"RS" (space) message & send to 7575

سیاسی اتحادوں کا انجام

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں جو سیاسی اتحاد قائم ہوئے ان میں ایک بات مشترک تھی کہ ان کی جدوجہد حکومت کے خلاف کامیاب ہوئی۔ماضی میں کئی حکومتیں سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ سے ختم ہو ئیں‘ مگر سیاسی اتحاد زیادہ عرصہ تک برقرار نہ رہ سکے۔اس طرح اتحادی جماعتوں نے عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے جو دعوے کئے تھے ان میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کا سیاسی اعتبار سے پلڑا بھاری تھا‘ مسلم لیگ کے خلاف پہلا اتحاد ڈیمو کریٹک یوتھ لیگ اور ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے1952ء میں قائم کیا‘ مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سال بعد 1953ء میں مسلم لیگ کے خلاف دوسرا سیاسی اتحاد بنا جس میں یونائیٹڈ فرنٹ‘ عوامی مسلم لیگ‘ نظامِ اسلام اور کرشک پراجا پارٹی شامل تھیں۔ یہ اتحاد بنگال کی سرزمین پر تشکیل پایا اور اس نے بنگالیوں کے حقوق کا نعرہ بلند کیا۔ بنگال میں یہ اتحاد اتنا مقبول ہوا کہ مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں یونائیٹڈ فرنٹ نے 223 نشستیں حاصل کر لیں‘اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کو صرف نو سیٹیں حاصل ہو سکیں۔ اس اتحاد کو بنگال میں خوب پذیرائی ملی اور یہی اتحاد آگے چل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا۔
1964ء میں ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد قائم ہوا‘ جس کی تفصیل میں جانے سے پہلے ایوب خان کی سیاست میں انٹری اور اقتدار تک رسائی کو اجمالی طور پر سمجھنا ضروری ہے۔قیام پاکستان کے بعد جنرل ایوب خان کی ترقی کا سفر ڈرامائی انداز میں برق رفتاری سے آگے بڑھا۔ محض ایک سال میں انہیں مشرقی پاکستان کا فوجی سربراہ تعینات کر دیا گیا‘ جبکہ 1949ء میں انہیں پاکستان کا ڈپٹی کمانڈر اِن چیف اور بعدازاں محمد علی بوگرہ کے دور میں وزیر دفاع تعینات کر دیا گیا۔ اسکندر مرزا کا مارشل لاء ایوب خان کیلئے اقتدار میں براہ راست انٹری کا باعث بنا کیونکہ اسکندر مرزا نے انہیں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا۔ ایوب خان اور اسکندر مرزا کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنبھالتے ہوئے اسکندر مرزا کو رخصت کر دیا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ عوامی حلقوں کی جانب سے ایوب خان کو خوش آمدید کہا گیا کیونکہ وہ سیاستدانوں سے بے زار ہو چکے تھے۔ ایوب خان کو اقتدار کے ابتدائی برسوں میں خوب مقبولیت حاصل ہوئی‘ انہوں نے اقتدار کو طول دینے کیلئے اپنی مرضی کی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ملک کا آئین بنوایا‘ اسے پہلا تحریری آئین بھی کہا جاتا ہے۔ اسی آئین کے تحت 1965ء میں عام انتخابات کا اعلان کیا گیا تو وقتی طور پر مارشل لاء ختم کر دیا گیا۔ ایوب خان کے مدمقابل محترمہ فاطمہ جناح تھیں‘ انتخابات میں ایوب خان کو کامیابی حاصل ہوئی مگر محترمہ فاطمہ جناح کی شکست پر سیاسی بھونچال آ گیا‘ نوابزادہ نصراللہ کی سربراہی میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے پانچ پارٹیوں کا سیاسی اتحاد قائم ہوا‘ یہ اتحاد ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے کا باعث بنا۔ اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو متبادل سیاسی قیادت کے طور پر سامنے آئے۔ لیکن بدقسمتی سے جمہوریت بحال نہ ہو سکی کیونکہ 1969ء میں نامساعد حالات کی وجہ سے جب ایوب خان نے صدارت سے استعفیٰ دیا تو یحییٰ خان کو اقتدار سونپ دیا گیا جو اُس وقت کمانڈر ان چیف کے عہدے پر فائز تھے۔ سیاسی قیادت کے ساتھ وعدہ کیا گیا کہ 1970ء میں انتخابات کروائے جائیں گے۔ انتخابات تو ہوئے مگر یہ انتخابات اس قدر متنازع تھے کہ مشرقی پاکستان جدا ہو گیا۔
