یہ وہی سرزمین ہے جہاں روس کے کمیونسٹ انقلابیوں نے 1920ء میں پچاس ہزار جنگی قیدیوں اور عام شہریوںکو لائنوں میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ ریڈ آرمی روس میں کمیونسٹ انقلاب لانے کے لیے منظم کی گئی تھی اور اس کے مسلح دستوں نے طاقت کے بل بوتے پر پورے روس پر اپنا نظام نافذکیا تھا۔ یہ وہی نظام اور طریقِ انقلاب ہے جس کی مدح سرائی میرے ملک کے دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کا بہت بڑا طبقہ مدتوں کرتا رہا، انہیں آج آزادی اور حرّیت کے علمبردار کہا جاتا ہے، ان کی شاعری کو انسانی حقوق کی علامت جانا جاتا ہے اور انہیں یوں پیش کیا جاتا ہے کہ وہ جمہوری جدوجہد کے پرچم بردار تھے۔ انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے سجاد ظہیر، اخترالایمان اور فیض احمد فیض اسی طرح کی طاقت کے بل بوتے پر کمیونسٹ شریعت کے نفاذ کے قائل تھے۔
پچاس ہزار لوگوں کے قتلِ عام کی گواہ یہ سرزمین ''کریمیا‘‘ آج ریفرنڈم سے اپنی خود مختاری کا اعلان کر چکی ہے۔ اس ریفرنڈم کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ تصور کرتا ہے کہ مغرب یا عالمی برادری میں انصاف نام کی کوئی چیز ہے تو اسے احمقوں کی جنت میں رہنے والا ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ریفرنڈم یا حقِ خود ارادیت گزشتہ سو سال سے ہر اُس بستی، علاقے یا آبادی پر حرام ہے جو مسلمانوں کی ہے اور غیر مسلم قومی ریاستوں کے تسلط میں ہے؛ جہاں روز لاشیں گرتی ہیں، بچے ذبح ہوتے ہیں، عصمتیں تار تار ہوتی ہیں لیکن کسی عالمی طاقت کو شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔ گزشتہ چند برسوں میں جب کبھی کسی غیر مسلم آبادی نے اپنی علیحدگی، خودمختاری یا آزادی کے لیے ذرا سی بھی آواز اٹھائی، عالمی ضمیر فوراً جاگ اٹھا‘ خواہ وہ جنوبی سوڈان تھا یا مشرقی تیمور، فوجیں اتاری گئیں یا عالمی دبائو سے مجبور کیا گیا تو یہ دونوں علاقے مسلمان اکثریت سے علیحدہ کر دیے گئے۔ یہ صرف ان خطوں کے ساتھ نہیں ہوا جو مسلمانوں کے زیر تسلط تھے بلکہ جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی پامالی، ظلم و بربریت کی اطلاع موصول ہوئی عالمی برادری ایک دم وہاں کود پڑی۔ شرط صرف یہ تھی کہ اس بستی میں مظلوم مسلمان نہ بستے ہوں۔
جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت سے پوری دنیا نے بائیکاٹ کیے رکھا یہاں تک کہ ان کی کرکٹ ٹیم کو دنیا کے کسی بھی ملک میں کھیلنے کی اجازت نہ تھی۔ وہاں کالے اور گورے کے درمیان تفریق تھی‘ مذہب ایک تھا۔ لیکن پورے افریقہ میں کتنے ہی ایسے ممالک ہیں جہاں مسلمان اقلیت روز قتل ہوتی ہے مگر اس ظلم کے بارے عالمی میڈیا میں کوئی آوازگونجتی ہے‘ نہ عالمی ضمیرکو ہی اس کا احساس ہوتا ہے۔ کریمیا کے درودیوار رقص کناں تھے، آتش بازی اور خوشی کے ہنگامے لیکن ایسے میں مجھے نہ جانے کیوں لبنان میں صابرہ اور شطیلہ میں پڑے فلسطینی یاد آ گئے ۔۔۔۔۔ بے یارومددگار ، ایسے افسردہ جس کا بیان ممکن نہیں، ستر سال کے بوڑھے فلسطینی کو اپنی عمر کے اگلے پچاس سال تک بھی وطن واپس لوٹنے کی امید نہ تھی، لیکن اس کی زندگی پچاس سال کہاں بچی تھی۔ یہ امید تو وہاں کھیلتے بچوں کی آنکھوں میں بھی نہ تھی جن کے نزدیک زندگی بس یہی مہاجر کیمپ تھے جس میں کسی قسم کی شہری سہولت میسر نہ تھی۔ آج بھی ان کے گھروں میں کسی نہ کسی بچھڑنے والے کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں، کہیں قید میں کئی سال گزارنے والوں کا قصہ ہے تو کہیں اسرائیل کی شدید بمباری سے سارے کیمپ کی سڑکوں پر بکھری بچوں کی لاشوں کے قصے۔۔۔ وہ بچے جو چند منٹ پہلے تک گلی میں ہنستے کھیلتے تھے‘ اچانک فضا سے آنے والی گولیوں اور بموں کا شکار ہو گئے۔
فلسطین کا ذکر تو دنیا میں کہیں نہ کہیں مل ہی جاتا ہے۔ فلسطینی مہاجرین کی بڑی تعداد دنیا بھر کے ممالک میں پھیلی ہوئی ہے جو کسی نہ کسی طور اس مسئلے کو زندہ رکھتی ہے۔ جہاں کہیں صہیونیت اور یہودی بالادستی کا تذکرہ چل نکلتا ہے تو لوگ فلسطین کو یاد کرتے ہیں، لیکن شاید عالمی ضمیر اور عالمی اخلاقیات کے دائرے میں نہ کشمیر آتا ہے اور نہ ہی اس کے مظلوم مسلمان۔ جس خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس مملکت خداداد پاکستان نے اپنے سروں پر بٹھایا، وزیر بلکہ وزیر اعظم تک بنایا‘ انہیں بھی شاید تجارت اور باہمی محبت میں وہ ایک لاکھ قبریں یاد نہیں آتیں جو صرف تین دہائیوں میں کشمیری شہیدوںکی میتوں سے آباد ہوئیں۔
گزشتہ دنوں کلدیپ نائر لاہور آئے تو ایک تقریب میں ان کے ہمراہ مجھے بھی کچھ کہنے کا موقع ملا۔ میری صرف ایک ہی عرضداشت تھی کہ وہ لوگ جو آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر ابھی تک پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے اور یہ تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے جسے مکمل ہونا چاہیے تو ایسے لوگ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا مسلمانوں کو نسل، رنگ اور زبان کی بنیاد پر پہچانتی تھی۔ کوئی انہیں عرب کہتا اور کوئی بربر نسل سے۔ عربوں میں مراکشی مسلمانوں کو ایک علیحدہ حیثیت سے جانا جاتا
اور ان پر تحقیق کی جاتی۔ مشرقِ بعید میں ملائیشیا، ا نڈونیشیا اور دیگر مسلمانوں کو بھی ایک علیحدہ نسلی شناخت کے حوالے سے پہچانا جاتا۔ سرد جنگ کے زمانے کے اخبارات، رسالے، تحقیقی مقالے اٹھا لیں،آپ کو ایسے ہی نظر آئے گا‘ لیکن گیارہ ستمبرکے بعد تو دنیا ہی بدل گئی ہے۔ وہ لوگ جو ایک امتِ مسلّمہ اور ایک جسد واحد کی حیثیت سے مسلمانوں کو نہیں مانتے تھے، جن کے نزدیک یہ مختلف نسلوں اور زبانیں بولنے والے افراد کا ایک مجموعہ تھے اور جنہیں مذہب کی بنیاد پر ایک قوم تصور کرنا غلط تھا، وہی لوگ گیارہ ستمبر کے بعد پوری مسلم امہ کو دہشت گردی کے حوالے سے ایک امت اور ایک جسد واحد پکارنے لگے۔ ان کے نزدیک مسلمان یمن میں ہو یا چیچنیا میں، پاکستان میں ہو یا ازبکستان میں، انڈونیشیا میں ہو یا شام میں، سب کے سب خونخوار ہیں، سب کے سب دہشت گرد ہیں اور سب کے سب دنیا سے وہ طرزِ زندگی یا لائف سٹائل چھیننا چاہتے ہیں جو انہوں نے دو سو سال کی محنت سے کارپوریٹ سرمائے کے بل بوتے پر تعمیر کیا ہے۔ لیکن وہ سب جو پکارتے پھرتے ہیں کہ مسلمان خونخواری اور دہشت گردی کے حوالے سے ایک ہیں، انہیں اس بات کا اندازہ تک نہیں کہ اس امت کو ایک کرنے میں پورے مغرب نے دو سو سال کتنی محنت کی ہے۔ کیسا دوغلا پن ہے جس نے اس امت کے دلوں میں نفرت کی آگ بھڑکائی۔ علاقے اور ملک اگر نسل اور رنگ کی بنیاد پر تقسیم ہوں گے تو خلافت عثمانیہ کے ہوں گے، لیکن اگر جنگ عظیم دوم کے بعد عظیم جرمنی تقسیم بھی ہوا تو سب نے مل کر دیوارِ برلن گرا دی، ویت نام دو حصوں میں بانٹا گیا لیکن وہ ایک ہو گیا۔ اگر دنیا کے کسی کونے، گوشے یا حصے میں کسی شخص نے ایک مسلم امہ اور ایک مرکزی خلافت کی بات کی تو اسے دہشت گرد کہا گیا۔ حیران کن خوف کا عالم یہ ہے کہ ایک ایسی تنظیم‘ جو ریاست کے قیام سے پہلے ہتھیار اٹھانے کو حرام تصور کرتی ہے اور صرف اپنے لٹریچر سے مسلمانوںکو ایک امت اور ایک خلافت پر جمع ہونے کا درس دیتی ہے، اس پر ہر مسلم ملک میں پابندی ہے، ہر جگہ ان کے ساتھیوں کے لیے تشدد اور قید ہے۔ جو لوگ لٹریچر میں بھی ایک مسلم امت کا نام سننا پسند نہیں کرتے‘ وہ جب دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو اسے ایک ملت کہنے لگتے ہیں۔ یہ ہے وہ رویہ، یہ ہے مسلمانوں کے ساتھ سلوک، یہ ہے وہ عالمی دوغلا پن جس نے کشمیر سے فلسطین اور چیچنیا سے افغانستان تک کسی مسئلے کو علاقائی رہنے ہی نہیں دیا۔کوئی ان مسائل کو اب میز پر بیٹھ کر مفادات کی تلوار سے ذبح نہیںکر سکتا۔ کوئی امن کی آشا کے گیت نہیں گا سکتا۔۔۔۔۔اس وقت تک جب تک عالمی ضمیر مسلمان خطوں میں اس صبح کے طلوع کی ضمانت نہیں بنتا جیسی صبح مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور کریمیا میں طلوع ہوئی۔