تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملہ دراصل اس تشدد پسندانہ سوچ کا تسلسل ہے جس کا نشانہ اس سے پہلے بھی اہلِ سیاست کو بنایا جاتا رہا ہے۔خوش قسمتی سے عمران خان قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے ہیں اور اب وہ رو بہ صحت ہو رہے ہیں۔ عمران خان پر فائرنگ کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس میں جو تفصیلات بتائی ہیں‘ ان کے مطابق حملہ آور ایک نہیں تھا۔ خان صاحب کے بقول ‘جب وہ کنٹینر پر تھے تو ایک دم گولیوں کا برسٹ آیا‘ ٹانگوں میں گولیاں لگنے کی وجہ سے وہ گر جاتے ہیں‘ گرنے کے بعد دوسرا برسٹ آیا‘ جو اوپر سے گزر گیا‘ گرنے کے بعد جو قاتل اوپر بیٹھا تھا اس نے سمجھا کہ کام ہو گیا ہے اور وہ چلا گیا۔ڈاکٹر فیصل سلطان نے ایکسرے اور سکیننگ کی مدد سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ خان صاحب کو چار گولیاں لگیں اور بائیں ٹانگ میں گولیوں کے کچھ ٹکڑے لگے‘ ایک گولی ہڈی تک جا پہنچی جس سے فریکچر ہوا۔ عمران خان نے مفصل گفتگو میں برملا کہا کہ تین لوگوں نے وزیرآباد میں انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ بات انہیں ''اندر‘‘ کے لوگوں نے بتائی ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ وہ ساڑھے تین سال تک حکومت میں رہے اس لئے ایجنسیوں میں ان کے تعلقات ہیں‘ جس کی بنا پر لوگ انہیں صورتحال سے آگاہ کر دیتے ہیں۔ خان صاحب نے وزیرآباد وقوعہ کے بعد تین لوگوں کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ خان صاحب پر حملے کی ہر سطح پر مذمت کی جا رہی ہے‘ کی بھی جانی چاہئے‘ ان کے سیاسی حریفوں سمیت تمام رہنماؤں نے واقعے پر اظہارِ افسوس اور خان صاحب کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کی ہے‘ مگر دوسری طرف اس اہم ترین وقوعہ کی ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونا کئی طرح کے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایف آئی آر کے اندراج میں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور عمران خان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پرویز الٰہی چاہتے ہیں کہ ایف آئی آر کے اندراج میں قانونی تقاضوں کو پورا کیا جائے جبکہ خان صاحب اپنی مرضی کی ایف آئی آر کا اندراج چاہتے ہیں کیونکہ آگے جو کیس چلے گا اس کا انحصار ایف آئی آر پر ہو گا‘ وقوعہ کے چار روز بعد بھی ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ واقعے کے بعد نوید نامی جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے خان صاحب اسے ذمہ دار نہیں سمجھتے۔خان صاحب پر حملے کے بعد چند امور کے امکان سے انکار نہیں کر سکتے۔1: ممکن ہے کہ عمران خان کو قتل کرنے یا دھمکانے کی منظم سازش ہو‘ کیونکہ خان صاحب حساس امور کو زیربحث لاتے ہیں۔2‘ ممکن ہے یہ مذہبی جنون کا معاملہ ہو جیسا کہ ملزم نے بیان دیا۔ پہلے ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ 3: ان کے مخالفین اب یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے ناکام لانگ مارچ سے جان چھڑانے کیلئے یہ کارروائی کروائی گئی ہو۔ خان نے اپنا میڈیکو لیگل نہیں کروایا اور سیدھا شوکت خانم ہسپتال پہنچے۔ ملزم پنجاب حکومت کی تحویل میں ہے‘کیوں اعلیٰ درجے کی تحقیقات کا حکم نہیں دے رہے‘یہ دیر کیوں ہے؟
عمران خان پر حملے کے بعد لانگ مارچ کو مؤخر کر دیا گیا ہے‘ خان صاحب نے صحت یابی کے بعد لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے‘ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصے کیلئے احتجاج کا سلسلہ رک جائے گا‘ ان حالات میں خان صاحب کا سامنے آ کر حالات سے آگاہ کرنا کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے تحریک انصاف کے کارکنان کو معلوم ہو گیا ہے کہ ان کے قائد کی حالت خطرے سے باہر ہے‘ اسی طرح پورے ملک میں جلاؤ گھیراؤ کا جو سلسلہ شروع ہو چکا تھا اس میں بھی کمی آئی۔ اس موقع پر اگر تاخیر کی جاتی تو پورے ملک کے حالات خراب ہونے کے خدشات موجود تھے‘ بدقسمتی کی بات ہے کہ جب خان صاحب پر حملہ ہوا تو تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے جو الاؤ کو بھڑکانے کیلئے کافی تھے۔