1977ء کے انتخابات میں پھر سیاسی اتحاد بننا شروع ہوئے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف نو سیاسی جماعتوں نے اتحاد تشکیل دیا جس کا نام پاکستان قومی اتحاد رکھا گیا جسے نیشنل الائنس بھی کہا جاتا تھا۔ اس اتحاد میں شامل جماعتوں نے'' نظام مصطفیٰ‘‘ کا نعرہ لگایا مگر جب انتخابات میں پاکستان نیشنل الائنس کو صرف 36 نشستیں حاصل ہو سکیں۔ اتحادی جماعتوں نے انتخابات کو قبول نہ کیا اور پیپلزپارٹی کی حکومت پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا‘ اتحادی جماعتوں کی تحریک کو عوام میں مقبولیت ملی اور ملک میں سول نافرمانی شروع ہو گئی‘ یہاں تک کہ سول حکومت کو ملک کے بڑے شہروں میں مارشل لاء لگانا پڑا۔ اسے پہلا مارشل لاء بھی کہا جاتا ہے جو جمہوری حکومت کے کہنے پر لگایا گیا۔ اتحادی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ابھی مذاکرات جاری ہی تھے کہ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا‘ بھٹو حکومت ختم ہو گئی‘ یہ اتحاد بھی حکومت کو رخصت کرنے کا ذریعہ بنا مگر اتحادی جماعتوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں مارشل لاء لگاتے ہوئے ملک میں بدامنی کو جواز بنایا تھا۔ انہوں نے ابتدائی طور پر آئین کو معطل بھی نہیں کیا بلکہ مؤقف اختیار کیا کہ90 دن کے اندر انتخابات کروا دیے جائیں گے‘ مگر جو کہا گیا اس پر عمل نہ ہو سکا اور ملک پر طویل دورانیے کیلئے ایک بار پھر مارشل لاء لگا دیا گیا۔ ضیاء الحق نے چار سال تک بلا شرکت غیرے ملک پر حکومت کی‘ تاہم 1981ء میں ایم آر ڈی کے نام سے ملک کی سیاسی تاریخ کا بڑا اتحاد قائم ہوا۔ اس اتحاد کی قیادت نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کر رہی تھیں‘ اس سیاسی اتحاد کو نتائج کے اعتبار سے ملک کا طویل ترین اتحاد بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 1981ء سے لے کر 1988ء تک یہ اتحاد قائم رہا‘ لیکن اس سے پہلے 1985ء کو مارشل لاء اٹھا لیا گیا اور1985 ء میں آئین کو بحال کرتے ہوئے فوج کی زیر نگرانی ہونے والے غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں محمد خان جونیجو ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے لیکن 1988ء میں ضیا الحق نے اپنے صدراتی اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا۔ ضیا الحق کے خلاف قائم ہونے والے سیاسی اتحاد کے ابھی نتائج سامنے نہیں آئے تھے کہ اگست 1988ء میں جنرل ضیا الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا‘ اس کے ٹھیک چار ماہ بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہو گئی۔ 1988ء سے 2000ء تک قائم ہونے والے سیاسی اتحاد کو انتخابی اتحاد کہنا زیادہ مناسب ہے۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا اور نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی تو جمہوریت کی بحالی کیلئے ایک بار پھر سیاسی تحریک اور اتحاد قائم ہوئے‘ جس کی سربراہی نوابزادہ نصر اللہ کر رہے تھے۔اے آر ڈی نے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیالیکن 2003ء میں نوابزادہ کے وفات پا جانے سے یہ اتحاد دم توڑ گیا اور 2008ء کا الیکشن ہر جماعت نے اپنے اپنے ایجنڈے پر لڑا۔ یوں اس اتحاد کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔ البتہ 2006ء میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیاں چارٹر آف ڈیمو کریسی (میثاق جمہوریت) کے بعد دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دیگر کئی جماعتیں اس اتحاد میں شامل ہو گئیں۔اسی اتحاد کی بدولت سیاسی جماعتیں مشرف کو اقتدار سے رخصت کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ ستمبر 2020ء میں تحریک انصاف حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہوا‘ اسے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا نام دیا گیا جس میں تقریباً چودہ جماعتیں شامل ہیں۔ یہ اتحاد اب بھی قائم ہے‘ اس اتحاد میں کئی اتار چڑھاؤ آئے‘ پیپلزپارٹی اور اے این پی الگ ہو گئیں‘ مگر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے کی صورت اس اتحاد کو کامیابی حاصل ہو گئی۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ہر اتحاد کے بعد سیاسی جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوتی رہی مگر وہ وعدے پورے نہ ہو سکے جو اتحاد قائم کرتے ہوئے عوام سے کئے گئے تھے۔پی ڈی ایم نے بھی تحریک انصاف کی حکومت ختم کر کے بظاہر کامیابی حاصل کی ہے لیکن کیا اس اتحاد کی کامیابی کا ملک وقوم کو کوئی فائدہ ہوا ہے؟ اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کو اس بارے ضرور سوچنا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں