"RS" (space) message & send to 7575

لندن کے مشاہدات اور میاں نواز شریف

رواں برس اگست میں پاکستان اور برطانوی حکام کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت ان پاکستانی باشندوں کو برطانیہ سے واپس بھیج دیا جائے گا جو برطانیہ میں رہنے کیلئے غیرقانونی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق سزا یافتہ مجرم‘ ایسے افراد جنہوں نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی تھی مگر کسی وجہ سے وہ مسترد ہو گئی یا جو غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہوئے تھے‘ ایسے افراد اب برطانیہ میں نہیں رہ سکیں گے۔ معاہدہ ہونے کے ساتھ ہی امیگریشن کے نئے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرایا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کا تعلق یک طرفہ ہے یعنی برطانوی امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں پاکستانی باشندوں کو واپس بھیج دیا جائے گا لیکن برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے والے افراد کو پاکستان کی ایما پر واپس بھیجنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے؛ البتہ مذکورہ معاہدے کے تحت ایسے مجرموں کو پاکستان واپس لایا جا سکے گا جو پاکستانی شہریت رکھتے ہوں اور انہیں برطانیہ میں کسی عدالت سے سزا ہو چکی ہو‘ لیکن صرف یہی کافی نہیں بلکہ واپسی کیلئے برطانوی حکومت کی رضا مندی بھی ضروری ہے۔
پسماندہ ممالک کے افراد سنہرے مستقبل کی خاطر ایجنٹس کو بھاری رقم دے کر زمینی راستے سے برطانیہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے کئی سکیورٹی اہلکاروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور کئی چھپ چھپا کر زندگی بسر کرتے ہیں اور جب کچھ عرصہ گزار لیتے ہیں تو امیگریشن کیلئے اپلائی کر دیتے ہیں‘ اس فارمولے کے تحت چند برس پہلے تک کئی لوگ برطانیہ کی امیگریشن حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے مگر اب ایسا ہونا عملی طور پر آسان نہیں رہا۔ جو لوگ برطانیہ جانے کیلئے غیر قانونی راستہ اختیار کریں گے انہیں پیسے کے ضیاع اور سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان‘ افغانستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ یوکرین اور چند دیگر ممالک کے افراد کو امیگریشن کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ برطانیہ میں امیگریشن پر اس قدر توجہ دی جا رہی ہے کہ برطانوی وزیراعظم لزٹرس اور ان کے مدِمقابل رشی سوناک کی اس ضمن میں الگ الگ پالیسیاں تھیں جو وہ عوام کے سامنے پیش کرکے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن کو دراصل امیگریشن کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ برطانیہ میں پناہ کے متلاشیوں کو افریقی ملک روانڈا بھیج دیا جائے گا اور جب تک ان کی درخواست منظور نہیں ہوتی ہے انہیں وہیں پر رکھا جائے گا۔ اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا تھا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے سربراہ نے روانڈا میں ملک بدری کی پالیسی کو ''تباہ کن‘‘ قرار دیا جبکہ چرچ آف انگلینڈ کی پوری قیادت نے بھی اسے غیراخلاقی اور شرمناک قرار دیا تھا۔
برطانیہ میں نومنتخب حکومت کو بیک وقت کئی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے‘ ملکہ ایلزبتھ کی وفات کے بعد بادشاہ چارلس تخت نشین ہوئے ہیں‘ نہ صرف کرنسی نوٹوں اور پاسپورٹ پر نئے بادشاہ کی تصاویر پرنٹ ہونی ہیں بلکہ کئی جگہوں پر نئے بادشاہ کے فرمان پرنٹ ہونے ہیں۔ یہاں قیام کے دوران معلوم ہوا کہ سٹریٹ کرائمز کافی حد تک بڑھ گئے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ سابق باکسر عامر خان کو بھی لوٹ لیا گیا۔ مقامی افراد کہتے ہیں کہ مہنگائی‘ بے روزگاری اور غیر قانونی طور پر آنے والے بیرونی لوگ‘ لندن میں کرائم کی شرح میں اضافے کی اہم وجوہ ہیں۔ چند برس پہلے تک امیگرنٹس کیلئے لندن میں رہائش سستی تھی مگر اب رہائش کے کرایے میں چار سے پانچ گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ جائیدادوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے‘ پاؤنڈ کی گرتی ہوئی ساکھ نے بھی مسائل میں اضافہ کیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان جیسے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک سے آنے والے افراد نے آنکھوں میں خواب سجائے ہوتے ہیں کہ برطانیہ جا کر ان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور ان کی خستہ حالی خوشحالی میں تبدیل ہو جائے گی مگر بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ سیٹ ہوتے ہوتے عمر کا ایک حصہ گزر جاتا ہے۔ ایسے افراد اپنی زندگی تو جیسے تیسے گزار لیتے ہیں؛ تاہم اکثر والدین کو اپنے بچوں کی طرف سے نافرمانی کی شکایت ہوتی ہے‘ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ برطانوی معاشرہ بچوں کو مکمل آزادی فراہم کرتا ہے‘ والدین سختی کریں تو بچے پولیس کو بلا لیتے ہیں‘ سکولوں میں بھی والدین کی اطاعت کے بجائے بچوں کے حقوق پر توجہ دی جاتی ہے جس کے باعث بچے خودسر ہو جاتے ہیں۔ والدین کو ٹین ایجرز کی طرف سے زیادہ شکایات ہوتی ہیں۔ اس نافرمانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ والدین بچوں سے لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں جبکہ کچھ والدین حالات کے ساتھ سمجھوتا کرکے ماحول کے مطابق بچوں کو آزادی دے دیتے ہیں۔ ہم نے یہاں محسوس کیا کہ والدین بچوں کو جس طرح کی تعلیم دلانا چاہیں ان کیلئے ہر طرح کے ادارے موجود ہیں‘ حتیٰ کہ معیاری مذہبی مدارس بھی موجود ہیں لیکن ان تک رسائی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ دنیاوی تعلیم کا بندوبست تو بہتر انداز میں ہو جاتا ہے مگر مذہبی تعلیم اور تربیت کے مسائل رہتے ہیں جس کے باعث بچوں کو شناخت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ مغربی معاشرے کا حصہ ہیں یا مشرقی معاشرے کا؟ نوجوانی کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کیلئے مناسب رشتے کی تلاش ایک اہم چیلنج ہے‘ کچھ لوگ جلد بازی میں محض اس بنیاد پر رشتہ کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس برطانیہ کا پاسپورٹ ہے‘ ایسے لوگوں کے پاس پیسہ تو ہوتا ہے لیکن ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے رشتے زیادہ عرصہ تک نہیں چلتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں والدین کے خلاف بغاوت کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ مذکورہ سطور لکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر آپ بھی آنکھوں میں خواب سجائے سنہرے مستقبل کیلئے بیرون ممالک جانے کی سوچ رکھتے ہیں تو جلد بازی میں قدم اٹھانے کے بجائے غور و فکر کریں تاکہ ممکنہ پریشانیوں اور مشکلات سے بچ سکیں۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے مریم نواز کے ہمراہ لندن میں اہم پریس کانفرنس کی ہے‘ انہوں نے طویل خاموشی توڑتے ہوئے وہ باتیں کہہ ڈالی ہیں جن پر وہ برسوں سے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ نواز شریف نے کہا کہ 2018ء کے الیکشن سے آؤٹ کرنے کیلئے ان کے خلاف فیصلہ سنایا گیا تاکہ وہ پاکستان نہ آئیں۔ نواز شریف نے کہا کہ مریم نواز پاکستان سے سرخرو ہو کر آئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقدمہ جھوٹا تھا‘ جب سزا جھوٹی تھی‘ مقدمہ جھوٹا تھا‘ تو پھر دو ڈھائی سو پیشیاں کیوں بھگتیں‘ پھر جیلوں میں کیوں جانا پڑا‘ پھر زندگی کے قیمتی پانچ برس کیوں ضائع کیے گئے‘ کوئی اس کا بھی تو حساب دے‘ کیا بطور پاکستانی میں یہ حق نہیں رکھتا کہ میں یہ سوال پوچھوں؟ نواز شریف نے کہا کہ مریم نواز کو اس لیے گرفتار کیا گیا تاکہ مجھے اذیت پہنچا سکیں۔ میاں نواز شریف نے مقدمات کی پیشی کے دوران بیگم کلثوم نواز کی بیماری اور طبیعت خراب ہونے پر آئی سی یو جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیشی کے بعد اڈیالہ جیل گیا تو جیل سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ لندن میں کلثوم نواز سے بات کرا دیں‘ تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کی بات نہیں کرا سکتا‘ میں نے ٹیبل پر پڑے دو موبائل اور تین لینڈ لائن فونز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک سیکنڈ میں بات کرا سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی اجازت نہیں۔ میاں نواز شریف کی تلخ نوائی سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں انہیں بلاشبہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا‘ لیکن گردشِ ایام دیکھیے کہ جنہوں نے نواز شریف کو سیاست سے آؤٹ کرنے کا منصوبہ بنایا آج وہ خود مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کل جو سوال اٹھا رہے تھے آج وہ جوابدہ ہیں۔ مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس میں بری ہو چکیں۔ کیا پریس کانفرنس میاں نواز شریف کی بریت کا اشارہ ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں