"RS" (space) message & send to 7575

طالبان حکومت کا ایک سال اور انجانا خوف

15اگست کو افغانستان میں طالبان حکومت کا ایک سال پورا ہو رہا ہے۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد حالات بہتر ہونے کے بجائے خطرات کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ افغان طالبان کو بیک وقت کئی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ افغان عوام کے صبر کا امتحان اور آزمائش ابھی باقی ہے۔ 15اگست 2021ء کوکابل پرطالبان کا قبضہ ہوا‘ اسی روز سابق افغان صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے۔30 اگست 2021ء کو امریکہ کے آخری فوجی نے افغانستان چھوڑ دیا جس سے انخلا کا عمل مکمل ہو گیا۔ افغانستان کے اکثریتی علاقے پر طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا مگر شمال کے علاقے پنجشیر سے طالبان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں پر احمد شاہ مسعود نے شمالی اتحاد کے نام سے طالبان کے خلاف ایک جنگی اتحاد قائم کیا تھا۔ توقع تھی کہ طالبان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا مگر طالبان کے سامنے پنجشیر کی مزاحمت ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور انہوں نے 6ستمبر 2021ء کو پنجشیر کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ کیا۔
طالبان نے عسکری محاذ پر تو کامیابی حاصل کر لی مگر اقتصادی محاذ پر انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول سے قبل ہی افغانستان کو معاشی مسائل کا سامنا رہا۔ شدید خشک سالی‘ کورونا وبا‘ لڑائی‘ طالبان کی مسلسل پیش قدمی‘ کرپشن اور دیگر عوامل کی وجہ سے اقتصادی مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ 15اگست کو کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد صورتحال مزید گمبھیر ہوگئی۔ امریکہ نے افغانستان کے تقریباً8 بلین ڈالرز منجمد کر دیے جو کہ ملک کے مجموعی جی ڈی پی کا 40 فیصد سے زائد بنتا ہے۔ اگست2021ء کے بعد افغانستان کی تباہ حال معیشت مزید20 سے 30فیصد تک سکڑ گئی۔ لاکھوں لوگ نوکریوں اور ذریعہ معاش سے محروم ہو چکے ہیں‘ لاکھوں لوگوں کو غربت اور بھوک کا سامنا ہے۔ انسانی بحران روز بروز بڑھ رہا ہے۔ عالمی بینک کے سروے کے مطابق افغانستان میں 70 فیصد تک آبادی خوراک اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق افغانستان میں اس وقت تقریباً دوکروڑ شہریوں کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جبکہ 80لاکھ سے زائد شہریوں کو خوراک کی فوری ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ شدید غذائی قلت کے شکار11لاکھ کے قریب بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔
اگرچہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہو چکی ہے تاہم داعش کی سرگرمیاں مسلسل خطرے کی گھنٹی ہیں۔26 اگست 2021ء کو انخلا کے موقع پر کابل ائیرپورٹ پر خودکش حملے میں13 امریکی فوجیوں سمیت100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی اور داعش کے حملوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ داعش نے گزشتہ ایک سال کے عرصے میں افغانستان کے طول و عرض میں اقلیتوں‘ عبادت گاہوں‘ تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ رواں سال جون میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی داعش کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا‘ تاہم افغانستان کی عبوری حکومت کا مؤقف ہے کہ داعش ان کیلئے بڑا خطرہ نہیں ہے۔22 جون کے زلزلے نے بھی مسائل سے دوچار افغان شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا۔
