یہ پچاس ہزارافرادکسی سول سروسزاکیڈمی کے تربیت یافتہ نہیں تھے‘ انہوں نے کوئی ملٹری اکیڈمی یا پولیس سروس کے ٹریننگ سکول بھی نہیں دیکھے تھے۔ انہوں نے قانون کی کتابوں میں موجود لاکھوں باریک نکتوں کا بھی مطالعہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے دہشت گردی سے نمٹنے یا سول وار سے نبرد آزما ہونے کے لیے اعلیٰ اداروں کے کورس بھی نہیں کیے تھے۔ بیورو کریسی کی بھول بھلیوں سے بھی نا آشنا تھے۔ نہ فائل کا حسن جانتے تھے اور نہ اسے سرخ فیتے کا شکارکرنا‘ لیکن ان پچاس ہزارافراد نے افغانستان میں اس لیے امن و امان قائم کرلیا کہ انہیں ریاست کی دو اہم ذمہ داریوں کا مکمل طور پر ادراک تھا۔۔۔۔۔ ایک انصاف اور دوسری امن عامہ کا قیام۔ افغانستان میں گزشتہ سو سال سے انصاف نام کی چڑیا کو بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ ایک دفعہ حاکم ناراض ہوکرکسی کو جیل میں ڈال دیتا تو پھر بھول جاتا۔گزشتہ پندرہ سال تو ایسے گزرے تھے کہ جس کے پاس چند اسلحہ بردار ہوتے‘ وہی علاقے میں اپنی مرضی سے جو چاہتا کرتا۔ ہرکسی نے اپنے مخالفین کو بند کرنے کے لیے کنٹینرز رکھے ہوئے تھے ، اسی میں مخالف بھی بند ہوتے اور مغوی بھی۔ اردگرد کے ملکوں سے جرائم پیشہ لوگ وہاں پناہ لیتے تھے۔ آخری سات سال تو ایسے تھے کہ پورا ملک وار لارڈزکی چراگاہ بنا ہوا تھا۔ یہ پچاس ہزار لوگ جنہیں جاہل‘ گنوار‘ اجڈ اور تہذیب سے عاری کہا جاتا ہے‘ انہیں اتنا علم ضرور تھا کہ حکومت کی رٹ اور بالادستی عدل سے قائم ہوتی ہے۔ فوری انصاف اور عدل تھا جس نے ان کا احترام پیدا کیا اور جب انہوں نے اسلحہ واپس مانگا تو کسی نے انکار نہ کیا۔
پولیٹیکل سائنس کے اصولوں کے مطابق کامیاب ریاست وہ ہوتی ہے جو نظر نہ آئے یعنیInvisible ہو۔ایک شہر میں دس یا پندرہ سپاہی امن قائم کرتے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پاکستان نے ڈیورنڈ لائن پر پہلی دفعہ برجیاں لگائیں ، یہاں سے کوئی چور ڈاکو وہاں پناہ نہیں لے سکتا تھا۔ جب کسی کار چور نے پرانا افغانستان سمجھتے ہوئے گاڑی چوری کر کے وہاں لے جانے کی کوشش کی تو گرفتار ہوا اور گاڑی لوٹا دی گئی۔ پوست کی کاشت جس پربہت سے لوگوں کی معیشت چلتی تھی‘ ایک حکم نامے سے ختم کردی گئی۔ ان کے خلاف لکھنے والے ان کی اس کارکردگی میں نقص نہیں پاتے تو کبھی داڑھی کی بات کرتے ہیں یا عورتوں کو برقعہ پہنانے کی ، عورتوں کے سکول بند کرنے کی یا بدھا کے مجسمے گرانے کی اور پھر شور مچتا ہے کہ وہ زبردستی شریعت نافذ کر رہے تھے۔ دنیا کے ہر ملک میں زبردستی بہت سے قانون نافذکیے جاتے ہیں۔ فرانس میں زبردستی حجاب نہ پہننے کی پابندی ہے‘ عورتیں گرفتار ہوتی ہیں لیکن ریاست کامیاب ہے۔ ایران مہذب ملک ہے لیکن وہاں عیسائی‘ یہودی اور بہائی عورت بھی حجاب کے ساتھ بازارمیں آ سکتی ہے۔ کسی کو اقلیت کے حقوق یاد نہیں آتے لیکن ریاست کامیاب ہے۔ مائوزے تنگ نے ثقافتی انقلاب کے دوران کئی سال تعلیمی ادارے بند رکھے کہ قوم کو ایک نئے ڈھب پر تیار کرنا ہے‘ لیکن چین کی ریاست دونوں ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی وجہ سے کامیاب ہے۔ بھارت میں بابری مسجد گرائی جاتی ہے لیکن کوئی نہیںکہتاکہ ریاست ناکام ہے۔ مجھے یہ سب اس لیے لکھنا پڑا کہ تعصب کے پراپیگنڈے کی اس قدر بہتات ہے کہ سچ کو ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔آج میڈیا کے دور میں سچ بولنا اور لکھنا بدترین آمریتوں اور ظالم بادشاہتوں سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ یہاں جھوٹ کو اس قدر خوبصورتی سے سچ بنایا جاتا ہے کہ سچ بولنے والے پر ہرکوئی برس پڑتا ہے‘ اس پر آستین چڑھا لیتا ہے۔