بعض رہنماؤں نے یہاں تک کہہ دیا کہ خان صاحب پر حملے کا بدلہ لیا جائے گا۔ صوبائی وزیر خیبرپختونخوا انور زیب نے کلاشنکوف لہرا کر وفاقی وزیر داخلہ کو دھمکی دی۔ رکن اسمبلی فضل حکیم کی دھمکیوں پر مبنی ویڈیو اور سخت بیان نے بھی کارکنان کو بھڑکانے میں ہم کردار ادا کیا ہے۔انہی بیانات کا شاخسانہ ہے کہ ہنگامے پھوٹ پڑے۔ جس دن خان صاحب پر حملہ ہوا اس دن ردعمل سامنے نہیں آیا بلکہ اگلے روز احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ اہلِ سیاست سٹیج پر اظہار کیلئے جو لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں کارکنان اسے سامنے رکھ کر آگے بڑھتے ہیں‘ بدقسمتی کی بات ہے کہ اہل سیاست کارکنان کی سیاسی تربیت میں ناکام ثابت ہوئے۔ اس میں سبھی جماعتیں برابر ہیں۔ موجودہ حالات میں خان صاحب کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے‘ اس وقت آصف زرداری سامنے آئے تھے انہوں نے '' پاکستان کھپے ‘‘کا نعرہ لگا کر ملک کو بڑے نقصان سے بچا لیا تھا۔ خان صاحب نے بھی لانگ مارچ کو مؤخر کر کے ملک کو نقصان سے بچایا ہے تاہم کارکنان کو پرامن رہنے کی تلقین نہیں کی گئی ۔ کاش خان صاحب کارکنان کو کچھ عرصے کیلئے پرامن رہنے کی ہدایت جاری کرتے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے کہا تھا '' جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ حالات نے اس بات کو ثابت کیا‘ کہ وفاق اور صوبوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت 2007ء میں ہوئی‘ تب سے لے کر آج تک سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ۔ فواد چوہدری اس کے برعکس اگر کسی انتقام کی بات کر رہے ہیں تو اس کی مذمت کی جانی چاہئے۔
پاکستان تحریک انصاف ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہے جبکہ خان صاحب کو عوام میں مقبولیت حاصل ہے‘ ایسے شخص کو غیر جمہوری اقدام کے بجائے جمہوریت پر یقین رکھنا چاہئے۔ قاتلانہ حملے کے بعد ان کے رویے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خان صاحب الیکشن سے پہلے برابر سینگ اڑائے رکھیں گے۔ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے بیرونی سازش کا بیانیہ پیش کیا جسے عوام میں وقتی طور پر مقبولیت حاصل ہوئی مگر اس بیانئے سے وہ جمہوری فائدہ کشید نہ کر سکے۔اب قاتلانہ حملے پر خان صاحب نے اندرونی سازش کا بیانیہ پیش کر دیا ہے۔تحریک انصاف مقتدرہ مخالفت کا استعارہ بن چکی ہے‘ کچھ عرصہ پہلے تک خان صاحب کا مؤقف تھا کہ طاقت ور دھڑے چوروں کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں مگر اب تناؤ کا اندازہ دوطرفہ بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ وزیر آباد واقعے پر تحریک انصاف نے اداروں پر تنقید شروع کی تو ترجمان پاک فوج نے ایسے دعوؤں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بھر پور ردعمل دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بقول فوج اور اس کے افسران کو بدنام کرنے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی ایکشن کیلئے حکومت سے درخواست کی گئی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور مقتدرہ کھل کر آمنے سامنے آ گئے ہیں ‘جس پر قابو پانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہر فریق آئین میں متعین کردہ حدود میں رہ کر کام کرے۔ جمہوریت اور آئین سے متصادم جو اقدام بھی ہو گا تباہ کن ہو گا۔ خان صاحب الاؤ کو کم کر کے عوام میں مقبولیت کی معراج کو چھو سکتے ہیں۔ آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر خود کو تاریخ میں زندہ کر لیا‘ اس نازک موقع پر اگر عمران خان بھی پاکستان کے مفاد کی بات کرتے ہیں تو اس سے تاثر قائم ہو گا کہ انہوں نے اپنی جان پر ملک اور قوم کے مفاد کو ترجیح دی ۔ اگر الاؤ کو کم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی اور اسی کشمکش میں کوئی غیر جمہوری اقدام اٹھایا جاتا ہے تو اس کی ذمہ دار صرف اور صرف تحریک انصاف ہو گی۔