طاقتور لوگ‘ برادریاں‘ خاندان اور قبیلے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا انتقام ضرور لیتے ہیں، اپنے مجرم کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور اسے قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ یہی حال قوموں کا ہے۔ طاقتور قومیں اپنے مجرموں کا سات سمندر پار تک پیچھا کرتی ہیں، انہیں ڈھونڈ نکالتی ہیں اور کیفر کردار تک پہنچاتی ہیں۔ اس تگ و دو میں اس بات کا خیال تک نہیں رکھا جاتا کہ ہمارا مجرم کسی دوسری قوم کا ہیرو بھی ہو سکتا ہے۔ قوموں کے غیرت مند افراد بھی اپنے آبائواجداد پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے دور دراز کا سفر کرتے ہیں۔ جس شخص نے جلیانوالہ باغ میں نہتے عوام پر گولی چلائی تھی وہ برصغیر پاک و ہند میں اپنی حکمرانی کے دن پورے کرنے کے بعد برطانیہ سدھار چکا تھا‘ لیکن انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے سکھ وہاں بھی جا پہنچے تھے۔ ایمل کانسی امریکہ میں سی آئی اے کے دو افراد کو قتل کرنے کے بعد پاکستان لوٹ آیا تھا لیکن اس کی تلاش میں امریکی ٹیمیں کئی سال اس ملک کا کونا کونا چھانتی رہیں اور بالآخر حکمرانوں کی ملی بھگت اور ملت فروشی کی وجہ سے اسے ان طاقتوروں کے حوالے کر دیا گیا‘ جنہوں نے اسے سزائے موت دے دی۔ ایمل کانسی امریکہ کا مجرم تھا‘ لیکن جس صبح اسے زہریلا ٹیکہ لگا کر موت کی نیند سلایا گیا‘ پورے پاکستان میں موت کا سا سناٹا تھا۔ کوئٹہ کی تاریخ نے کبھی اس سے بڑا جنازہ نہیں دیکھا۔ امریکہ کا یہ دشمن‘ حکمرانوں کی عالمی مجبوری تھی لیکن وہ عام آدمی اور عام پاکستانی کا ہیرو تھا۔ ایسے ہیرو دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں اور ایسے مجرم بھی دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔ اسامہ بن لادن کی شہادت ابھی کل کی بات ہے، وہ شخص‘ جس نے زندگی بھر کبھی امریکہ کی سرزمین پر قدم نہ رکھا‘ امریکہ کا سب سے بڑا دشمن تھا اور امریکہ اسے پندرہ سال تک دوسرے ملکوں کے صحرائوں‘ میدانوں اور پہاڑوں میں ڈھونڈتا رہا اور بالآخر اس کی موت سے اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کر لی، اپنے مجرم کو کیفر ِکردار تک پہنچا دیا۔
کیا پرویز مشرف صرف جمہوریت اور آئین کا مجرم ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت یہ تصور اور اس کے پیچھے عالمی رائے عامہ طاقتور ہے۔ یہ رائے عامہ بھی کارپوریٹ سرمائے اور اس کے میڈیا نے تراشی ہے۔ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بقا اور اسے ایک عالمی سچائی اسی سرمائے نے بنایا۔ اسے ایک سچائی بنانے کے لیے لاکھوں انسانوں کا خون کیا گیا۔ بڑا آسان نسخہ ہے۔۔۔ پہلے کسی بھی ملک میں حکمران شخص کو میڈیا کے ذریعے آمر یا ڈکٹیٹر ثابت کرو‘ اسے بدنام کرو اور پھر کہو کہ ہم اس ملک کے عوام کو ایک جمہوری مستقبل دینے کے لیے اس پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔ عراق‘ افغانستان‘ لیبیا پر حملہ کرو۔ لاکھوں لوگوں کو قتل کرو‘ پھر وہیں بیٹھ کر ایک آئین تحریر کرو‘ اپنے سامنے انتخابات کرائو‘ اپنے منظور نظر افراد کی حکومت قائم کرو اور دنیا کے سامنے یہ نعرہ بلند کرو کہ ہم نے اس قوم کو آمریت سے نجات دلا کر جمہوریت کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ پوری دنیا کو دھمکائو کہ اگر ہمارے بنائے ہوئے سسٹم کے مطابق زندگی نہیں گزارو گے تو تمہیں قبرستان بنا دیں گے۔ یہ ہے وہ عالمی جمہوری نظام جس کا مجرم پرویز مشرف آج کٹہرے میں ہے۔ اس لیے اس کارپوریٹ سرمائے پر پلنے والا میڈیا اسے ایک مجرم کے طور پر پیش کرتا ہے اور کوئی اس پر اختلاف نہیں کرتا۔
لیکن میرا دکھ اس امتِ مرحوم کا دکھ ہے۔ یہ امت جس کے بارے میں میرے آقا سیدالانبیاءﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ جسدِ واحد ہے، اگر اس کے ایک عضو کو تکلیف ہو گی تو پورا جسم درد محسوس کرے گا (مفہوم حدیث)۔ آج اس کی یہ پہچان گم ہو چکی ہے۔ اگر یہ امت زندہ ہوتی تو مشرف جمہوریت کے نہیں امتِ مسلمہ کے ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہوتا۔ اس پر یہ فردِ جرم عائد ہوتی کہ تم نے ایک کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے کیسے اپنے زیرِ انتظام تین ہوائی اڈوں سے امریکی جہازوں کو اڑنے کی اجازت دی کہ وہ پڑوس میں مسلمانوں کی ہنستی بستی آبادیوں پر بم برسائیں اور مسلمانوں کا قتلِ عام کریں۔ اس پر یہ فردِ جرم عائد ہوتی کہ تمہیں سیدالانبیاءﷺ کا وہ فرمان یاد نہیں تھا کہ قیامت کے دن اللہ کا غضب اس شخص کے لیے بے پناہ ہو گا جو کسی آزاد مسلمان کو قید کرے اور آگے بیچ دے۔ تم نے چار سو سے زیادہ مسلمانوں کو پیسے لے کر آگے بیچا اور پھر اس پر اتراتے بھی رہے۔ اس کی فردِ جرم میں اسلام کے اس بنیادی اصول اور رسول اللہﷺ کی ہدایات کی خلاف ورزی بھی شامل ہوتی کہ سفارت کار تمہاری پناہ میں ہوتے ہیں لیکن تم نے ایک مسلمان سفارت کار ملا عبدالسلام ضعیف کوکس تحقیر اور ذلت کے ساتھ غیر مسلموں کے حوالے کر دیا۔
اس مملکتِ خداداد پاکستان میں اور یہاں بسنے والی امت مسلمہ کے اخلاق و اقدار کو بگاڑنے‘ ان کے اندر فحش کو عام کرنے‘ ان کے مدرسوں اور مسجدوں پر ٹینکوں سے حملہ کرنے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو بموں کی آتش میں بھوننے کے الزامات اس سے سوا ہیں، لیکن کوئی ان پر آواز بلند نہیںکرتا۔ کوئی ان جرائم کی تفصیل سامنے نہیں لاتا۔ یہ جرم تو وہ ہیں جن کا اقرار خود مشرف نے کیا اور جن کے شواہد امریکہ کی سینیٹ کے سامنے پیش کردہ رپورٹوں میں بھی موجود ہیں۔ یہ مقدمہ ایک دن چلے یا دس سال، اس کا فردِ جرم میرے لیے دلچسپی سے خالی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی فرد کسی گھرانے میں آ کر فائرنگ کرے‘ سب گھر والوں کو قتل کر دے لیکن اس پر اس قتل و غارت کا مقدمہ نہ چلایا جائے، ہاں البتہ اس بات پر اسے مجرم ٹھہرایا جائے کہ اس نے ڈرائنگ روم میں لگی 1973ء کی فیملی پورٹریٹ کو دیوار سے اتار کر زمین پر پٹخا اور اس کی توہین کی۔