میرے سامنے اس وقت منگل 12 اگست 1947ء کا انگریزی اخبار The civil & military gazette ہے۔ اخبار میں 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کی روداد اس سرخی کے ساتھ چھپی ہے: Pakistan Constituent Assembly Opens. یہ اخبار کسی مسلم لیگی رہنما یا کسی مذہبی رجحان رکھنے والی شخصیت کی زیر ادارت نہیں تھا بلکہ یہ خالصتاً برطانوی سرپرستی میں نکلنے والا اخبار تھا جو 1872ء میں لاہور‘ شملہ اور کراچی سے بیک وقت شائع کیا گیا۔ یہ دراصل چار انگریزی اخبارات کو ختم کر کے نکالا گیا تھا۔۔۔ ایک کلکتہ کا "Mofussilite" دوسرا "Lahore Chronicle'' تیسرا ''Punjab Times" اور چوتھا "Indian Public Opinion" اس اخبار کی شہرت مشہور انگریز ناول نگار اور شاعر رڈ یارڈ کپلنگ (Rud Yard Kipling) کی وجہ سے ہے جس کا والد لاہور کے عجائب گھر کا کیوریٹر تھا۔ کپلنگ امتحانات میں اچھے نمبر نہ لے سکا اور اسے آکسفورڈ میں داخلہ نہ ملا۔ والد نے اسے اس اخبار میں اسسٹنٹ ایڈیٹر لگوا دیا۔ اس زمانے میں سٹیفن ویلر اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ 1886ء میں کے روبنسن (Kay Robinson) ایڈیٹر بنا تو اس نے کپلنگ کو اخبار میں افسانے لکھنے کے لیے کہا۔ یہیں سے اس کی شہرت کا آغاز ہوا۔ یہ وہی کپلنگ ہے جسے برطانیہ میں بھی ایک مہذب گورے کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی مشہور نظم White Man's burdon اس تعصب کی علامت کے طور پیش کی جاتی ہے۔ اس اخبار کا مزاج اور اس کی ادارتی پالیسی ہمیشہ سیکولر رہی۔ اس کے ادارتی بورڈ پر ہمیشہ گوروں کا قبضہ رہا یا ان کے تربیت یافتہ مقامی انگریزی لکھنے والوں کا۔
اس طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ قائد اعظم کی قانون ساز اسمبلی کی گیارہ اگست 1947ء کی جس تقریر کا حوالہ دے کر پوری قوم کو الجھن میں مبتلا کیا گیا ہے کہ شاید قائد اعظم ایک سیکولر قسم کا پاکستان چاہتے تھے‘ اس کے مندرجات کو اس اخبار میں سب سے نمایاں ہونا چاہیے تھا، لیکن میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اس اخبار میں گیارہ اگست 1947ء کی آئین ساز اسمبلی کی جو روداد چھپی‘ وہ انتہائی مختصر ہے۔ صبح دس بجے اجلاس شروع ہوتا ہے اور جوگندر ناتھ منڈل کو سپیکر منتخب کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد لیاقت علی خان کی جانب سے مبارکباد اور جواب میں منڈل کے شکریے کے الفاظ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ قائد اعظم کی تعریف اور ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار ہے۔ اس کے بعد قائد اعظم کے چند رسمی جملے ہیں جو اخبار میں دیے گئے ہیں۔ میں وہ فقرے ڈھونڈتا رہا جو زوروشور سے بیان کئے جاتے ہیں اور ثابت کیا جاتا ہے کہ قائد اعظم جیسا عظیم لیڈر اس نوزائیدہ ملک کے سیاسی نظام کو اسلام سے دور رکھنے کا درس دے رہا تھا جو خالصتاً اسلام کے نام پر بنا تھا اور جس کی سرحد کی دونوں جانب انسان صرف اس لیے شہید کیے جا رہے تھے کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھتے تھے۔ یہ ایک ایسا جھوٹ ہے‘ جس پر یقین کرنے کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی۔ جو قائد پاکستان کے قیام کے مطالبے کے لیے اپنی تقریروں میں ایک علیحدہ قومیت اور علیحدہ ضابطہ حیات کی بات کرتا رہا ہو اور جو اپنی زندگی کی آخری تقریر یکم جولائی 1948ء کو ایک خالصتاً سرکاری تقریب یعنی سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح پر کرے اور اس میں یہ ہدایات دے کہ ایک ایسا معاشی نظام مرتب کیا جائے جو اسلام کے سنہری اصولوں پر مبنی ہو اور پھر اسی تقریر میں مغرب کے معاشی نظام پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہے کہ اس نظام نے ایک ایسا 'گند‘ (Mess) ڈال دیا ہے کہ اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے، وہی شخص آئین ساز اسمبلی کے افتتاح کے وقت ایک ایسی تقریر کیسے کر سکتا ہے‘ حالانکہ اس تقریر میں بھی کوئی ایسی بات نہیں جِسے اسلام کے بنیادی اصولِ حکمرانی سے متصادم کہا جا سکے، لیکن قائد اعظم جیسی محتاط شخصیت سے یہ بھی توقع نہیں کی جا سکتی تھی، جو اپنا ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولا کرتے تھے۔
مجھے دوسری حیرت اس بات پر ہوئی کہ آئین ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس ہے، آل انڈیا ریڈیو تمام تقاریب کی ریکارڈنگ کر رہا ہے اور اسے نشر بھی کر رہا ہے لیکن اس تقریر کی نہ کوئی ریکارڈنگ میسر آتی ہے اور نہ ہی تقریر کا کوئی ہینڈآئوٹ کسی جگہ میسر ہے۔ ایک اور بے بنیاد دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 12 اگست کے ڈان (Dawn) اخبار میں یہ تقریر چھپی تھی۔ تحقیق اور جستجو میں جائو تو اس دعوے پر ہنسی آتی ہے۔ ڈان اخبار کے دلی کے دفتر کو بلوائیوں نے چند ماہ پہلے آگ لگا دی تھی اور اس کے مالکان پریشان تھے کہ اخبار کہاں سے نکالا جائے۔ انہوں نے تمام بندوبست کر لیا کہ اس نوزائیدہ ملک کے دارالحکومت کراچی سے اخبار نکالا جائے۔ یوں ڈان اخبار کا پہلا شمارہ 15 اگست 1947ء کو شائع ہوا۔ اپنے جنم لینے سے تین دن پہلے اس اخبار نے قائد اعظم کی یہ تقریر کیسے چھاپ دی۔ ایک اور کہانی اس تقریر کے ساتھ جوڑی گئی جو اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ یعنی سول اور ملٹری بیوروکریسی نے اس تقریر کی اشاعت روکی تھی۔ وہ سول اور ملٹری بیوروکریسی جسے انگریز نے سیکولرازم کی لوریاں دے دے کر پالا تھا، جِن کی سرکاری تقریبات میں شراب ایک سرکاری رسم کی طور پر پیش کی جاتی تھی، جہاں اٹھنا بیٹھنا‘ چلنا پھرنا اور سانس تک انگریزی زبان اور تہذیب میں ہوتا تھا، وہ سب کے سب کیسے متحد ہو گئے اور کہا کہ یہ تقریر روک دو کیونکہ ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے ہیں اور یہاں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک شخص کا نام بھی لیا جاتا ہے اور اسے پوری سول اور ملٹری بیوروکریسی پر بھاری ثابت کیا جاتا ہے۔ آدمی جھوٹ بولتا ہے لیکن دلیل کے ساتھ۔ طوائف کے کوٹھے سے گھنگھرو کی صدا تو بلند کی جا سکتی ہے آخرِ شب کی سحر گاہی میں تلاوت کی نہیں۔
قائد اعظم کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کے بعد سیکولر حضرات کے نزدیک سب سے مقدس دستاویز منیر رپورٹ ہے۔ پاکستان کے اس متنازعہ ترین چیف جسٹس کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ اس ضمن میں قائد اعظم کا رائٹرز (Reuters) کو دیا گیا ایک انٹرویو اس رپورٹ میں درج ہے۔ فضل کریم صاحب کی بیٹی سلینہ کریم جب اپنی تعلیم کے دوران لندن گئیں تو انہیں بھی حیرت ہوئی تھی کہ ایسا انٹرویو قائد اعظم کیسے دے سکتے تھے۔ انہوں نے تحقیق شروع کی۔ جھوٹا شخص اپنے بے بہا نشان چھوڑ جاتا ہے۔ جسٹس منیر نے اس انٹرویو کی تاریخ نہیں بلکہ سال 1946ء لکھا ہے۔ سلینہ کو وہ تمام فائلیں ڈھونڈنا پڑیں اور آخر پتا چلا کہ قائد اعظم نے رائٹرز کو صرف ایک انٹرویو دیا جو 21 مئی 1947ء کو دیا گیا تھا۔ سلینہ کریم کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ جسٹس منیر نے قائد اعظم کے انٹرویو کے پیرے کے پیرے ہی تبدیل کر دیے اور ان میں قائد اعظم کے حوالے سے عوام کے اقتدار اعلیٰ کا سیکولر تصور ڈال دیا۔ اس کے بعد سلینہ کریم نے ایک طویل تحقیق کی اور 317 صفحات پر مشتمل کتاب لکھ ڈالی جس کا نام Secular Jinah & Pakistan: What the nation dosn't know ہے۔ یہ وہ جھوٹ ہے جو زوروشور سے اس قوم کے کانوں میں ڈالا جاتا رہا ہے اور آج سب لوگ یقین کر لیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے، شاید‘ اگر‘ یا کسی مصلحت کے تحت قائد اعظم نے ایسا کہا ہو گا، لیکن جھوٹے کو جھوٹا کوئی نہیں کہتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کے دس لاکھ شہدا سے غداری کی‘ ان کے مقدس خون اور قربانیوں کا مذاق اڑانے کے لیے جھوٹ بولا۔ اس قوم کو دانستہ گمراہ کرنے کے لیے سرکاری سطح پر جھوٹ کی فیکٹری لگائی گئیں۔ میری جستجو جاری ہے کہ وہ کون تھا جس نے یہ گیارہ اگست کی تقریر تخلیق کی اور اس جھوٹ کو عام کیا۔ ایک مجرم جسٹس منیر تو موجود ہے۔ کیا کوئی اس کی قبر کے ٹرائل کا نعرہ بلند کرے گا؟