ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء کے ذریعے اقتدار حاصل کرتے ہی پاکستان کی سول بیوروکریسی کی تطہیر اور تنظیم نو کے لیے دو کام کیے... ایک بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن قائم کیا جس کی سربراہی ایک بریگیڈئر کر رہے تھے اور دوسرا پاکستان کے چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کی سربراہی میں بیوروکریسی کی تنظیمِ نو کے لیے ایک کمیشن قائم کر دیا۔ ملک کی انتظامیہ کی تطہیر‘ تنظیمِ نو اور اس کی صفوں سے بددیانت اور نااہل لوگوں کو نکالنا ہر فوجی حکمران کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ جمہوری حکمرانوں میں یہ شغل صرف ذوالفقار علی بھٹو نے اختیار کیا۔ سب نے اسی طرح کے ادارے قائم کیے‘ ایسے ہی کمیشن بٹھائے اور ان سب نے اپنی ذاتی ناپسند اور تعصب کی بنیاد پر افسران کو نوکری سے نکالا۔ سب سے بڑی تعداد چودہ سو افسران کی تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کی جنبشِ قلم سے نوکری سے برخاست ہوئے، لیکن ان سب کا انجام یہ ہوتا رہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ہو‘ ایوب خان‘ یحییٰ خان یا ضیاء الحق، سب کے سب اسی بیوروکریسی کے ایسے بے دام غلام بنے کہ ان کے مشورے کے بغیر گھر سے قدم بھی باہر نہ نکالتے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین سیاستدان نے بھی 1977ء میں الیکشن کی ٹکٹیں بیوروکریسی کے اہم کل پرزوں یعنی اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں سے پوچھ کر جاری کیں۔ یہ ایک ایسا تماشا ہے جو اس ملک میں 55 سال سے لگا ہوا ہے۔ ہر نیا حکمران آ کر ایک ہی اعلان کرتا ہے کہ میں کرپشن کا خاتمہ کر دوں گا۔ 1988ء کے بعد تو ہر پارٹی نے اپنے اپنے ''ایماندار‘‘ اور ''کرپٹ‘‘ افسران کی فہرستیں تیار کر رکھی ہیں۔ نواز شریف کے ایماندار پیپلز پارٹی کے لیے کرپٹ ہیں اور پیپلز پارٹی کے کرپٹ افسران ن لیگ کے لیے ایماندار۔ اس جمہوری وقفے میں پرویز مشرف کی بھی آمد ہوئی جس نے پوری قوم کو ایک ڈرامے کے ذریعے دھوکہ دینے کی کوشش کی اور نیب کا ادارہ قائم کیا۔ لیکن اس ادارے کی تفتیش اور تحقیق آخرکار وفاداریاں خریدنے کے کام آئی۔ ہر حکمران کے دور میں ایک ہی نعرہ بلند ہوتا ہے‘ ایک ہی غلغلہ رہتا ہے کہ اس ملک میں بددیانتی اور کرپشن اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور اس نعرے کے جواب میں ایک ''پختہ عزم‘‘ کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا؟
1956ء کی کارنیلیس رپورٹ میں ایک پیراگراف اس قوم کو حیران کر دینے کے لیے کافی تھا جس میں کہا گیا کہ ''گزر گئے وہ دن جب سی ایس پی افسران کا شمار ایماندار لوگوں میں ہوتا تھا اور لوگ ان پر اعتماد کرتے تھے۔ پورے برطانوی دور میں ان کی ایمانداری کی وجہ ہی سے حکومت مستحکم رہی لیکن اب حالت یہ ہے کہ محکمہ انسدادِ رشوت ستانی کے کیسوں میں تین نام سی ایس پی افسران کے بھی ہیں‘‘۔ یہ آج سے تقریباً پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ اس رپورٹ میں بہت سی سفارشات بھی پیش کی گئیں لیکن ایوب خان کی سیاسی مصلحتوں اور بیوروکریسی کی چرب زبانی نے اس رپورٹ کو سردخانے میں ڈال دیا۔ اس کے بعد آج تک یہ معاشرہ رشوت کے معاملے میں دن بدن زوال کا شکار ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ ایک چھوٹے سے کام کے لیے بھی عام آدمی کو رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاسپورٹ بنوانا ہو‘ بجلی یا گیس کا بل درست کروانا ہو‘ پیدائش یا موت کا سرٹیفکیٹ لینا ہو‘ ڈرائیونگ لائسنس‘ زمین کی فرد‘ حتیٰ کہ عدالت میں فیصلے کی نقل اور آئندہ پیشی کی تاریخ تک لینے کے لیے رشوت درکار ہے۔ ایسا کرنے والے لوگ دونوں جانب سے اپنا اپنا رونا روتے ہیں۔ رشوت لینے والا کہتا ہے کہ میری تنخواہ اس قدر قلیل ہے کہ میں اپنے مہینے کے پہلے دس دن بھی مشکل سے گزار پاتا ہوں جبکہ رشوت دینے والا یہ کہتا ہے کہ اگر وہ پیسے نہیں دے گا تو اسے اتنے چکر لگوائے جائیں گے کہ ایک دن تنگ آ کر یا تو وہ رشوت دے دے گا یا پھر خودکشی کر لے گا۔
