی پورے ہندوستان پر حکومت تھی‘ اس نے اپنی انتظامی ضروریات کے تحت پورے ملک میں بہت سی لکیریں کھینچ دی تھیں۔ ان لکیروں میں دو بہت اہم تھیں۔ ایک ضلع کی حدود‘ جس کا سربراہ ڈپٹی کمشنر بہادر تھا‘ جو اختیارات کے لحاظ سے ایک چھوٹا سا وائسرائے ہوتا تھا اور دوسری صوبے کی حدود‘ جن میں کہیں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل اور کہیں چیف کمشنر حکمرانی کے تخت پر بیٹھتا تھا۔ ضلع کی حدود کے آگے یہ لکیریں تحصیل اور تعلقے تک جا نکلتیں لیکن انتظامی لحاظ سے آزاد، خود مختار اور طاقتور تخت صرف ضلع اور صوبے کی حکمرانی کا ہوتا تھا۔ پاکستان میں آج بھی کئی صوبے اپنی مقدس اور محترم حدود کے رکھوالے اور نگہبان ہیں۔ یہ حدود صحیفہ آسمانی نہیں‘ نہ ہی صدیوں سے آباد لوگوں کی بنائی ہوئی حدبندیاں ہیں بلکہ یہ انگریز حکمرانوں کی کھینچی ہوئی لکیریں ہیں۔ یہ لکیریں عوامی مطالبے پر ڈالی گئیں نہ ان کی کوئی تاریخی حقیقت ہے‘ اس لیے کہ انسانوں کا صدیوں سے یہ معمول ہے کہ وہ ایک خطّۂ زمین کو ماں کہتا ہے، دھرتی ماتا اور وطن کے نام سے اسے یاد کرتا ہے لیکن یہ اس قدر بے وفا اور بودا رشتہ ہے کہ جب اس ماں پر قحط سالی آتی ہے، اس کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں، انسان پیاس سے تڑپنے لگتے ہیں اور جانوروں کے لیے چارہ میسر نہیں ہوتا تو یہ محبتوں کے گیت‘ گانے اور دھرتی کے ترانے لکھنے والا انسان اس پر لعنت بھیج کر کسی اور سمت روانہ ہو جاتا ہے۔ انسانوں کی تاریخ ان ہجرتوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ’قبضہ گروپ‘‘ کا علمبردار یہ حضرت انسان فوراً اس نئی جگہ کو اپنا وطن، ماں یا دھرتی ماتا کہنے لگتا ہے۔ اس نے کبھی بنجر، خشک، ویران یا قحط زدہ ماں کے لیے جنگ نہیں کی بلکہ یہ اس پر پھیلے گھاس سے بھرے میدانوں، سبزے سے بھری چراگاہوں، ہرے بھرے کھیتوں، چشموں، دریائوں اور پھلوں سے لدے درختوں کے لیے خون بہاتا رہا اور ان کے لیے گیت گاتا رہا ہے۔ انسان وطن یا دھرتی ماں کے رشتے سے باوفا ہوتا تو افریقہ جب صحرا میں بدلا تو یہ اسے نہ چھوڑتا۔ آریا کبھی بھی وسطی ایشیا میں موجود اپنے ٹھکانوں کو خیرباد نہ کہتے۔ یہی وہ لالچی اور مادی رشتہ ہے جس کی بنیاد پر انگریز نے زمین پر حدود کی لکیریں کھینچ کر صوبوں کو مستحکم کیا۔ اسی برطانوی راج نے 9 نومبر 1901ء کو اپنی سلطنت میں ایک لکیر اور کھینچی۔ ایک صوبے کی حدود بنائیں جس کا نام شمال مغربی سرحدی صوبہ رکھا۔ 29 مارچ 1849ء کو انگریزوں نے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا کہ چونکہ سکھوں کو شکست ہو چکی ہے اور لاہور اور امرتسر کے معاہدات کے مطابق تمام علاقے اب انگریزوں کے قبضے میں آ چکے ہیں، اس لیے سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا)کا علاقہ بھی برطانوی ہند کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس علاقے کو رنجیت سنگھ کی افواج نے1818ء میں فتح کرنا شروع کیا تھا۔ 1836ء میں جمرود کی فتح کے بعد پورا علاقہ رنجیت سنگھ کی حکومت کا حصہ بن گیا تھا اور ہری سنگھ نلوا یہاں کا حکمران بنا۔ وہی ہری سنگھ نلوا جس نے ہری پور شہر آباد کیا۔ 29 مارچ 1849ء سے 9نومبر 1901ء تک یعنی پورے 52 سال یہ صوبہ انتظامی طور پر پنجاب کا حصہ رہا۔ باون برسوں میں تین نسلیں کسی ایک جگہ پروان چڑھتی ہیں۔ اس سے پہلے یہ علاقہ احمد شاہ ابدالی کی حکومت کا حصہ تھا۔ اُس دور میں یہ صوبہ مغربی پنجاب کہلاتا تھا اور اس کی حدود جمرود سے ستلج کے آس پاس تک پھیلی ہوئی تھیں۔ انگریز پنجاب میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بنا رہا تھا اوربنجر اور سنگلاخ اراضی ہری بھری ہو رہی تھی۔ یہی وہ نہری نظام تھا جس کی بدولت پنجاب کا یہ خطہ پورے ہندوستان کی زرعی ضروریات کو پورا کرتا رہا۔ اسی صوبہ پنجاب (جس کا شمالی مغربی سرحدی صوبہ یعنی موجودہ خیبر پختونخوا ایک حصہ تھا) کے چیف انجینئر آبپاشی جنرل کروفٹن (Crofton) کو1871ء میں ایک نوٹ کسی گاربیٹ (Garbett) نامی انجینئر نے پیش کیا تھا‘ جس میں تحریر تھا کہ کالا باغ کے مقام سے ذرا اوپر دریائے سندھ ایک تنگ گھاٹی سے ہو کر گزرتا ہے‘ اس سے پہلے دریا کا پانی ایک بڑے تالاب کی شکل اختیار کر جاتا ہے جو قدرتی طور پر ایک ڈیم ہے اور پانی کا ذخیرہ بھی۔ یہاں پانی سطح سمندر سے 796 فٹ بلندی پر ہے۔ اس مقام کے جنوبی طرف قدرت نے پتھروں سے ایک ایسی ڈھلان بنا دی ہے جہاں سے پانی کو نہر کی صورت میں بدلا جا سکتا ہے۔ دریا کا رُخ موڑنا پڑے گا نہ اسے ایک Weir میں تبدیل کرنے کے لیے کوئی زیادہ محنت درکار ہو گی۔ یہ مقام دریائے جہلم سے بہت زیادہ بلندی پر واقع ہے‘ یوں یہ نہر سندھ اور جہلم دریائوں کے دوآبہ میں سے آسانی کے ساتھ گزاری جا سکتی ہے۔ 1871ء میں یہ فائل دیگر منصوبوں کی وجہ سے پس پشت چلی گئی لیکن 1881ء میں دوبارہ اس پر غور شروع ہوا کیونکہ انگریز حکومت اس وقت پورے پنجاب میں کالونی ڈسٹرکٹ بنا رہی تھی تاکہ ہندوستان میں غذائی قلت کا خاتمہ ہو سکے۔ اس وقت تک نو کالونی اضلاع بن چکے تھے اور دسواں اس کالا باغ کے مقام سے نہر نکال کر بنانے کا منصوبہ تھا۔ اس مقصد کے لیے حکومت ہند نے حکومت پنجاب کو سات لاکھ پچاس ہزار پونڈ بھی دے دیے تھے۔ میجر جنرل ایچ ڈبلیو گلیور محکمہ آبپاشی میں جائنٹ سیکرٹری تھا، اس نے اپنے خط نمبر910 مجریہ 19 اگست1881ء میں اس منصوبے کی خوبیاں اور خامیاں لکھ کر حکومت کو بھجوائی تھیں۔ اس کے مطابق دریا میں پانی اس قدر وافر ہے کہ نیچے سمندر تک کسی بھی علاقے میں کمی کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس پورے علاقے میں زیرزمین پانی کی سطح نوے فٹ تک نیچے ہے اور صرف چند ایکڑ زمین ہی یہاں سے سیراب ہو سکتی ہے لیکن نہر نکلنے سے باون لاکھ پچاس ہزار ایکڑ زمین زیر کاشت آئے گی۔ اس پورے منصوبے کی سب سے بڑی مشکل یہ بتائی گئی کہ اس علاقے میں آبادی بہت کم ہے اور اگر یہ نہر گزاری بھی جائے تو لوگ بہت کم میسر ہوں گے جو زمین کاشت کریں۔ اس کے لیے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر نے یہ تجویز دی کہ کالا باغ کے شمالی کی جانب آباد پختونوں کو اس خطے میں زمین دے کر آباد کیا جائے، اس لیے کہ صدیوں سے یہ لوگ اپنے ریوڑوں کے ساتھ سردیوں کے موسم میں یہاں آباد ہو جاتے ہیں۔ ان کے اپنے ہاں زمین بہت کم ہے لیکن ان کے اندر محنت اور جانفشانی دو ایسی خصوصیات ہیں جو اس خطے کو سرسبز کر سکتی ہیں۔ سر ایڈگرٹن (Edgerton)، جو اس وقت لیفٹیننٹ گورنر تھے، نے اس ضمن میں بنوں، پشاور اور مہمند کی مثالیں بھی اپنی رپورٹ میں پیش کیں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ 1855ء سے ہم نے افغان بارڈر کو نرم کر رکھا ہے اور کابل اور قندھار سے ہزاروں لوگ ان اضلاع میں آکر آباد ہوئے ہیں اور آج یہ امن پسند شہریوں کی حیثیت سے رہ رہے ہیں‘ لیکن اس پیش رفت کے چند سال بعد شمال مغربی سرحدی صوبہ بنا دیا گیا اور پھر انگریز جنگ عظیم اوّل میں الجھ گیا۔ اسے یہاں سے کرائے کے فوجی چاہئیں تھے اس لیے زراعت اور کالونی اضلاع کا منصوبہ ختم کر دیا گیا تا کہ لوگ خوشحال نہ ہو سکیں اور فوج میں بھرتی کا راستہ نکلتا رہے۔ پھر دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد انگریز کی رخصتی۔ مدتوں یہ منصوبہ فائلوں کی زینت بنا رہا‘ لیکن جب بھارت سے پانی کے تنازعے کا آغاز ہوا تو 1956ء میں پھر اسی کالاباغ کی جگہ کو قدرت کا ایک فطری منصوبہ سمجھ کر زیر بحث لایا گیا جس کی لاگت کا تخمینہ2.3 ارب ڈالر لگایا گیا۔ اس منصوبے کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ دریائے سندھ کا پانی بھارت روک نہیں سکتا تھا۔ یہاں ہماری بیوروکریسی کے کمالات سامنے آئے۔ سندھ طاس معاہدے کے لیے ایک کنسورشیم بنا جو پاکستان کے آبی معاملات کی بہتری کے لیے تھا۔ پاکستان کی بیوروکریسی‘ بھارت کے سیاست دان اور مغرب کے کھلاڑی مل گئے اور اس منصوبے کی جگہ جہلم پر منگلا اور دیگر ڈیموں کا منصوبہ بنا دیا گیا۔ انڈس واٹر منصوبہ 1960ء میں ایوب خان کے دستخط سے دستاویز بنا جو 9 ارب ڈالر کے فنڈ پر مشتمل تھا جس میں ساڑھے پانچ ارب کنسورشیم کی گرانٹ تھی اور بھارت نے بھی اس میں ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر دیے تھے۔ پاکستان کو عالمی بینک نے ایک کروڑ 78 لاکھ ڈالر قرض دیا اور یوں پاکستان اس بنیادی منصوبے سے ہٹ کر ایک ایسے گرداب کی جانب چل نکلا جس سے آج تک نہیں نکل سکا۔ غلام اسحٰق خان کہتے تھے کہ میں نے اسی وقت ایک اجلاس میں کہا تھا کہ اگر آپ آج کالا باغ ڈیم نہیں بناتے اور بیوروکریسی کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے تو پھر آپ یہ کبھی نہیں بنا سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں