"RS" (space) message & send to 7575

گوادر کے ترقی مخالف

موجودہ حکومت نے سی پیک‘گوادر‘ اور ریکوڈک جیسے اہم منصوبوں کو دوبارہ شروع کیا تو پاک افغان سرحد‘ بلوچستان کی سرحدی پٹی اور گوادر میں حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ دشمن قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان ان منصوبوں کے ثمرات سے مستفید ہو۔ گزشتہ دو ماہ سے ''حق دو تحریک‘‘ کا احتجاج جاری ہے وہ اس سے قبل پچھلے برس بھی ایک ماہ کا احتجاج ریکارڈ کرا چکی ہے‘ 15نومبر 2021ء کو گوادر پورٹ روڈ پر ''گوادر کو حق دو تحریک‘‘ کا احتجاج آغاز ہوا تھا‘ بعد میں اس کا نام ''حق دو تحریک‘‘ پڑ گیا۔ اس احتجاج میں مرد و خواتین اور بچے بھی شامل تھے‘ مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں مقامی لوگ اپنے مطالبات کے حق میں ایک ماہ تک روڈ پر بیٹھے رہے‘ ان کے مطالبات کی طویل فہرست تھی۔ کالم کی سطور ان تمام مطالبات کے بیان کی متحمل نہیں ہو سکتیں‘ ہم یہاں تین مطالبات کو پیش کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ غیر قانونی ٹرالرز پر پابندی‘ ماہی گیروں کو آزادی کے ساتھ سمندر میں جانے کی اجازت۔ گوادر‘ مکران کوسٹل ہائی وے اور دیگر شاہراہوں پر غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ ''حق دو تحریک‘‘ کے بنیادی مطالبات تھے۔ ایک ماہ جاری رہنے کے بعد احتجاج ختم ہو گیاکیونکہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور مولانا ہدایت الرحمان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے‘ اس وقت مشترکہ معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ اب 27 اکتوبر کو ''حق دو تحریک‘‘ نے یہ کہہ کر دوبارہ احتجاج شروع کر دیا کہ گزشتہ سال حکومت اور ''حق دو تحریک‘‘ کے درمیان جن مطالبات پر اتفاق ہوا تھا ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔ مطالبات کے حق میں ''حق دو تحریک‘‘ کے مظاہرین گزشتہ دو ماہ سے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں‘ اس بار دیگر مطالبات کے ساتھ پینے کے صاف پانی کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ چند روز قبل پولیس نے دھرنا ختم کرانے کیلئے کارروائی کی تو پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہو گیا‘ کہا جا رہا ہے کہ مظاہرین کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید ہوا ‘ جس کے بعد مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے تحریک کے درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ امر خارج از امکان نہیں کہ پولیس اہلکار پر فائرنگ شر پسند عناصر نے کی ہو جس کا ملبہ ''حق دو تحریک‘‘ پر ڈال دیا گیا ہو۔ بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ اگرچہ ''حق دو تحریک‘‘ کے بہت سے مطالبات درست ہیں تاہم وہ صوبائی حکومت سے نہیں بلکہ وفاق سے متعلق ہیں۔ ''حق دو تحریک‘‘ کے مطالبات اس نقطے پر مرکوز ہیں کہ مقامی سطح کے وسائل پر مقامی لوگوں کا حق ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بلوچستان کی سمندری حدود میں ماہی گیری کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ ایک لمحے کیلئے اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ''حق دو تحریک‘‘ کے مطالبات جائز ہیں پھر بھی ملک اور صوبے کو اس کا نقصان ہو رہا ہے کیونکہ بھارت سمیت وہ قوتیں جو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے خلاف ہیں انہیں احتجاج کی آڑ میں شرپسندی کا موقع مل رہا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ احتجاج کے ایسے طریقہ کار کی قطعی طور پر حمایت نہیں کی جا سکتی جو پرتشدد ہو اور راستہ کو راہ گیروں کیلئے بند کرنے کا باعث بنتا ہو۔ حق دو تحریک کی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس طرح کے معاملات کو سیاسی نمائندوں کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ سی پیک اور ریکوڈک کی وجہ سے بلوچستان بیرونی سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز ہے‘ ایسی صورتحال میں سکیورٹی مسائل بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں ‘اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ''حق دو تحریک‘‘ کا حالیہ احتجاج ملک اور صوبے کو ترقی کی راہ سے دور لے جانے کی لاشعوری کوشش ہے۔ ریاست کو بھی ایسے موقع پر سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب ایک برس قبل ''حق دو تحریک‘‘ کے ساتھ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کر لیا گیا تھا تو اب ایسی کوشش دکھائی کیوں نہیں دیتی؟
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے‘ جس کے وسیع رقبے پر گیس‘ قیمتی پتھر‘ سونے اور تانبے کی وسائل اور گوادر جیسی اہم بندرگاہ ہے۔آج تک ہم ان قدرتی ذخائر سے مستفید نہیں ہو سکے ہیں تو دشمن قوتوں کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی قصور وار ہیں۔ سابقہ دور میں یہ منصوبے ایک عرصے تک پس پشت چلے گئے اور جس برق رفتاری سے کام ہونا چاہئے تھا ویسے نہیں ہو سکا ‘ چینی قیادت نے درون خانہ اس پر ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے‘ اب جبکہ ان منصوبوں پر کام شروع ہوا ہے تو بدامنی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس میں مقامی افراد فرنٹ پر ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب بلوچستان سے قدرتی ذخائر کو نکالا جائے گا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہی ہو گا‘ بلوچستان کے مقامی لوگ مگر اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘ اور جس چیز کا ابھی وجود ہی نہیں ہے اس پر لڑنے اور مارنے کیلئے تیار ہیں۔ بلوچستان میں ریکوڈک تانبے اور سونے کے ذخائر کی کان کنی کا منصوبہ بھی بحال ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ اتحادیوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا مگر جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے تحفظات کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا ہے‘ اتفاق رائے کے بعد ریکوڈک منصوبے پر کام شروع ہو گیا ہے جس سے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کی امید کی جارہی ہے ۔ اس منصوبے کی پیدا وار سے بلوچستان کو 37فیصد تک رائلٹی کی مد میں ادا کیا جائے گا۔ گوادر کی اہمیت اس کے آپریشنل ہونے سے جڑی ہے‘ دنیا اسے عالی منڈی کے طور پر دیکھ رہی ہے کیونکہ چین کا سامان دنیا کو اسی بندرگاہ سے سپلائی ہو گا‘ چین کی گوادر پر بڑی سرمایہ کاری ہے‘ 2030ء گوادر کی تکمیل کا سال ہے‘ جس میں چند برس ہی باقی ہیں‘ پاکستان اور چین کی حکومتیں آئندہ لائحہ عمل طے کرنے میں مصروف ہیں تاکہ منصوبے کی تکمیل سے پہلے دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ پاکستان سرمایہ کاری کیلئے سازگار ملک ہے۔
ان حالات میں یہ تاثر قائم کرنا افسوسناک ہے کہ پاکستان پُرامن ملک نہیں ‘اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل پر حملے کی افواہ بھی اڑائی گئی جس کے بعد امریکہ سمیت دیگر سفارت خانوں نے اپنے عملے کو وہاں جانے سے روک دیا‘ اسی طرح ایک خودکش حملہ آور کے بارے کہا گیا‘ اس طرح کی افواہوں سے یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی حالات ٹھیک نہیں ۔ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والا قومی سلامتی کا اجلاس نہایت اہمیت کا حامل ہے‘ اس اجلاس میں سروسز چیفس‘ وزراء اور اعلیٰ عسکری قیادت شریک ہوئی اور دہشتگردی مخالف بیانیے پر اتفاق کیا گیا۔ اس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف حتمی کارروائی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت جب پاکستان کی سول و عسکری قیادت انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی طے کرنے میں مصروف عمل ہے‘ بعض سیاسی دھڑے داخلی طور پر انتشار پھیلا رہے ہیں‘ مگر یہ طرزِ سیاست دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ ترقی کے عمل کو احتجاج کی نذر نہیں کیا جاسکتا ‘اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں اور بلوچستان کی مقامی تنظیموں کا تعاون ضروری ہے کہ اس کے بغیر بلوچستان میں ترقی کا یہ سفر مکمل ہونا آسان نہ ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں