میڈیا کے کیمرے اس سیمینار میں نہیں تھے۔ اسلام آباد کے سرد موسم میں دسمبر کی ایک صبح مشہورِ زمانہ لال مسجد اور مرحوم جامعہ حفصہ کے قریب ایک ہوٹل کے زیر زمین ہال میں شہر کے لوگوں کا جمِ غفیر تھا۔ تنظیمِ اسلامی نے دہشت گردی کے سدباب کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا۔دو مقررین کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے تھااوروہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کے اہم ستون یعنی بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین عہدوں پرفائزرہ چکے تھے۔ ایک ایاز وزیرتھے جن کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے، خیبر لاء کالج پشاور سے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے محکمہ خارجہ سے منسلک ہوئے،وہ اپنے محکمے میں افغان امور کے ماہر تصور ہوتے تھے۔افغانستان میں اس زمانے میں پاکستان کے سفیر تھے جب امریکی اور پاکستانی حکام طالبان کو یہ سمجھانے میں مصروف تھے کہ امریکہ کے سامنے جھک جائو۔ دوسرے رستم شاہ مہمند جو پاکستان کی سول سروس یعنی ڈی ایم جی سے تعلق رکھتے تھے۔ خیبرایجنسی اور جنوبی وزیر ستان میں پولیٹیکل ایجنٹ ، شمالی وجنوبی وزیرستان کے کمشنراورافغان مہاجرین کے کمشنر رہنے کے بعد پاکستان کے سیکرٹری داخلہ رہے۔افغانستان اور قبائلی امورپرمہارت کی وجہ سے انہیں سول سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد افغانستان میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا۔تیسرے مقرر پرویزمشرف کے دست راست ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز تھے۔افغانستان پر امریکی حملے کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر متمکن تھے،ایک ایسا عہدہ کہ جب اس ملک سے افغانوں پر حملے کرنے کے لیے مکمل مدد فراہم کی جارہی تھی، اس عہدے کی آنکھیں ان تمام واقعات کی گواہ بنتی رہیں۔ دسمبر2003ئسے اکتوبر2005ء تک وہ لاہور کے کورکمانڈررہے اورریٹائرمنٹ کے بعد نیب کے چیئرمین بنے۔ یوں تواس دور میں بہت سے لیفٹیننٹ جنرل رہے لیکن اپنے ضمیر کی خلش سے بے قرار ہوکراور خاموشی توڑکرکتاب صرف لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے لکھی۔اس کتاب میں لکھا جانے والا سچ اس قدرکڑوا تھا کہ اس نے بھونچال کھڑا کر دیا۔ان کی کتاب '' یہ خاموشی کہاں تک ‘‘ پر بہت عرصہ اخباروں اور ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں تبصرہ ہوتا رہا۔پرویز مشرف نے غصے میں لال بھبھو کا ہوتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ شاہدعزیز کا دماغ چل گیا ہے۔اس سیمینار میں قبائلی امورکے باقی دونوں ماہرین اورخود قبائلی پس منظر رکھنے والے اعلیٰ بیوروکریٹس نے بہت سی ایسی باتیں کیں جنہیں اس ملک کا میڈیا بیان نہیں
کرتا اورشاید مدتوں نہیں کرے گا۔سیمینار میں جنرل شاہد عزیز نے ایک حیران کن انکشاف کیااور یہ ایسی حقیقت ہے جسے سوات کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن نہ یہ میڈیا پر نشر ہوتی ہے اور نہ ہی اسے کوئی سیاست دان،دانشوریاتبصرہ نگاربیان کرنے کی جرأت کرتا ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے‘ جو اپنی لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے تھے اور جس کی ریکارڈنگ تنظیم اسلامی کے پاس موجود ہے اورہوسکتا ہے چنددنوں کے بعد وہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہو، کہا: ''سوات میں امن