طالبان حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی مسلسل کوشش میں ہیں تاہم انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ طالبان بین الاقوامی سطح پر خود کو تسلیم کروانے اور عالمی اقتصادی نظام میں دوبارہ شامل ہو کر افغانستان کے بڑھتے معاشی اور انسانی بحران پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ تاہم 2اگست کو امریکی صدر نے کابل میں ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے مارے جانے کا اعلان کیا جس سے یقینا ان کی کوششوں کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ طالبان پر لڑکیوں کے سکول کھولنے سے متعلق دباؤ بھی برقرار ہے جبکہ انسانی اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی ہیں۔ اسی طرح اندرونی طور پر سابق رہنماؤں کی تنقید کا بھی سامنا ہے جبکہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی سربراہی میں قائم نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) تنظیم سے نبرد آزما ہے۔ طالبان کو افغانستان کے حالات پر قابو پانے میں مزید کتنا عرصہ لگتا ہے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے‘ البتہ یہ بات طے ہے کہ جب تک افغانستان میں مکمل امن قائم نہیں ہو جاتا ہے‘ پاکستان اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
سوات‘ ملاکنڈ اور قبائلی اضلاع میں طالبان کے دوبارہ سر اٹھانے کی اطلاعات ہیں۔ ایسی خبروں میں اول تو کُلی طور پر صداقت نہیں ہے‘ دوسرے یہ کہ سکیورٹی فورسز کے خصوصی دستوں کا بروقت حرکت میں آنا اور مقامی پختونوں کی جانب سے بھر پور ردعمل سے عسکریت پسندوں کو ایک پیغام دیا گیا ہے کہ اب شدت پسند عناصر کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی اضلاع میں قیام امن کے پیچھے طویل جد و جہد‘ افواج کی کامیاب عسکری حکمت عملی اور شہیدوں کی قربانیاں ہیں‘ ہم نے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے انتہا پسندی کی بھاری قیمت چکائی ہے‘ امن قائم ہو جانے کے بعد اسے برقرار رکھنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی مگر بوجوہ وہ اس میں کامیاب دکھائی نہیں دیتی۔ صوبائی اور وفاقی سطح پر عوامی مسائل میں عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیرستان کے لوگوں نے امن و امان اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف گزشتہ ایک ماہ سے چھ مقامات پر دھرنا دیا‘ مگر صوبائی سطح پر ان کی آواز سنی گئی اور نہ ہی وفاقی سطح پر حکومتی نمائندوں نے دھرنا شرکا سے بات کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ یہ بے حسی کی انتہا ہے کیونکہ جب آپ اپنے لوگوں کی بات سننے کیلئے ذہنی طور پر تیارنہیں ہوں گے تو ان میں احساسِ محرومی پیدا ہو گا اور احساسِ محرومی اور انتہاپسندی کا گہرا تعلق ہے۔ ایک ماہ کے دھرنے کے بعد وفاقی حکومت تک وزیرستان کے لوگوں کی بات پہنچی تو پارلیمانی کمیٹی نے دھرنا شرکا سے مذاکرات کیے اور مطالبات کے حل کی یقین دہانی کرائی گئی ہے‘ حالانکہ یہ کام پہلے بھی ہو سکتا تھا مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں پسماندہ علاقوں کے مسائل سے چشم پوشی کی روایت پائی جاتی ہے۔
دوسری طرف صوبائی حکومت کی حالت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت اپنے حلقوں کا دورہ کرنے سے گریزاں ہے۔ مراد سعید اور ملاکنڈ کے بیشتر پی ٹی آئی رہنما اپنے آبائی علاقوں سے غائب ہیں۔ وزیراعلیٰ کچھ عرصہ سے اپنے علاقے مٹہ‘ سوات نہیں گئے۔ اگلے روز ملاکنڈ میں ایک شاہراہ کی افتتاحی تقریب تھی مگر اسے بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی قیادت کسی انجانے خوف میں مبتلا ہو چکی ہے‘ اسی طرح دیگر قبائلی اضلاع کی صورتحال ہے جہاں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پچھلے دو ہفتوں میں افغانستان کی سرزمین پر تین واقعات ایسے ہوئے ہیں جن سے ہم لاعلم نہیں رہ سکتے‘ ایمن الظواہری‘ خالد خراسانی اور شیخ مُلّا رحیم اللہ حقانی کو بم دھماکے میں اڑا دیا گیا۔ رحیم اللہ حقانی وہی طالبان رہنما تھے جنہوں نے اشرف غنی کی فوج اور پولیس کے خلاف حملوں کا فتویٰ دیا تھا۔ مذکورہ تینوں افراد داعش کے سخت خلاف سمجھے جاتے تھے۔ ایسے افراد کو نشانہ بنا کر جو پیغام دیا گیا ہے اسے سمجھنا اہم ہے مگر پاکستان کی سیاسی قیادت اپنی ذمہ داری پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ تحریک انصاف نے اگر بروقت اس کا تدارک نہ کیا تو جس طرح عوامی نیشنل پارٹی کو 2013ء کی انتخابی مہم میں عسکریت پسندی کا سامنا کرنا پڑا تھا تحریک انصاف کیلئے بھی آئندہ کی انتخابی مہم ایک چیلنج بن سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں