ایک اور بہت بڑا سوال امتِ مسلمہ میں مسلکی اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم برداشت اور خونریزی کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس برصغیر میں موجود تیس سے چالیس ہزار انگریز ہی اس کے و احد ذمہ دار ہیں؟ کیا ہمارے علما نفرت کی آگ میں حصے دار نہیں ہیں؟ کیا ان لوگوں نے ایک مسلسل عمل کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو ایک دوسرے سے نفرت کا سبق نہیں پڑھایا؟ برصغیر کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہرمکتبۂ فکر کے جیّد ترین علما نے مدتوں اس بات پر اپنی توانائیاں صرف کیں کہ مخالف مسلک کے عقائد اور ان کے علما کی تحریروں میں کون سے نقائص ہیں۔ زور دار اور پُر جوش رسالے لکھے اور تمام مکاتبِ فکر کے مدرسوں میں پڑھائے جاتے رہے۔ اس کے بعد منبرو محراب ہاتھ آئے تو اپنی شعلہ بیانیوں کا سارا زور مخالف کو کذّاب، بے دین ، گمراہ، اور بالآخر کافر کہنے پر صرف کیا۔ شیعہ ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث سب نے اس میں پورا پورا حصہ ڈالا۔ ردِّ بریلویت، ردِّ دیوبندی، ردِّشیعہ اور ردِّ غیرمقلدین جیسے موضوعات پر آپ کو ایک وسیع مواد ہر مکتبۂ فکر میں مل جائے گا۔ وہ‘ جن کے اسلاف قرآن و سنت کے ہر پہلو کو لوگوں پر روشن کیا کرتے تھے، جو کبھی پوری دنیا میں کفرو شرک کے مقابلے میں توحید کے علمبردار تھے، جو سیّدالانبیاءﷺ سے عشق کی مشعل روشن کرنے کے نقیب ہوا کرتے تھے، ان کا سارا زورِ بیان اس بات پر صرف ہونے لگا کہ فلاں شخص یا گروہ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے یا نہیں، فلاں دل میں سیّدالانبیاءﷺ کے احترام کی مشعل روشن ہے یا بجھ چکی۔مشرک، بدعتی، گستاخِ رسول، منکرینِ اولیاء ، گستاخِ صحابہ اور منکرینِ اہل بیت جیسے موضوعات ہمارے مذہبی اکابرین کا پسندیدہ موضوع بن گئے۔ گزشتہ چالیس سالوں سے میں ہر مکتبہ فکر کے علما کی دھواں دار تقریروں سے فیض یاب ہو رہا ہوں۔ کانفرنس توحید کے نام پر منعقد ہوتی ہے لیکن تقریریں پڑوس کی مسجد کے امام اور اس کے اسلاف کی ہرزہ سرائی کے ذکر سے بھری ہوتی ہیں، مجلس میلاد سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سجائی جاتی ہے اور شعلہ بیانیاں اپنے اسلاف کی تعریف و توصیف اور دوسروں کی گستاخیوں کی داستانیں بیان کرنے پر صرف ہو جاتی ہیں۔ آلِ رسولؐ کی محفلوں کا تو غضب ناک پہلو یہ ہے کہ فقرے گھما پھرا کر ایسے بولے جاتے ہیں کہ پوری بستی جو اس محفل میں شریک نہیں‘ یزید کی فوج قرار دے دی جاتی ہے۔ ادھر بات شانِ صحابہؓ کی شروع ہوتی ہے مگر کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ جوشِ خطابت لوگوں سے دوسرے مکتبۂ فکر کے لوگوں کے لیے کفر کے نعرے نہ لگوا دے۔ یہ تقریریں اور یہ ’’علمی‘‘ مواد اور تحقیق و تنقیص کا یہ عمل ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے‘ لیکن ان ڈیڑھ سو سالوں سے ایک سو بیس سال انتہائی امن اور سکون کے ہیں۔ کوئی دنگا، فساد، سر پھٹول یا قتل و غارت نہیں۔ لیکن گزشتہ تیس سال ا یسے ہیں کہ جیسے ہر لمحہ سولی پر لٹکا ہوا ہو۔ ان تیس سالوں میں ایسا کیا ہوگیا؟ اگر آج ہم نے اس پر غور نہ کیا تو اگلے سوسال ہم ایک دوسرے کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ ان تیس سالوں میں اس مسلم خطے کے سیاسی حالات میں ایسی اہم تبدیلیاں آئیں جن کا اثر یہاں کے صدیوں پرانے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی حالات پر پڑا۔ ایک پُرسکون جھیل جیسی مسلم معاشرت میں ہلچل مچ گئی۔ افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں اور ایران میں انقلاب آگیا۔ یہ دونوں واقعات جنگ عظیم اوّل کے بعد مسلم اّمہ کی خلافت کی مرکزیت کے ختم ہونے اور جدید سیکولر قومی ریاستوں کے بعد سب سے بڑے واقعات تھے۔ ایران میں‘ انقلاب نے جہاں سیکولر قومی ریاست کی بنیادیں ہلادیں‘ وہیں افغانستان کا جہاد بھی خلافتِ اسلامیہ کے قیام کا نعرہ لے کر اٹھا اور طالبان کی صورت قائم حکومت نے مغرب کی سیکولر ریاستیں قائم کرنے کی جدوجہد کو غارت کر دیا۔ ان انقلابات کے نتیجے میں پورے خطے میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو گئی اور وہ تمام حکمران جنہیں پہلی جنگِ عظیم کے بعد مغرب نے اپنے کا سہ لیسوں کی حیثیت سے مسلّط کیا تھا‘ اپنے ممکنہ انجام کی وجہ سے خوفزدہ ہو گئے اوریوں ایک کشمکش اور جنگ کا آغاز ہو گیا۔لیکن اس کشمکش اور جنگ کا ایندھن وہ موادبنا جو سو دو سال سے اس امت کے مختلف مسالک کے علماء نے وقتاً فوقتاً تحریر کیا تھا۔ ا یک دوسرے کے ردّ میں لکھی گئی کتابیں اور کفر کے فتوے گرد آلود تہہ خانوں سے نکالے گئے اور پھر انہیں چاروں جانب پھیلا دیا گیا۔اسی زمانے میں ایک اور چیز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پہلے ان تمام علماء اور ذاکرین کے بے محابہ خطاب صرف اپنی اپنی مساجد اور امام بارگاہوں تک محددو تھے لیکن جس طرح اس دور میں پہلے آڈیو کیسٹوں اور ویڈیو کیسٹوں نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی جیسے فنکاروں کو مقبولیت بخشی ویسے ہی ان علما اور ذاکر ین کی آڈیو اور وڈیو کیسٹوں نے انہیں راتوں رات ملکی اور غیر ملکی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ کیسٹیں عام دکانوں پر دستیاب ہونے لگیں۔ شیعہ ذاکر کی کیسٹ سنی گاہک کے ہاتھ میں اور سنی مقرر کی کیسٹ شیعہ گاہک کے ہاتھ میں آگئی۔ مدتوں ان لوگوں کو ان کے مولوی بتایا کرتے تھے کہ فلاں مسلک کا مولوی یا ذاکر ہمارے بارے میں یہ کہتا ہے اور پھر نفرت کا بیج بویا جاتا تھا ۔لیکن اب تو وہ سب کچھ ایک دلیل کے طور پر مخالف فرقے کے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا۔ وڈیو اور آڈیو سے سب کچھ سی ڈی اور ڈی وی ڈی پرمنتقل ہوتا چلا گیا۔ ادھر گھر گھر کمپیوٹر آیا تو یہ سارا نفرت انگیز مواد عام آدمی کی دسترس میں چلا گیا۔ آڈیو ، وڈیو کیسٹ یا سی ڈی اور ڈی وی ڈی خریدنے کے لیے پھر بھی زحمت اٹھانا پڑتی تھی، بازار جانا پڑتا تھا لیکن جیسے ہی انٹر نیٹ آیا تو یہ تمام مواد یوٹیوب سے ہوتا ہوا فیس بک ، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس کی صورت میں ہر شخص کے گھر یہاں تک کہ موبائل تک جا پہنچا۔ اب نہ دکان پر جانے کا ترددّ، نہ کیسٹ اور سی ڈی خریدنے کی زحمت ، راہ چلتے موبائل پر انٹر نیٹ کھولو اور نفرت کے ثبوت کے طور پر کسی بھی مولوی یا ذاکر کی تقریر سنا کر آگ لگوا دو۔ یہاں ایک عجیب منطق پیش کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر ہر طرح کا جھوٹ اور افواہ چل رہی ہوتی ہے‘ لیکن یہ جھوٹ اور افواہ نہیں بلکہ ہمارے اپنے مذہبی قائدین کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو ہوتی ہے جسے ایک عام کمپیوٹر جاننے والا شخض بھی بڑی آسانی سے پہچان سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اور امام بارگاہ میں بولی جانے والی نفرت کی زبانیں اب گھروں کے دالانوں تک جا پہنچی ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم ایسا نہیں کہتے یہ ہم پر الزام ہے، اس کے جواب میں سامنے والا موبائل پر کسی نہ کسی کی تقریر نکال کر سنا دیتا ہے۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس نے اس سیاسی اور علاقائی طور پر پیچیدہ صورتحال کو ایندھن فراہم کیا، آگ لگائی اور کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ اس سارے طوفان میں نہ دیو بندی کو فتح حاصل ہوئی نہ بریلوی کو، نہ شیعہ جیتا اور نہ اہل حدیث ۔ مسکراہٹ ان چہروں پر ہے، رقص کناں وہ لوگ ہیں جو مدتوں سے یہ خواہش دل میں دبائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کو اللہ، اس کے رسولؐ اور عقائد سے برگشتہ کیا جائے۔ یہ لوگ ہیں جو اس مواد کو اکٹھا کرتے ہیں، کبھی کالم کی صورت پروتے ہیں اور کبھی کسی ٹاک شو میں دھینگا مشتی کرواتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں‘ حل کیا ہے! جس نے درد دیا ہے وہی دوا دے گا۔ اس امت کے تمام علماء کو اکٹھا ہونا پڑے گا اور ان سب لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا جن کی نفرت پر مبنی تقریریں اور مواد ہمارے درمیان موجود ہے اور ایسے سارے مواد‘ سی ڈیز اور کیسٹوں کو سر عام جلانا ہوگا‘ ورنہ اہل نظر مسجدوں اور امام بارگاہوں میں جبہّ ود ستار اور عمامے خون سے رنگین دیکھ رہے ہیں ۔