کبھی کبھی اداسی اس طرح گھیر لیتی ہے کہ دن بھی لمبی رات کے سناٹے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ پرندوں کی آوازیں‘ ہوا کی سرسراہٹ‘ جھرنوں کی نغمگی سب کے سب درد کے گیت بن جاتے ہیں۔ راہ چلتے اپنی دھن میں مگن بچہ‘ بس سٹاپ پر انتظار کرتی بوڑھی عورت‘ سائیکل پر شور زدہ ٹریفک سے بچتا بچاتا کوئی مزدور‘ ایسے لگتا ہے سب کے سب کسی کرب میں مبتلا ہیں۔ لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے یہ سب مصنوعی ہے‘ یہ لوگ اپنے اندر کے دکھ کو چھپانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔ مدتوں جب کبھی ایسی بے وجہ اداسی طاری ہوتی تو کتاب اٹھا لیتا‘ کوئی بھی الل ٹپ‘ بے کار‘ ایسی جس کا سر پیر نہ ہو‘ اندر کی اداسی غصے میں بدلتی‘ مصنف کے ہر فقرے پر اسے بے نقط سناتا کہ کیا ضرورت تھی اتنا وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کی۔ لیکن اداسی کے اندر ایک قوت چھپی ہوتی ہے‘ ایک انرجی ہوتی ہے جو راستہ مانگتی ہے۔ بے وجہ اداسی میں تو یہ انرجی خوفناک حد تک خطرناک ہوتی ہے۔ بوجھل سر اور بے مزہ طبیعت۔ ایک زمانہ تھا باہر نکل جاتے‘ کئی کئی میل پیدل چلتے‘ پورا شہر لاہور جو ستّر کی دہائی میں تھا اور پورا شہر کوئٹہ جو اسّی کی دہائی میں تھا‘ ان دونوں شہروں کا کونہ کونہ اس بے مقصد آوارہ گردی کی زد میں رہا۔ گھنٹوں کی آوارہ گردی‘ پاک ٹی ہائوس کی گہما گہمی‘ چائے خانوں کا ہجوم‘ چلتی پھرتی‘ دوڑتی بھاگتی زندگی کا افسوں‘ یہ سب کچھ اس آوارہ گردی کے دوران فلم کے بدلتے منظروں کی طرح ہوتے‘ تھک ہار کر گھر لوٹتے یا ہاسٹل کے کمرے میں پڑے بے ترتیب بستر پر آ کر گرتے تو بدن کی تھکن نیند کی آغوش میں لے جاتی۔ صبح کو تیز رفتار زندگی پھر اپنی گرفت میں لے لیتی تو اداسی کا یہ موسم کچھ دیر کے لیے رخصت ہو جاتا۔ لیکن یہ موسم ایک احسان کر جاتا۔ زندگی کو ایک درد کے ساتھ دیکھنے اور محسوس کرنے کی لذت دے جاتا۔ یہی وہ لذت تھی جو شعر لکھواتی اور آج بھی لکھوا رہی ہے۔ لیکن اب دکھ اتنے بڑھ گئے ہیں‘ کرب اتنا شدید ہو گیا ہے‘ المیے اس قدر مسلسل ہو گئے ہیں کہ اداسی کے دور میں شاعری کا وقفہ ہی بہت کم ملتا ہے۔ دفتر‘ کالم‘ ٹاک شو‘ سیمینار‘ مذاکرے اور پھر ایک بے سکون نیند۔ دنیا بدل گئی‘ شہر بڑے ہو گئے‘ گھر ریڈیو کے بجائے اب ٹی وی اور انٹرنیٹ سے آراستہ ہو گیا لیکن نہ اداسی بدلی اور نہ اس کا ٹھکانہ۔ ستّر کی دہائی میں جو کیفیت تھی وہ ایسی شاعری کرواتی تھی۔ شبِ بے اماں تو گزر بھی جا کہ یقینِ رُوئے سحر گیا تیری تیرگی کے وجود سے میرے دیکھنے کا ہنر گیا مرے برگ و بار امان تھے‘ سبھی پھول پھل مری جان تھے وہ ہے قحطِ ابر کرم کہ اب سبھی اہتمامِ شجر گیا سبھی بند تھے سرِ شام سے جو مکیں تھے خوف مکان کے وہ ہوائے شرق کہ غرب تھی کہ ہر اک مکان کا در گیا لیکن تیس سال گزرنے کے بعد اداسی کا کرب اور وقت کی تلخی اس قدر شدید ہو گئی ہے کہ اس تیز رفتار ترقی اور چاروں جانب میسر سہولیات کے باوجود نہ اداسی کا موسم بدلتا ہے‘ نہ شاعری کا درد۔ کیسے بدلے۔ تیس سال پہلے سڑک پر کھیلتا بچہ‘ بس سٹاپ پر کھڑی عورت اور سائیکل چلاتا مزدور شام کو لوٹ کر گھر چلا جاتا تھا۔ لیکن اب تو اس دھرتی پر کتنے ایسے ہیں جو اپنے ہی دیس‘ اپنے ہی وطن میں اجنبی ہیں‘ بے گھر ہیں‘ خانماں برباد ہیں‘ کسی کو کراچی کی پُررونق زندگی یاد آتی ہے تو کوئی باجوڑ‘ سوات اور وزیرستان کی سرسبز وادیاں ڈھونڈتا پھرتا ہے‘ کوئی کوئٹہ کی سرد ہوائوں کو سینے میں بسائے ہوئے کسی دوسرے شہر میں سخت گرمی کے موسم گزار رہا ہے تو کسی کے دل میں مستونگ اور خضدار میں اپنے آبائو اجداد کے گھر اور قبروں کی یاد بسی ہے۔ اپنے ہی وطن میں ہجرت‘ یہ ہمارا المیہ ہے،۔ اس المیے میں جو کرب ہے وہ کسی اور دکھ میں نہیں۔ دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل ہو تو سڑکوں پر چلتا ہر شخص افسردہ‘ اداس اور غمزدہ نظر آئے گا۔ یہی اداسی ہے کہ تیس سال بعد بھی شاعری‘ جو میری تنہائی کا واحد سہارا ہے‘ ایسی نظم تخلیق کرواتی ہے کہ جس کا عنوان ہی ’’نوحۂ ہجرت‘‘ ہے۔ ہجرت بھی عجب اب کہ مکینوں سے ہوئی ہے جس شہر میں رہتے تھے وہی شہر ہے اب تک جس گھر میں بسیرا تھا وہی اب ہے ٹھکانہ جس چھت کی دعا مانگتے رہتے تھے سبھی لوگ اب تک ہے سروں پر اسی چھتنار کا سایہ پھر بھی کوئی ہجرت ہے کہ چہروں پہ سجی ہے ہر آنکھ میں گھر لوٹ کے جانے کی پڑی ہے کل گھر جسے کہتے تھے پڑائو ہے کوئی اب اک چھت جو اماں دیتی تھی اب خوف نشاں ہے یاروں کا ٹھکانہ نہیں ملتا ہے کسی کو باتیں سبھی اغیار کی یاروں کی زباں ہیں آنکھیں سبھی اپنوں کی مگر شعلہ فشاں ہیں دل یوں تو دھڑکتے ہیں‘ سنائی نہیں دیتے اس شہر کو اب اشک دکھائی نہیں دیتے اک قافلۂ دربدراں اپنے ہی گھر میں ہجرت کا سماں چاروں طرف خوف نگر میں بے گھر ہیں غریب الوطنی سب پہ پڑی ہے بے سمت مسافت کی گھڑی آن کھڑی ہے چہرے کہیں اپنوں کے دکھائی نہیں دیتے دیوار و در اپنے تھے سجھائی نہیں دیتے کیا لوگ ہیں اس دکھ کی دہائی نہیں دیتے کس قدر خاموشی ہے‘ آنسو ہیں کہ لوگوں کی آنکھوں میں چھلکتے ہیں‘ بہنے کو بے قرار ہیں‘ لیکن بہہ نہیں پاتے۔ تلخیٔ ایام ایسی ہے کہ چہروں پر مسکراہٹ خواب ہو چکی ہے۔ لوگوں پر حالات کی سیاہ چادر ایسی تنی ہوئی ہے کہ ہر صبح کسی نئے سورج کی تلاش میں اٹھتے ہیں اس سورج سے امید وابستہ کرتے ہیں‘ لیکن اس کی حدت اور تپش اس قدر جلاتی ہے کہ ان کی آنکھوں میں پھر مایوسی کا اندھیرا چھا جاتا ہے۔ کتنے سالوں سے یہ اداسی قائم ہے‘ کتنے موسموں سے دل کرب کا شکار اور دماغ مایوس سا ہو جاتا ہے۔ کیا کروں کالم میں لوگوں کو مایوس نہیں کرنا چاہتا۔ اپنی تنہائی میں بس شاعری ہی میرا سہارا بنتی ہے۔ رُت بدلتی ہی نہیں‘ موسم بدل جانے کے بعد رات ڈھلتی ہی نہیں ہے دن نکل آنے کے بعد موسمِ بے خواب میں‘ شہرِ شکستہ خواب میں کچھ نہیں بدلا‘ مکینوں کے بدل جانے کے بعد کون در کھولے گا اب ہجرت نصیبوں کے لیے کس کے گھر جائیں گے اب گھر سے نکل جانے کے بعد اک عذاب حبسِ حرفِ حق ہے سینے پر گراں دم کہاں آئے کسی دم‘ دم نکل جانے کے بعد یہ حبس کا موسم ہے‘ روشنی کی کوئی کرن نہیں‘ خواب ٹوٹ چکے‘ اداسی ایک عفریت کی طرح چھائی ہوئی ہے لیکن اہلِ نظر تو اسی موسم کو امید سے جوڑتے ہیں۔ امید اس دروازے سے جو دلوں کو جوڑتا ہے‘ موسموں کو بدلتا ہے‘ ظالموں کو نشانِ عبرت بناتا ہے‘ جو حیّی و قیّوم ہے۔ گناہوں‘ خطائوں‘ لغزشوں سے در گزر کرتا ہے۔ رات کے مہیب سناٹے میں‘ کھلے آسمان پر تاروں کی گردش‘ چاند کے سحر اور ہوائوں کی سرسراہٹ میں اداس ہوتا ہوں تو کوئی کان میں کوئی سرگوشی کرتا ہے کہ مانگو اس رحمن و رحیم سے‘ وہ جس کا دعویٰ ہے ’’کون ہے جو مضطرب دلوں کی دعائیں سنتا ہے‘‘ ان دنوں سے زیادہ مضطرب دل اور کب ہوگا۔ مانگو‘ التجا کرو‘ گڑگڑا کر التجا کرو‘ وہی ہے جو حالات بدلنے پر قادر ہے۔ مانگو‘ شاعری دعا میں ڈھل جاتی ہے: یہ حبسِ مستقل ٹوٹے کسی صورت ہوا آئے کہیں سے گنگ بستی میں کوئی سنگِ ندا آئے غبارِ ابتلا اس شہر کے چہرے پہ چھایا ہے کوئی دستِ دعا اٹھے‘ کسی جانب گھٹا آئے اتار اک اسم ہونٹوں پر کہ جو شافی ہو‘ کافی ہو دعا ایسی کہ جس سے موسمِ ردِّ بلا آئے