پاکستان میں کسی بھی گروہ کی شدت پسندی یا دہشت گردی کو دیکھ لیں،آپ کو اس کی وجہ ریاست کی انصاف کی فراہمی میں ناکامی نظر آئے گی۔ یوں تو بلوچستان کی تحریک کا پودا ایک خاص مقصد کے تحت 1948ء میں لگایا گیا اور اسے آزاد بلوچ ریاست کو جبری پاکستان میں شامل کرنے کے جھوٹے پراپیگنڈے سے ہوا دی گئی لیکن اس پراپیگنڈے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہمارے گزشتہ ساٹھ سال کافی تھے۔ بلوچ زندگی کے ہر شعبے میں اجتماعی انصاف اور عدل سے محروم رہا اور پھر اس نفرت کے پودے کو مسلسل پانی ملتا رہا۔ ہم اس کا حل ریاستی طاقت سے نکال کر رٹ اور بالادستی قائم کرنے کے فارمولے پر عمل کرتے رہے۔ یہ فارمولا وہ زہر قاتل ہوتا ہے جو وقتی طور پر مخالفین کی قبریں تو بنا دیتا ہے لیکن ان سے مسلسل نفرت کی آگ سلگتی رہتی ہے۔ ہم وہاں لوگوں کو انصاف مہیا کر کے مطمئن نہیں کرتے بلکہ اس کو طلب کرنے والے ہر شخص کو خاموش کردیتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بہت تلخ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں سب سے پُرامن دور ایک آمر ضیاء الحق کے گورنر رحیم الدین کا تھا۔ اس نے اپنی سیاسی کابینہ بھی نہیں بنائی تھی لیکن تمام بے انصافیوں کے ازالے کے لیے اس نے اقدام شروع کیے۔ پچاس سال بعد وہاں گیس آئی جہاں سے نکل کر پورے ملک کو ملتی تھی، بجلی اس کے طول و عرض میں پہنچنے لگی۔ سڑکیں‘ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں‘ سب کا آغاز اسی دور میں ہوا۔ کوئٹہ
سے کراچی تک راستہ اسی دور میں کھلا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ثمرات سے بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی فائدہ اٹھایا اور پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے تک اس علاقے میں ڈکیتی نہ ہونے کے برابرتھی ‘ صوبائی تعصب کی جڑ اکھڑ چکی تھی‘ چھبیس اضلاع میں سے بیس کے ڈپٹی کمشنر دوسرے صوبوں میں سے تھے اور لوگ ان کو اس لیے پسند کرتے تھے کہ ان میں علاقائی اور قبائلی تعصب نہیں ہوتا تھا اور وہ سب سے انصاف کرتے تھے ‘ لیکن جیسے ہی ہم نے حکومتی رٹ کو طاقت سے نافذ کرنے کی کوشش کی اور انصاف کو بالائے طاق رکھ دیا توایسی نفرت نے جنم لیا جوگرم ہواکی صورت ہوتی ہے، اسے جو بھی غبارہ ملتا ہے اس میں بھرتی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح شدت پسند گروہ تخلیق ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے غم و غصہ اور نفرت کے اظہار کے لیے کوئی اخلاقی ضابطہ نہیں چاہیے ہوتا ، وہ تو ریاست کی دیوار کے ساتھ سر ٹکرانا شروع کردیتے ہیں۔ ایک اندھی نفرت جس کو عوامی نفرت کی بھی خاموش تائید مل جاتی ہے۔ اس نفرت کو وسائل چاہیے ہوتے ہیں جو بھی انہیں مہیا کردے۔ جب وسائل مہیا ہو جاتے ہیں تو پھر یہ گروہ اپنے زیر اثر چھوٹے چھوٹے علاقے بنا لیتے ہیں۔ انگریزی میں انہیں Fiefdams کہتے ہیں۔ وہ ان علاقوں میں اپنے ٹیکس لگاتے ہیں‘ بھتہ وصول کرتے ہیں‘ اغواء برا ئے تاوان سے رقم حاصل کرتے ہیں‘ سمگلروں اور منشیات فروشوں کو راستہ دے کر دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اصل مقصد کیا ہوتا ہے؟ ریاست سے لڑنا۔ ادھر ریاست بھی وہی راستہ اختیار کرتی ہے۔۔۔ طاقت کا۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جنگ جاری رہتی ہے۔کچھ عرصہ خاموشی سے گزرتا ہے توہم سمجھنے لگتے ہیں کہ ریاست نے قابو پالیا ہے، لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ آتش فشاں پھر پھٹ پڑتا ہے۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے فوجی آپریشن کے بعد ریاست کی رٹ اور بالادستی قائم ہو گئی تھی۔ پھر ضیاء الحق کے دور میں کسی طور ان مسائل پر پیش رفت ہوئی مگر ریاستی طاقت کے استعمال کے زخم اتنے گہرے تھے کہ ان قبروں سے مسلسل دھواں اٹھتا رہا اور آج یہ ایک آتش فشاں کے لاوے کی طرح ہے۔ جتنے لوگ وہاں سرگرم عمل ہیں ان کو سب جانتے ہیں‘ سب ان کے قبیلے کے لوگ ہیں‘ لیکن پھر بھی ان کے خلاف لوگ ریاست کی مدد کیوں نہیں کرتے اس لیے کہ عوام کے نزدیک شدت پسند اور ریاست دونوں ہی ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ ریاست بھی خونخوار ہے اور شدت پسند بھی خونخوار۔ وہ ان دونوں کی لڑائی کا تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔
کراچی میں شدت پسندی کا تصور تک نہ تھا۔ یہ شہر ہر آباد ہونے والے کے لیے امن‘ رزق اور خوشحالی کے دروازے کھولے ہوئے تھا‘ پورے ملک سے سندھی‘ پنجابی‘ پٹھان اور بلوچ یہاں آباد ہوئے تو اس شہر کی زبان اور ثقافت میں ایسے گم ہو جاتے کہ اپنے گھر کا رستہ بھول جاتے‘ پھر ایسا کیوں ہوگیا کہ شہرکا شہر مقتل بن گیا۔(جاری)