بچوں کی نفسیات اور نشوونما کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کے ذہن کی دیواریں ایک خالی کینوس کی طرح ہوتی ہیں جس پر قصوں‘ کہانیوں‘ دیومالائوں‘ عظیم انسانوں کے کرداروں اور اخلاقیات سے مزیّن سچی نصیحت آمیز داستانوں کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے‘ ایک ماحول کا فسوں طاری ہوتا ہے‘ ایک خوابوں کی دنیا وجود رکھتی ہے۔خوابوں کی اس دنیا میں اچھے اور اعلیٰ کرداروں والے ہیرو ہوتے ہیں اور برے کرداروں والے ولن بھی ۔ ایک سرزمین ہوتی ہے جس پر پھول کھلتے ہیں‘ موسم بدلتے ہیں‘ فصلیں اپنی بہار دکھاتی ہیں اورگویا اس میں جیتے جاگتے انسان بستے ہیں ۔ بچپن میں جیسا ماحول اور جیسی خوابوں کی دنیا بچے کے ذہن کے کینوس پر منقش کردی جاتی ہے وہی دنیا پوری زندگی کے لیے اس کے لیے ایک حوالہ بن جاتی ہے۔ جس طرح کے ہیرو اس کے ذہن کے پردے پر نقش ہوتے ہیں‘ وہ ساری زندگی ان کے سحر سے باہر نہیں نکل پاتا۔ جس طرح کی اخلاقیات وہ سیکھتا ہے‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ خود کسی بھی طرح کے کردار میں ڈھل جائے‘ اس کی اخلاقیات کا معیار وہی رہتا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہوتا ہے جب بچہ اپنے وطن‘ اپنے علاقے اور اپنے موسموں سے محبت سیکھتا ہے۔ اسے آخری عمر میں بھی اسی ماحول کی ہوائوں کی سرسراہٹ اور مٹی کی خوشبو یاد آتی ہے۔ اس خوابوں کی دنیا اور ذہن کی سکرین پر بننے والی متحرک فلم کی ایک زبان بھی ہوتی ہے ، یہ وہی زبان ہوتی ہے جسے وہ عام دنیا میں بازار جاتے‘ گھر میں رہتے‘ محبت‘ سیاست یا جنگ پر گفتگو کرتے ہوئے استعمال کرتا ہے۔ متحرک تصویریں اگر ایک علاقے کی ہوں اور زبان وہ دوسرے خطے کی بولیں تو ایک ایسی بے ربط سی دنیا وہاں آباد ہو جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اگر زبان‘ ماحول‘ کردار اور اخلاقیات سب کی سب ایک ہوں اور وہ اس بچے کے اپنے اردگرد کے ماحول سے اجنبی ہوں تو اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کی اپنے ماحول اور لوگوں سے بیگانگی پیدا ہوجاتی ہے اور خوابوں کی دنیا کے ماحول سے محبت اور چاہت۔ یہ ایسا خطرناک زہر ہے جو گزشتہ تیس سال سے میری قوم کے بچوں کو آہستہ آہستہ پلایا جا رہا ہے۔ انہیں O لیول اور A لیول میں ایسی کہانیاں‘ قصے اور داستانیں ایسی زبان میں پڑھائی جا رہی ہیں جو ان کے اردگرد کی زبان ہے‘ نہ میڈیا کی اور نہ ہی کسی شعبۂ زندگی کی۔
یہ سب اس لیے یاد آ رہا ہے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی سعودی امداد پر ماتم کرنے والے‘ گورڈن برائون کی ایک ارب ڈالر کی تعلیمی امداد پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ یہ امداد کیوں دی جا رہی ہے؟ ایسی کیا خیر خواہی ہے کہ دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک پاکستان کو تعلیمی شعبے میں مدد دینے کے لیے تیار ہے؟ یو ایس ایڈ (US-AID)سے لے کر ڈی ایف آئی ڈی (DFID)تک سب اداروں کے ماہرین ہمیں علم سکھانے آ رہے ہیں۔ ان کے تعلیمی ماہرین ہمارے نصاب کی نوک پلک سنوار رہے ہیں اور Oاور A لیول کے امتحانات کو منعقد کروا کے ایک راستہ کھول چکے ہیں کہ ان امتحانات کے بعد آئندہ تعلیم کے لیے جب کوئی ان کی امداد یا اپنی دولت سے آکسفورڈ‘ کیمبرج یا ہارورڈ جائے تو اس کے دماغ کی دیواروں پر وہی ماحول ایک متحرک فلم کی طرح چل رہا ہو اور وہ جیسے ہی لندن‘ بوسٹن‘ ہائیڈل برگ یا برکلے پہنچے تو اسے یوں لگے جیسے وہ ان خوابوں کی سرزمین پر آ گیا ہے جو اس نے بچپن میں دیکھے تھے۔ یہاں میں صرف O لیول اور A لیول کے کورس کی چند کتابوں کا ذکرکروںگا،ان کتابوںکا نہیں جوان سکولوں اورکالجوں کی لائبریریوں میں ہزاروں کی تعداد میں پہنچا دی گئی ہیں اور جن میں تحریر قصے‘ کہانیاں‘ کردار یا اخلاقیات کا ہماری سرزمین یا علاقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نصاب کی چند کتابیں اور ان کی جزئیات دیکھیں اور حیرت میں گم ہو جائیں کہ آپ کون سا زہر اپنی اولاد کی رگوں میں اتار رہے ہیں۔