معاہدہ حکومت اورفوج نے امریکہ کے دبائو پرتوڑااوراس کا الزام طالبان پرلگا دیا‘‘۔ یہ فقرہ ایسا تھا جس سے پورے کا پوراہال سناٹے میں آگیا۔اس فقرے کی گونج میں ا گر ہم میڈیا پرگزشتہ پانچ سال کی گرجتی برستی آوازوں اوردانشوروں کے قلم سے نکلے ہوئے زہرخند جملوں کو یادکریں تو یوں لگتا ہے کہ کئی سال پوری کی پوری قوم ایک جھوٹ کے الائو میں جلتی رہی۔ پاکستان کی پوری سیاسی قیادت‘ جوسوات آپریشن کے وقت برسراقتدارتھی، میں سے کسی بیان یا ٹی وی پر تبصرہ نکال کر دیکھ لیں،ایسے لگے گا جیسے یہ لوگ امن کی فاختائیں اڑا رہے تھے اور طالبان کی طرف سے انہیں ذبح کر دیا جاتا تھا۔ یہ اس قدرصابر تھے کہ انہوں نے امن کی ہرکوشش کی لیکن اسے طالبان نے تباہ وبربادکرکے رکھ دیا۔ اس سوال کا جواب تو جنرل شاہد عزیزہی دے سکتے ہیں کہ فوج کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ امن جو مذاکرات کی میزپروقوع پذیرہوگیاتھااسے ایک فوجی آپریشن میں کیوں بدل دیا گیاجس کے آج تک ہم زخم چاٹ رہے ہیں۔آج بھی دبی دبی آوازیں سوات کے بازاروں میں سنائی دیتی ہیں اورصرف ایک وقت کا انتظارہے کہ جب قصبوں،محلوں اوردیہاتوں میں سنائی جانے والی کہانیاں میرے ملک کے طول وعرض میں بیان ہونے لگیںگی؛ پھر کوئی معافی، غلطی کاکوئی اعتراف ان زخموںکومند مل نہ کرسکے گا۔ اس سارے کھیل تماشے میںجوتھیٹرمیڈیا پرسجااورآج بھی سجاہوا ہے اس نے قوم کو نفسیاتی مریض بنایا ہوا ہے۔آج بھی دلیل یہ دی جاتی ہے اورکتنے زور شور سے دی جاتی ہے کہ طالبان پر بھروسہ کیسے کریں‘ وہ تو سوات میں معاہدہ کر کے توڑ دیتے ہیں۔طالبان کوجس طرح میڈیا میں گالی بنایاگیا وہ صرف سوات کے امن معاہدے کے ایک واقعے سے نہیں بلکہ اس میڈیا نے ہراس قتل کوطالبان کے کھاتے میں ڈال کر دکان سجائی جوکہیں کسی اور جگہ بھی ہوتا رہا۔سوات ہی کی مشہورگلوکارہ غزالہ جاوید جب اپنے باپ کے ہمراہ قتل ہوئی تو کتنے دن میڈیا یہ ماتم کرتا رہا کہ شدت پسندی اورطالبان کی سوچ نے اس خوبصورت گلوکارہ کی جا ن لے لی۔ ابھی سوات میں لڑکی کے کوڑوں والی جعلی ویڈیو ٹی وی کی سکرین پرنہیں آئی تھی کہ اس سے تقریباً دو ہفتے قبل ایک پروگرام میں انسانی حقوق کی ترجمان ثمرمن اللہ نے کہا کہ دیکھنا کچھ عرصے بعد ایک ویڈیو سامنے آنے والی ہے جو طالبان کی حقیقت آشکارکردے گی۔اکثر یہ سوال اٹھتاہے کہ آخر طالبان سے اس قدردشمنی کیوں ہے؟ اس ملک میںاوربھی توشدت پسندگروہ بستے ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے والے تو بلوچستان میں بھی ہیں۔ قتل وغارت کا بازارگرم کرنے والے توکراچی میں بھی کسی کو چین سے بسنے نہیں دیتے۔ ایسی ایسی بوری بند لاشیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن کی ہڈیوں میں ڈرل سے سوراخ کیا گیا ہوتاہے، ناخن کھینچے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہوگی جب وہ یہ لاشیں دیکھ کرسوچتے ہوں گے کہ ان کے پیاروں نے زندگی کے آخری لمحے کس اذیت سے گزارے ہوں گے۔ پھر بھی میڈیا پر صرف ایک ہی شدت پسند گروہ کے ''ترانے‘‘ کیوں گائے جاتے ہیں۔ یہ مرض بہت پرانا ہے، یہ حربہ اورہتھکنڈہ بہت پراثر ہے اس لیے کہ اس کا ہدف طالبان نہیں اسلام ہوتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی عرب ریاستوں میں سے اکثریت پر گزشتہ نصف صدی سے سیکولرڈکٹیٹر برسراقتدار تھے، ان کا اسلام یا اس کے اصولِ زندگی سے دوردور کا بھی واسطہ نہ تھا لیکن دنیا بھرکے اخبارات یا ٹیلی ویژن پروگرام اٹھا لیں،انہیں سیکولر ڈکٹیٹر نہیں مسلمان ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ کسی نے جرمنی کے ہٹلر، سپین کے فرانکو یا فلپائن کے مارکوس کو آج تک عیسائی ڈکٹیٹر نہیں کہا اور نہ ہی لکھا۔اسلام کواور مسلمانوں کو ہدف بناکرجس قدر تسکین دنیا بھر کے میڈیا اورمیرے ملک کے''عظیم‘‘ دانشوروں کو ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ صرف کسی نیوز روم میں بیٹھ کر لگاسکتے ہیں،وہ نیوز روم جہاں کسی دھماکے، قتل،اغوا یا ایسے کسی جرم کی خبر آچکی ہو اور ٹیلی ویژن پر چل بھی رہی ہوتو متلاشی نظریںاورکان بے چینی سے انتظارکر رہے ہوتے ہیں، تجسس میں ایک دوسرے سے سوال کیے جاتے ہیں: ''طالبان نے ذمہ داری قبول نہیں کی ابھی تک؟ پتہ تو کرو، عالمی میڈیا کو دیکھو، کسی ویب سائٹ پر ڈھونڈو‘‘ اوراگر ذرا بھی تاثر مل جائے تو پھر دیکھیں اگلے چوبیس، اڑتالیس یا بہتّر گھنٹے کی نشریات کے لیے موضوع مل جاتا ہے۔ خبر چلائو اور رگڑ دو شرعی قوانین کو، اسلام کی شرعی حیثیت کواورخود اسلام کو۔