انٹرویو لینے والے کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ اس ترقی یافتہ دور میں کوئی قوم دنیا سے اس قدر بے رغبتی کا اظہار بھی کر سکتی ہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کے مصداق کہ اے دنیا میں نے تمہیں طلاقیں دیں، یہ پہاڑوں اور صحرائوں کے باسی آسائشِ دنیا سے بے پروا اور دنیا کے لالچ سے بے نیاز اپنی آزادی ا ور حرّیت پر نازاں کیسے ہیں؟ اس نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بات آگے بڑھائی کہ ''ایسے لوگوں کا کیا علاج ہو سکتا ہے‘‘۔ مدتوں بعد اسامہ بن لادن کا تذکرہ چھڑا تھا۔ پاکستان کے مشہور سفارت کار ایاز وزیر تحمل اور بردباری سے جواب دے رہے تھے۔ وہ ان تمام مذاکرات میں شریک تھے جو گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکی حکام اور طالبان کے درمیان ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا‘ جب پاکستان کے بہت سے دانشور یہ راگ الاپ رہے تھے کہ طالبان بے وقوف اور ضدّی ہیں۔ اگر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیں تو ایک عذاب سے بچ سکتے ہیں‘ لیکن وہاں تو سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سامنے تھی کہ جب امان دے دی جائے تو پھر اس شخص کا تحفظ بھی ذمہ داری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پشتون روایات بھی آڑے آ رہی تھیں کہ مہمان کی جان کی حفاظت تو میزبان کے ذمے ہوتی ہے۔ طالبان نے امریکہ سے کہا کہ آپ اسامہ بن لادن کے خلاف ہمیں ثبوت لا دیں ہم اسے خود سزا دے دیں گے۔ بمشکل تمام انہوں نے ایک ویڈیو ایاز وزیر کے حوالے کی کہ اسے طالبان کو دے دیا جائے۔ ایاز وزیر نے کہا‘ آپ خود کیوں نہیں دیتے؟ ویڈیو پہنچا دی گئی۔ اس کے بعد امریکیوں اور طالبان کے درمیان پھر گفتگو شروع ہوئی۔ طالبان نے سوال کیا کہ کیا اس کی بنیاد پر امریکہ کی کوئی عدالت اسامہ بن لادن کو سزا سنا سکتی ہے؟ امریکی سناٹے میں آ گئے اور کافی وقفے کے بعد بولے... نہیں... طالبان نے کہا، تو پھر ہم سے کیسے توقع رکھتے ہو کہ ہم انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں گے؟
اس کے بعد پاکستان کے حکام، علما، افغان معاملات کے ماہر اور دیگر لوگ انہیں سمجھانے میں لگ گئے۔ طالبان نے کہا کہ آپ تین اسلامی ممالک (سعودی عرب‘ پاکستان اور ایک کوئی تیسرا ملک) کے تین علماء کو بلا لیں۔ سعودی عرب اس لیے کہ اسامہ بن لادن کا ملک ہے۔ پاکستان ہمارا دوست ہے اور تیسرا ملک آپ کی مرضی کا۔ اگر یہ علماء فیصلہ دے دیں تو ہم اسامہ بن لادن کو آپ کے حوالے کر دیں گے۔ امریکیوں نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا اور زبردستی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگے۔ اب انہیں امریکی طاقت، عالمی تنہائی اور ممکنہ تباہی سے ڈرایا جانے لگا‘ لیکن انہوں نے وہی جواب دیا جو ایک مومن کی شان ہوتی ہے۔ طالبان نے کہا: ''ہم مٹی کے گھر میں رہتے ہیں، مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور ایک دن ہمیں مٹی میں چلے جانا ہے‘‘ ٹیلی ویژن کے مشہور انٹرویو لینے والے کے سا منے جب ایاز وزیر نے ان کا یہ فقرہ دہرایا تو اس کی حیرت اور تمسخر دیکھنے والا تھا۔ دنیا کے عیش و آرام سے محبت کے دلدادہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات اس وقت بھی نہیں اترتی تھی‘ جب میرے آقا سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ''دنیا میں ایسے رہو جیسے ایک مسافر ہو‘‘ (مفہوم) اور نہ آج کے دنیا پرست لوگوں کے مزاج کو یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے۔ یہ اسی دور کا تذکرہ ہے جب پاکستان میں افغانستان پر امریکی حملے کے بارے میں طویل بحث چھڑی ہوئی تھی۔ دنیا کے معاملات کے ماہر اور عالمی تنہائی سے خوفزدہ پرویز مشرف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اس زمانے کے ''عظیم‘‘ دانشور یہ دلیل دیتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ د یتے تو ہمارا تورا بورا بنا دیا جاتا۔
آ ج بارہ سال گزرنے کے بعد دنیاوی جمع تفریق کرنے بیٹھیں تو خسارے کا سودا انہوں نے ہی کیا جو عالمی تنہائی سے ڈر گئے اور جنہیں اللہ سے زیادہ امریکہ کی طاقت کا خوف مار ڈالے جا رہا تھا۔ اتنا خون طالبان کا نہیں بہا، جتنا اس سرزمین پر بہا۔ ہم جس خوفناک جنگ اور فساد کا شکار ہوئے اس میں ہماری دنیا تو برباد ہوئی لیکن آخرت کے بارے میں ہم جس بے اطمینانی کا شکار ہیں اس کا کیا علاج؟ مٹی کے گھر میں رہنے، مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھانے اور مٹی میں چلے جانے والے طالبان کو یہ یقین تو میسر ہے کہ وہ جس سے لڑ رہے ہیں وہ کفر پر ہے، وہ ان کی سرزمین پر قابض ہے۔ اسلام کی رو سے بھی اور دنیا کی اخلاقیات کے حوالے سے بھی اس سے لڑائی حق ہے۔ لیکن ہم کس عذاب میں ہیں؟ دونوں جانب نعرۂ تکبیر کی صدائیں ہیں۔ دونوں جانب کے لوگ اپنے مرنے والوں کو شہید پکارتے اور ان کی اسی طرح عزت و تکریم کرتے ہیں۔ دنیا کے معیارات پر فیصلہ کرنے والے اس ملک کے حکمرانوں اور ان کے فیصلوں پر خاموش رہنے والوں کے مقدر میں کیا آیا؟ صرف اسلام اور کفر کی لڑائی نہیں بلکہ ہر گھر میں فساد، ہر بستی میں قتل و غارت، رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے نام پر، شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی کے نام پر۔ کاش اٹھارہ کروڑ لوگوں کو اللہ کے اس دعوے پر یقین ہوتا جو اس نے سورہ قریش میں کیا کہ وہ بھوک میں کھانا اور خوف میں امن دیتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ بھوک اور خوف دونوں کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کہ ہم بھوک میں بھیک کی تلاش عالمی طاقتوں اور عالمی معاشی اداروں سے مانگتے ہیں اور امن قائم کرنے کے لیے بھروسہ قوتِ بازو اور تدبیرِ محض پر کرتے ہیں۔ خیر چھوڑیں یہ توکّل کی باتیں ہیں۔ کسی نے جنید بغدادیؒ سے پوچھا تصوف کیا ہے؟ فرمانے لگے توکّل ہی تصوف ہے۔ اقبالؒ نے اس معرکۂ خیروشر میں توکّل کے تصور کو جس طرح واضح کیا ہے وہ اللہ کا مقصودِ عین ہے۔
اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
یہ معرکۂ حق و باطل‘ جو برپا ہے‘ اس میں اللہ کے راستوں پر چلنے والوں کو بھروسہ اللہ کی ذات پر اور ابلیس کو موجودہ ٹیکنالوجی پر ہے کہ یہی اس کے لشکروں کی کل اساس ہے۔ پوری دنیا اس ٹیکنالوجی سے خوفزدہ ہے۔ سب سہمے ہوئے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب اس دنیا پر موجودہ مغربی تہذیب نے اپنی گرفت کو مضبوط کیا تو وہ سب کے سب سہم کر رہ گئے جو دلوں میں اللہ کے خوف کے سوا دوسروں کا خوف بھی بسائے ہوئے تھے‘ لیکن میرا اللہ اپنی نشانیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ مٹی کے گھر میں رہنے والوں، مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھانے والوں اور مٹی میں دفن ہونے پر یقین رکھنے والوں نے گزشتہ ایک سو سالوں میں تین عالمی طاقتوں کی ٹیکنالوجی کا غرور خاک میں ملا دیا۔ برطانیہ‘ جس کی سلطنت میں سورج غروب نہ ہوتا تھا‘ کمیونسٹ روس‘ جو اپنے آپ کو استعمار کے مقابلے میں سب سے بڑی طاقت تصور کرتا تھا اور اب خود کو واحد سپر طاقت سمجھنے والا امریکہ۔ لیکن جسے اللہ ایمان کی دولت سے نہ نوازنا چاہے وہ دلیلیں گھڑ کے لاتا رہتا ہے کہ انگریزوں کے مقابلے میں ایک جیسے ہتھیار تھے، روس کے خلاف امریکہ نے مدد کی اور امریکہ کے مقابلے میں پاکستانی اداروں نے دوغلا کردار ادا کیا۔ کیسی دلیلیں ہیں، جو اللہ کی طاقت اور فیصلے کی واحد حیثیت کے خلاف دی جاتی ہیں۔ برطانیہ کو اسی اسلحے کے ساتھ کیا کسی اور قوم نے شکست دی؟ تاریخ جواب نفی میں دیتی ہے۔ امریکہ نے پچاس سے زیادہ ممالک میں روس کے خلاف جنگ میں مدد کی، ویت نام سے جنوبی امریکہ تک۔ کیا افغانستان کے علاوہ کسی اور ملک کو یہ توفیق حاصل ہوئی؟ تاریخ کا جواب پھر نفی میں ہے۔آخری دلیل تو ایسی دی جاتی ہے کہ ہنسی آتی ہے۔ جس ملک میں روز قتل و غارت ہو رہی ہو، کئی ہزار ایسے چھوٹے چھوٹے علاقے ہوں جہاں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہ آئے، ایسا ملک اڑتا لیس ملکوں کی فوج اور امریکہ کی ٹیکنالوجی کو شکست دینے میں طالبان کی مدد کرے گا اور وہ جیت بھی جائیں گے؟
یہ توکّل کی دنیا ہے اور اللہ اپنی نشانیاں روز اس دنیا پر ظاہر کر رہا ہے۔ جوں جوں وقت قریب آئے گا؟ امریکہ اور مغرب سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کا گروہ بھی واضح ہوتا جائے گا اور اللہ پر توکّل کرنے والوں کی دنیا بھی روشن تر۔ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