"OMC" (space) message & send to 7575

سروں کی فصل پک چکی!

یہ قوم متحد کیوں نہیں ہوتی، اس قوم کو متحد کون نہیں ہونے دیتا۔ جس قوم کو گزشتہ ساٹھ سالوں سے اس کے دانشوروں، سیاسی رہنمائوں اور مذہبی لیڈروں نے ابہام اور کنفیوژن کے سوا کچھ نہ دیا ہو‘ نفرتوں کے سیلاب کی لہروں پر اپنے اقتدار اور اپنی مقبولیت کی کشتیاں چلائی ہوں‘ پوری قوم کو رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور مسلک کی بھٹیوں میں جھونکا ہو‘ آج یہ سب کے سب اس قوم سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ یک جان ہو جائے، وہ بھی اس میڈیا کے کہنے پر‘ جس نے اس قوم کو گزشتہ دس سالوں میں ہیجان میں مبتلا کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا‘ ایسے ایسے سوال اٹھائے جس پر یہ قوم مدتوں سے متفق تھی۔ ایسے تمام لوگ جو کل تک پاک فوج کے جرائم کی فہرستیں پیش کرتے تھے، ان کے خلاف چارج شیٹیں سنا کر لمبے لمبے ٹیلی ویژن پروگرام کرتے تھے، جو اسے پاکستان میں تمام خرابیوں کی جڑ گردانتے تھے‘ جو اس کی افغان پالیسی کو اس ملک میں خون خرابے کا ذمہ دار سمجھتے تھے‘ ان سب نے گزشتہ کئی سالوں سے اس قوم کے ذہنوں میں یہ زہر بڑی محنت سے انڈیلا‘ لیکن کس قدر سادہ ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نفرت کا بیج بونے والے دانش ور، سیاست دان اور مذہبی لیڈر اس قوم کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر سکیں گے؟ ایک نقطے پر جمع کر لیں گے؟ لوگ ان کی بات پر یقین کر لیں گے؟ لوگ جو مضطرب ہیں، پریشان ہیں، خوفزدہ ہیں‘ جن کا فشارِ خون گزشتہ دس سالوں سے مسلسل روگ بن چکا ہے۔ شام ڈھلے ٹیلی ویژن کی جو کھڑکی سکون بخشتی تھی، اب آگ اگلتی ہے۔ ہم نے آزادیِٔ اظہار کی فصل میں نفرتوں کے جو کانٹے بوئے اور جو کنفیوژن اور ابہام کے جنگل کھڑے کئے ہیں‘ ان سے اس ملک کا چہرہ کانٹوں بھرا اور تاریک ہو چکا ہے۔ لوگوں کے دماغ مائوف ہیں اور دل پژمردہ اور افسردہ۔ جو لوگ اس سارے بحران کے ذمہ دار ہیں‘ ان پر عوام کا اعتماد کب کا اٹھ چکا۔ انہیں کسی پر اعتبار نہیں‘ نہ کسی لیڈر پر‘ نہ دانشور پر، نہ کسی تبصرہ نگار پر اور نہ اینکرپرسن پر۔ یہ قوم اب ان سب سے خوفزدہ ہو چکی ہے۔ وہ بادل نخواستہ سنتی ہے اور روز مایوسی کی دلدل میں ڈوب جاتی ہے۔ کیا ان لوگوں کی بات دلوں پر اثر کرے گی؟ کس قدر خام خیالی ہے، کس قدر خوش کن توقعات ہیں۔
یہ قوم کس قدر سادہ اور معصوم تھی۔ اس ملک کی تخلیق کے ہنگاموں میں قافلے جب لٹے پٹے اس سرزمین پر پہنچتے تھے تو ان میں اکثر وہ ہوتے جو اپنے پیاروں کو قربان کر کے آئے تھے، جن کے ماں باپ، بہن بھائی اور بچے ان کے سامنے ذبح کر دیے گئے تھے‘ لیکن وہ اس زمین پر پہنچتے ہی سجدہ ریز ہو جاتے، اللہ کا شکر ادا کرتے۔ دس لاکھ لوگ اس ایک لکیر کی خاطر قربان ہوئے جو برصغیر کو اس لیے تقسیم کر گئی کہ اس کے ایک جانب کلمہ طیبہ پڑھنے والے لوگ آباد ہوں گے‘ لیکن اس ملک کے دانش وروں نے سب سے پہلی بحث ہی یہ چھیڑی کہ یہ ملک اسلام کے لیے نہیں معاشی مفادات کے لیے تخلیق ہوا تھا۔ آغاز سے لے کر آج تک ان شہیدوں کے خون سے مذاق جاری ہے جنہوں نے گھر بار صرف اس لیے چھوڑے کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھتے تھے‘ ورنہ ان کے دادا پڑدادا ایک تھے۔ یہ ایک جیسا لباس پہنتے تھے، ایک جیسے گیت گاتے تھے، ایک ہی مارکیٹ یا کھیت میں کام کرتے تھے، ایک جیسا رہن سہن اور خوراک تھی‘ لیکن اب ان کے ساتھ مدتوں سے رہنے والے ہی انہیں یا تو قتل کر رہے تھے یا پھر انہیں ایک ایسے ملک کی جانب دھکیل رہے تھے جہاں ان کے ہم مذہب رہتے ہیں۔ اس طرف رہنے والوں کے بھی خواب تھے۔ کسی نے یہ نہ سوچا تھا کہ ہم جو پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی یا بنگالی بولنے والے، اپنے اپنے کلچر اور اپنی اپنی زبان اور علاقے کی وجہ سے ایک ہو جائیں، ایک جذب و مستی کا عالم تھا کہ ہم یہ سب نہیں بلکہ ہماری پہچان ہمارا مسلمان ہونا ہے۔ اس پہچان کا مذاق اس ملک کے قیام سے لے کر آج تک اڑایا جا رہا ہے۔ جس قائد اعظم کی کوششوں اور نظریے کی بنیاد پر یہ ملک وجود میں آیا، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں عصمتیں لٹیں، لاکھوں شہید ہوئے اس شخص کو سیکولر بنا کر شہیدوں کی روحوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا اور آج تک اڑایا جا رہا ہے۔ جب تک یہ نسل زندہ تھی ان دانشوروں کا پھیلا ہوا ابہام مؤثر نہ ہو سکا، لیکن آج کی نسل کو جس طرح تخلیقِ پاکستان کے مقاصد کے بارے میں مسلسل ابہام کا شکار کر کے تقسیم کیا جاتا رہا‘ کوئی ان لوگوں کے اتحاد کے نعرے پر یقین کرے گا؟ پوری قوم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد انہیں ایک ہونے کے درس پر کون بھروسہ کر ے گا؟ 