A Christmas Carol: پوری کتاب کرسمس کے تہوار اور عقائد کے گردگھومتی ہے۔ وہی ماحول اور ویسی ہی رنگا رنگی دکھائی گئی ہے جیسی مغرب میں ہوتی ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ بچے اپنے آپ کو اس مذہب اور تہذیب سے علیحدہ محسوس نہ کریں بلکہ اسے خواب کی صورت اپنے ذہن پر نقش کر لیں۔
The Golden Touch: یہ لیول II میں پڑھائی جانے والی یونانی دیومالائوں کے خدائوں کی داستانیں ہیں۔ جس بچے کو اللہ کی وحدانیت اور رسولﷺ کی سیرت پڑھنی چاہیے‘ اسے وینس اور کیوپڈ کے معاشقے پڑھائے جاتے ہیں۔
King Soleman's Mines: یہ کہانی جنسی تعلقات اور جنسی ناہمواری کے انیسویں صدی کے تصورات پر لکھی گئی ہے۔ یہ مرد اور عورت کے چھپے ہوئے جسمانی خزانوں کی تلاش کی کہانی ہے۔ اس میں مرد اور عورت کی جسمانی ہیئت کو انتہائی بے ہودہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب لیول IV میں پڑھائی جاتی ہے۔
The Emperor's New Clothes and other Stories : اس کتاب میں موجودہ کہانی "The Kiss" اگر والدین پڑھ لیں تو حیرت اور شرم سے پانی پانی ہو جائیں۔
Treasure Island: یہ لیول I میں پڑھائی جانے والی کتاب ہے۔ بحری قزاقوں کا ماحول دکھایا گیا ہے جس میں قزاق اپنے قانون رکھتے ہیں اور شراب کے نشے میں دھت رہتے ہیں۔
The Adventures of Sherlock Holmes: عشق و محبت اور رسیلے جنسی جذبات سے نچڑی جاسوسی کہانیاں۔ جو لوگ نسیم حجازی کے ناولوں میں محبت پر اعتراض کرتے ہیں اس جاسوس کی جنسی زندگی کس مزے سے پڑھا رہے ہوتے ہیں۔
Around the world in eighty days: یہ لیول III کی کتاب ہے۔ اس کا ہیرو ایک شرط لگا کر دنیا کی سیر کو نکلتا ہے، جگہ جگہ شراب کے نشے میں دھت رہتا ہے اور ہر جگہ نئی محبت میںگرفتار۔
Just 50 stones : لیول I میں پڑھائی جانے والی گوری نسل کے تعصب کے لیے یہ مشہور مصنف رڈیارکپلنگ کی تحریر ہے۔کتاب میں خدا کو ایک عظیم جادوگر دکھایا گیا ہے جس نے پہلے زمین بنائی پھر سمندر۔
Tales of King Arther: یہ بادشاہ کی ملکہ Guinevere کی ایک اجنبی سے خفیہ عشق کی داستان ہے۔
یہ چند کتابیں تھیں جو ہمارے انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ ان کی طویل فہرست میں سے چند اور یہ ہیں۔
The brave little Tailor, The canterville ghost, Heroes and heroines, The golden ghost and stories, The gift and other stories, A mid summer night's dream, Great expectations.
ان تمام کہانیوں میں جو ماحول‘ کردار‘ اخلاقیات اور طرزِ زندگی ہے‘ وہ سب کا سب مغرب کا ہے‘ جو ان بچوں کے ذہنوں پر متحرک فلم کی طرح نقش کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو انہیں نہ سرسوں کے کھیت اچھے لگتے ہیں اور نہ ہی اوپلوں والی دیواریں‘ انہیں دھوتی کرتا پہننے والا شخص جاہل نظر آتا ہے اور داڑھی والا شخص دہشت گرد۔ انہیں اپنے ملک کے گلی محلوں سے بو آتی ہے۔ انہیں یہاں کا ہر شخص بددیانت‘ چور‘ بداخلاق‘ بیہودہ اور تہذیب سے عاری لگتا ہے۔ ان کی اخلاقیات میں کوئی شیخ عبدالقادر جیلانیؒ شامل نہیں جو ڈاکوئوں کے خوف میں بھی سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا بلکہ وہ تو سنڈریلا پڑھتے ہیں جو ماں سے جھوٹ بول کرگھر سے نکلتی ہے۔ یہ ہے اس ایک ارب ڈالرکی کہانی جو مغرب سے ہمیں امداد کی صورت مل رہا ہے۔ یہ ہے اس ملک پر مغرب کی مہربانیوں کی داستان ، یہ ہے اس زہرکا قصہ جو ہماری رگوں میں اتارا جا رہا ہے۔ لیکن برا ہو ہمارے مسلکی اختلاف کا کہ ہمیں ایران اور سعودی عرب کے پیسوں اور مدد پر شور مچانا آتا ہے ، ہمارے مذہبی رہنما روز ٹیلی ویژن پر غصے سے تھوک اگل رہے ہوتے ہیں‘ لیکن انہیں اس سرمائے اور غیر ملکی امداد کے خلاف بات کرنے کی فرصت نہیں جس سے ایک ایسی قوم تیار ہو رہی ہے جسے ایک دن اذان کی آواز‘ مسجد کے مینار اور قرآن کی تلاوت بھی اجنبی لگے گی۔