اس پورے مسئلے کو سمجھنے کے لیے جب میں سیدالانبیائﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں سے رجوع کرتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ہم نے کرپشن اور رشوت کے خلاف جہاد کا سفر ہی شروع نہیں کیا۔ ہم نے اس سیڑھی پر قدم ہی نہیں رکھا جس سے کرپشن اور رشوت کا خاتمہ ہو سکے۔ آپﷺ نے کس وضاحت سے فرمایا: ''رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘۔ ہم نے بحیثیت معاشرہ کبھی رشوت دینے والے کو اس صف میں کھڑا ہی نہیں کیا جس صف میں میرے آقاؐ نے کھڑا کیا تھا۔ کسی جگہ ہم نے اسے مجبور‘ بے کس اور حالات کا غلام قرار دیا اور کہیں ہم نے اسے مال دار بنایا جس کے سب کام پیسوں سے نکل سکتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی ساری کی ساری خرمستیاں اور ڈرامے بازیاں اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی مقدمے بازیاں صرف سرکاری اہلکاروں تک محدود رہتی ہیں۔ ہم اس صنعت کار کو نہیں پکڑتے جو انکم ٹیکس افسر کو رشوت دیتا ہے‘ اس مل مالک کا کچھ نہیں بگاڑتے جو پیسے دے کر لائسنس حاصل کرتا ہے۔ وہ ڈرائیور بھی ہماری پکڑ میں نہیں آتا جو ٹیسٹ نہیں دیتا اور رشوت دے کر لائسنس بنوا لیتا ہے۔ اس ملک میں رشوت دینے والوں کی لمبی لمبی قطاریں ہیں جو دفتروں کے باہر اپنے ناجائز کام کروانے کے لیے لگی ہوئی ہیں۔ اس فن میں طاق وہ دلال ہیں جو ان دفاتر میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اب تو یہ فن اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ افسر کو اپنے منہ سے کہنے کی کچھ ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ایک تو صاحب سے کام نکلوانے والے مختلف لوگ دفتروں کے آس پاس میسر آ جاتے ہیں جو ایک ''شریف‘‘ شہری اور ''شریف‘‘ افسر دونوں کا بھرم رکھتے ہیں۔ نہ افسر کو سائل سے پیسے لیتے ہوئے شرمندگی کا احساس ہوتا ہے اور نہ سائل اس کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے کہ پتہ نہیں آفیسر کم یا زیادہ کے معاملے میں ناراض نہ ہو جائے۔ افسران کی ایک اور قسم ہے جنہیں آج کے دور میں کامیاب افسر کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے زندگی بھر یا پھر نوکری کا پورا عرصہ ایک ہی شخص کو اپنا رازدان‘ دلال یا ٹائوٹ بنایا ہوتا ہے۔ عموماً وہ صاحب کا بہت قریبی دوست معلوم ہوتا ہے۔ صاحب اس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اس کی رات گئے کی محفلوں میں شریک ہوتا ہے۔ بعض دفعہ تو خاندانی تعلقات بھی ہوتے ہیں۔ یہ شخص صاحب کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ پلاٹ خریدنا ہے‘ مکان بنانا ہے‘ بچوں کی فیسیں ہیں‘ شادی کے اخراجات ہیں‘ بیرون ملک شاپنگ ہے‘ یہاں تک کہ بیگم صاحب کے ناز نخرے بھی اس ''قریبی عزیز‘‘ یا ''بھائی‘‘ کے ذمے ہوتے ہیں۔ لیکن پورے ملک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صاحب سے کام کروانا ہو تو یہ شخص ایک کارگر نسخہ ہے۔ اس کارگر نسخے کی کام کے سلسلے میں ایک مناسب فیس ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی سرمایہ کاری طویل اور صبر آزما ہوتی ہے۔ اس میں نقصان کا اندیشہ بھی ہے۔ صاحب کی آمدن کم ہو اور خرچہ زیادہ ہو جائے، لیکن ایسے لوگ صاحب کی آمدن والی جگہ پر پوسٹنگ کے لیے بھی دوڑ دھوپ کرتے ہیں کہ ا س میں ان کا اپنا نفع پوشیدہ ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا تعلق ملک کی اشرافیہ سے ہوتا ہے اور تمام لوگ جو بڑے بڑے کاروبار کرتے ہیں‘ انہی سے رجوع کرتے ہیں۔ معاشرے میں یہ لوگ بہت بااثر کہلاتے ہیں اور آفیسر بہت ہی ایماندار۔ یہ سارا گورکھ دھندا اس لیے ہے کہ ہم نے رسول اکرمﷺ کی حدیث کی روح کو نہ سمجھتے ہوئے رشوت لینے اور دینے والے دونوں کو برابر کا مجرم قرار نہیں دیا۔