پوری قوم کو اپنے دوہرے معیار سے جن لوگوں نے سالوں خلجان میں مبتلا رکھا، وہ لوگ اب کہتے ہیں کہ اصولی موقف پر متحد ہو جائو۔ روس کے خلاف جنگ حرام، امریکہ کے حق میں مسلمان بھائیوں کے خلاف جنگ حلال۔ مشرقی پاکستان، کراچی، سندھ، بلوچستان میں آرمی ایکشن ظلم، طالبان کے خلاف ضروری ہے، دوہرے معیار کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں: صوبائی حقوق کے مطالبات اور ان کے لیے ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھنا‘ شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنا‘ اغواء برائے تاوان‘ زبان کے نام پر فسادات وغیرہ وغیرہ۔ ایم آر ڈی کے زمانے میں ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی کہانیوں کو پیش نظر رکھ کر آج بھی جمہوریت کی سربلندی کے لیے قربانی کی داستانیں سنائی جاتی ہیں۔ آئین کی کتاب میں سب کچھ لکھا ہے، یہ چاروں صوبوں اور اٹھارہ کروڑ عوام کا متفقہ ہے۔ کیا لکھنے سے لوگوں کے مسئلے حل ہو جاتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو آئین پاس ہونے کے چند ماہ بعد بلوچستان میں صوبائی حقوق کی مسلح جدوجہد نہ شروع ہوتی۔ آئین میں تو انسانی حقوق کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ پھر روز انسانی حقوق کی بحالی کے لیے تحریکیں کیوں چلتی ہیں۔ روز سپریم کورٹ اس آئین کو اس کی روح کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے کیوں کہتی ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اس کی اسلامی شقیں نافذ کرو تو شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ٹیلی ویژن اس مطالبے کا تمسخر اڑانے لگتے ہیں۔ یہ ہے وہ ابہام جو ہم نے ساٹھ سالوں میں اس ملک میں پیدا کیا۔ تمام مکاتبِ فکر کے جید علما پاکستان بنتے ہی بائیس نکات پر متفق ہو گئے تھے اور کہا تھا کہ ان کے مطابق شریعت نافذ کرو تو کسی شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی کو اعتراض نہ ہو گا‘ پیروکار آج سروں کی فصلیں کاٹ رہے ہیں۔ روز قرآن اور حدیث پڑھتے ہیں کہ کلمہ گو مسلمان کا خون حرام ہے‘ لیکن قاتل ان کی مسجدوں اور امام بارگاہوں میں دندناتے پھرتے ہیں، اپنے مقتول کو شہید اور دوسرے کے مقتول کو جہنمی کہتے ہیں۔ جس دین میں گروہ بندی، فرقہ پرستی اللہ کی صریح نافرمانی ہو، اس کے ماننے والے روز نفرت کے بیج بھی بوئیں اور قرآن کی یہ آیت بھی تلاوت کریں ''اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو‘‘ ایسے میں اس قوم کو ایک نقطے پر یہ علماء جمع کریں گے‘ جنہوں نے ساٹھ سال میں بڑی محنت سے اسے تقسیم کیا ہے؟ 
ہمارا مسئلہ بھوک ہے نہ افلاس و بیماری، ہمارا مسئلہ نہ دہشت گردی ہے اور نہ قتل و غارت۔ ہمارا مسئلہ منافقت ہے۔ منافق وہ ہوتا ہے جو زندگی کے معاملات میں عدل سے کام نہیں لیتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور امانت میں خیانت کرے ( صحیح بخاری)، یہ ملک ایک امانت تھی اس مالکِ کائنات کی، ہم سب نے مل کر اس کے ساتھ خیانت کی، ہم نے وعدے کیے اپنے رب سے بھی اور قوم سے بھی کہ ہم اس ملک کو اللہ کے لیے بنا رہے ہیں، ہزاروں جلسوں اور درجنوں لیڈروں کی تقریریں گواہ ہیں، ہم نے قدم قدم پر جھوٹ بولے۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قوم ایک نقطے پر متحد ہو جائے گی۔ جس قوم پر اللہ کا غضب زمین و آسمان کی وسعتوں سے نظر آ رہا ہو، وہاں اب تک جو بویا گیا ہے‘ اس کے کاٹنے کے دن آ گئے ہیں۔ یہ دن ہر اس قوم پر ضرور آیا جس کی حالت ہماری طرح تھی اور تاریخ اس پر شاہد ہے۔ وہ جنہیں اللہ نے چشمِ بینا دی ہے‘ دیکھ رہے ہیں۔ مغرور سروں کی فصل پک چکی اور کٹنے کو تیار ہے۔ اس کے بعد موسمِ بہار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں