"RS" (space) message & send to 7575

رنگ نفرت کا گھولنے والے

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو گرفتار کرنے کیلئے وزارتِ داخلہ نے وزیراعظم آفس سے تحریری اجازت طلب کر لی ہے۔ پولیس افسران اور خاتون مجسٹریٹ کو دھمکی دینے پر عمران خان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت اتوار کو اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں مقدمہ درج کیا گیا اور ان کے وارنٹ گرفتاری آئی جی اسلام آباد کو پہنچا دیے گئے۔ اس مقصد کیلئے اتوار اور پیر کی درمیانی شب بنی گالا میں عمران خان کی رہائش گاہ کی طرف جانے والے راستے پر پولیس کی غیر معمولی نقل و حرکت دکھائی دی۔ رات گئے تحریک انصاف کے کارکنان اور پولیس آمنے سامنے رہے؛ تاہم پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی تین روز کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
حقیقت یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے حکومتی اتحادمیں بھی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ کہتے ہیں کہ آصف زرداری خان صاحب کی گرفتاری کے خلاف ہیں‘ مولانا فضل الرحمن خاموش ہیں جبکہ رانا ثنا اللہ اور خواجہ سعد رفیق کی خواہش ہے کہ عمران خان کو گرفتار کر لیا جائے۔ عمران خان کو ممکنہ گرفتاری سے بچانے کیلئے بنی گالا ہاؤس کو وزیراعلیٰ پنجاب کا کیمپ آفس ڈکلیئر کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے‘مگر ا یسا کرنا تحریک انصاف کے لیے مفید نہیں ہو گا۔ عمران خان لیاقت باغ میں جلسۂ عام سے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ انہیں نااہل کر کے تحریک انصاف کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے۔ خان صاحب کو پہلے ہی خدشہ تھا کہ جلد یا بدیر انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔لیاقت باغ جلسے سے خطاب میں اُن کے لہجے سے معلوم ہوتا تھا کہ مقتدر قوتوں کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس جلسے میں جارحانہ انداز اختیار کیا تاکہ عوام ان کے حق میں کھڑے ہو جائیں۔ عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی جانی چاہیے یا نہیں‘ اس حوالے سے وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں فیصلہ متوقع ہے تاہم حکومتی اتحاد میں شامل ایک گروہ کا خیال ہے کہ کسی بڑے بحران سے بچنے کے لیے یا تو عمران خان کو گرفتار کیا جائے یا کم از کم انہیں نظر بند کر دیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ قومی راز سیاستدانوں کے سینوں میں محفوظ ہوتے ہیں‘ وزراتِ عظمیٰ کا عہدہ حد درجہ احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے مگر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مشکل پڑتے ہی خان صاحب احتیاط کا دامن چھوڑ چکے ہیں‘ ورنہ کبھی پولیس افسران اور خاتون مجسٹریٹ کو مبینہ دھمکیاں نہ دیتے۔ مذکورہ افسران ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں‘ اس لیے ان پر کی جانے والی تنقید ریاستی اداروں پر تنقید سمجھی جائے گی‘ عمران خان نے جو لب و لہجہ ان کے خلاف استعمال کیا ہے یہ انہی کا خاصا ہے کوئی دوسرا لیڈر اس طرح کے لہجے کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔ جب سرکاری افسران کی یوں تضحیک کی جائے گی تو ایسے افراد ریاست کیلئے خدمات کیسے جاری رکھ سکیں گے؟ ایسے قابل افسران کی جب سرعام تذلیل کی جائے گی تو ریاست کی بنیاد کمزور ہو گی۔ عمران خان اگر سمجھتے ہیں کہ آئی جی اسلام آباد نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ ماورائے قانون کوئی اقدام اٹھایا ہے تو آئین کے اندر اس کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا طریقہ کار موجود ہے۔ اعلیٰ عہدے کے باوجود محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے اگر اس پر تسلی نہ ہو تو اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے‘ مگر عمران خان نے قانونی راستہ اپنانے کے بجائے مزاحمتی راستہ اختیار کیا اور عوامی دباؤ ڈال کر وہ توقع کر رہے ہیں کہ جس طرح 2014ء میں دباؤ کی بنیاد پر ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا تھا اب بھی ویسے ہی ان کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔
شہباز گل کیس کے حوالے سے عمران خان نے پہلے مرحلے میں خاموشی اختیار کیے رکھی‘ جب پارٹی کارکنان کے اندر سے تنقید ہونے لگی اور ایسی خبریں گردش کرنے لگیں کہ اگر شہباز گل کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو وہ خان صاحب کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن سکتا ہے‘ اس کے بعد عمران خان حرکت میں آئے اور ایک کے بعد ایک غلطی کرتے چلے گئے۔ شہباز گل کیس کے جو شواہد سامنے آئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کمزور پوائنٹ پر کھڑی ہے یہی وجہ ہے کہ قانونی جواب دینے کے بجائے عوامی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف شہباز گل پر تشدد کی دعویدار ہے‘ مگر اس تشدد پر میڈیکل رپورٹ پیش کرنے سے پس و پیش سے کام لے رہی ہے کیونکہ وہ بخوبی جانتی ہے کہ ایسا تشدد نہیں ہوا ہے جس کی بنا پر حکومت پر ملبہ ڈالا جا سکے۔
شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا‘ اس کے بعد وہ اڈیالہ جیل گئے جو پنجاب حکومت کے ماتحت ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں جن کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ شہباز گل نے منع کیا ہے کہ میڈیکل نہ کرایا جائے‘ یعنی شہباز گل کی خواہش پر ان کا میڈیکل نہیں کرایا گیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب شہباز گل کو اسلام آباد ہائی کورٹ پیش کیا گیا تو قائم مقام چیف جسٹس نے اڈیالہ جیل میں کرائے جانے والے میڈیکل بارے استفسار کیا تو اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے عذر پیش کیا کہ وہ میڈیکل لے کر نہیں آئے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں شہباز گل کا میڈیکل کرانا اور پہلی پیشی میں اسے عدالت میں پیش کرنا تحریک انصاف کی ذمہ داری تھی مگر دانستہ طور پر اس سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک نیا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ اس بیانیے کا بنیادی مقصد تحریک انصاف کی قیادت کو ممکنہ گرفتاریوں سے بچانا ہے۔ عمران خان اداروں اور شخصیات کی بے توقیری کر کے معاملات کو جس نہج پر لے گئے ہیں وہاں سے واپسی آسان نہیں ہو گی‘ ایک بار پھر طویل جدوجہد اور کٹھن راستے تحریک انصاف کا مقدر ہوں گے۔ عمران خان کو خدشات لاحق ہیں کہ اگر انہیں دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرح انتظار کرنا پڑا تو شاید وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکیں‘ اسی لیے وہ قانونی پیچیدگیوں میں پڑنے کے بجائے مقتدرہ کو مخاطب کرتے ہیں۔ مجموعی طرزِ سیاست کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے شاید ایسے ہی مواقع کیلئے کہا گیا ہے کہ ؎
بہہ گئے نفرتوں کے دریا میں
رنگ نفرت کا گھولنے والے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں