پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگران سیٹ اَپ پر خوش اسلوبی سے معاملات طے نہ پانا سیاسی ناکامی ہے۔ چونکہ پنجاب کی اسمبلی پہلے تحلیل ہوئی اس لیے پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کی تعیناتی پہلے ہونی چاہئے تھی مگر اس معاملے میں تاحال ڈیڈ لاک برقرار ہے البتہ خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ کیلئے اعظم خان کے نام پر اتفاق ہو گیا اور انہوں نے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔
پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے معاملے پر پہلے مرحلے پر اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اور وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کسی نام پر متفق نہیں ہو پائے تو دوسرے مرحلے میں سپیکر پنجاب اسمبلی نے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی۔ پارلیمانی کمیٹی بھی نگران وزیراعلیٰ کے تقرر میں ناکام رہی ‘ اس لیے معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا ہے۔چوہدری پرویز الٰہی عندیہ دے چکے ہیں کہ الیکشن کمشنر کا لگایا ہوا وزیراعلیٰ چلنے نہیں دیں گے۔ الیکشن کمیشن پر تحفظات اپنی جگہ تاہم چوہدری پرویز الٰہی کے بیان کو سمجھنے سے قاصر ہوں کیونکہ وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی ناکامی کے بعد ہی نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس گیا ہے‘ جو پارلیمانی ناکامی بھی ہے‘ پرویز الٰہی کا بیان افسوسناک ہے جس پر عمران خان کو نوٹس لینا چاہئے۔ تحریک انصاف اگر الیکشن کمیشن کے تعینات کردہ وزیراعلیٰ کو ماننے سے گریزاں ہے تو ان کی نگرانی میں ہونے والے عام انتخابات کیسے تسلیم کریں گے؟ جب تک پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کا تقرر نہیں ہو جاتا ہے الیکشن کا انعقاد مشکل ہو گا‘ اگر تحریک انصاف نگران وزیراعلیٰ کے نام پر عدالت سے رجوع کرتی ہے تو معاملہ مزید لٹک جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں عام انتخابات ہونے ہیں اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں عام انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دے چکی ہیں جبکہ تحریک انصاف دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کر کے پورے ملک میں عام انتخابات کی خواہاں ہے۔اسمبلیاں تحلیل کرنے کا بنیادی مقصد بھی عام انتخابات کا انعقاد تھا ورنہ اپنی دو صوبائی حکومتوں کو کسی صورت ختم نہ کیا جاتا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ بطور احتجاج دونوں صوبوں کی تمام نشستوں پر اکیلے حصہ لیں گے تاکہ انتخابات بے معنی ہو جائیں‘ اگر دونوںصوبوں کی تمام نشستوں پر عمران خان امیدوار ہوئے تو اس صورت میں پی ڈی ایم کی جماعتیں الیکشن کا بائیکاٹ کر دیں گی۔ دوسری طرف قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر دو صوبوں میں عام انتخابات ہوتے ہیں تو ان میں اسمبلی کی مدت پانچ برس کیلئے ہو گی‘ اس لیے پہلے مرحلے میں دو صوبوں میں الیکشن کرائے جا سکتے ہیں جیسا کہ بھارت میں الیکشن کئی مراحل میں ہوتے ہیں‘ جب قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہو گی تو دوسرے مرحلے میں پورے ملک کے قومی حلقوں پر الیکشن کرا لیے جائیں۔
الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017ء کے مطابق نگران حکومت کی اولین ذمہ داری غیر جانبدار‘ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ روز مرہ کے امور کے علاوہ نگران حکومت کے پاس بظاہر کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔ نگران حکومت کوئی ایسی پالیسی نہیں بنا سکتی جو آئندہ حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہو۔ نگران حکومت کسی ملک یا بین الاقوامی ادارے کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کا حصہ بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کر سکتی ہے‘جب تک کہ ایسا کرنا ملک کیلئے انتہائی ضروری نہ ہو۔نگران حکومت سرکاری ملازمین کی تقرریاں‘ تبادلے اور ترقیاں بھی نہیں کر سکتی‘ ہاں عوامی مفاد کے پیش نظر مختصر مدت کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے۔ نگران حکومت ایسے کسی اقدام سے گریز کرتی ہے جس سے انتخابات کی شفافیت پر اثر انداز ہونے کا احتمال ہو۔ اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مرضی کا نگران سیٹ لگائیں‘ کیونکہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج کیلئے نگران حکومت پر اثر انداز ہوتی ہیں‘ حقِ خدمت کیلئے بھی بعض لوگوں کے نام نگران حکومت میں شامل کئے جاتے ہیں۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں کہ پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہوں اور اپنے وقت پر ہوں‘ وہ اپنی نجی محفلوں میں اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ تحریک انصاف کی خواہش کے مطابق الیکشن نہیں کرائے جا سکتے۔ مولانا چاہتے ہیں کہ ایسے حالات میں ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے مقابلے میں پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنے امیدوار کھڑے نہ کریں‘ اگر جماعت اسلامی یا آزاد امیدوار کھڑے ہوتے ہیں تو اس کی حیثیت نہیں ہو گی اور اس سے مینڈیٹ کا درست اندازہ بھی نہیں ہو سکے گا۔ سیاست میں جو کچھ ظاہر کیا جاتا ہے حقیقت اس سے مختلف ہوتی ہے‘ کچھ عرصہ قبل اتحادی جماعتیں اصرار کی حد تک کہتی رہی ہیں کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس آ جائے لیکن جب عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کے حوالے سے بیان دیا کہ اگر وہ واپس نہ گئے تو راجہ ریاض کے ساتھ مل کر نگران سیٹ اَپ تشکیل دے دیا جائے گاتو اتحادی جماعتوں نے فوری طور پر 35 اراکین کے استعفے منظور کر لیے‘ اب مزید 35 اراکین کے استعفے منظور کر لیے گئے ہیں۔ گیارہ ارکان کے اس سے پہلے منظور ہو چکے تھے‘ ممکن ہے کچھ اراکین کے مزید استعفے بھی منظور ہو جائیں۔ قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے استعفوں کی منظوری کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف کے پاس دو صوبوں کی حکومت موجود تھی‘ پی ڈی ایم کو خدشہ تھا کہ اگر قومی اسمبلیوں پر تحریک انصاف کے استعفے منظور ہوتے ہیں اور ان نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوتے ہیں تو تحریک انصاف صوبائی حکومتوں کے اثر و رسوخ اور وسائل کو استعمال کر کے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے‘ اب جبکہ صوبائی حکومتیں ختم ہو چکی ہیں تو یہ خدشہ نہیں رہا اس لیے اگر اب قومی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوتے ہیں تو پی ڈی ایم تحریک انصاف کا مقابلہ کرے گی۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہے کہ استعفوں کے بعد تحریک انصاف قومی اسمبلی میں نگران حکومت کی تشکیل میں اپنے آئینی کردار سے قاصر رہے گی۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو اپوزیشن اور حکومت کا کردار تقریباً ایک جیسا ہے‘ دونوں طرف سے اپنے اپنے سیاسی مفاد کیلئے کوشش کی گئی ہے۔ ہماری دانست میں قومی یا صوبائی سطح پر فوری انتخابات کے آثار نہیں ہیں‘ یہ معاملہ کسی نہ کسی بہانے اگلے چند ماہ تک لٹکتا رہے گا۔ مریم نواز کی واپسی کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے‘ جب وہ واپس آئیں گی تو سیاسی ہلچل میں اضافہ ہو گا۔ دوسرے فیز میں میاں نواز شریف کی واپسی ہو گی کیونکہ معاشی بحران کے باعث مسلم لیگ (ن) کیلئے سیاسی محاذ پر مقابلہ مشکل ہو گیا ہے‘ طے ہو چکا ہے کہ حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوں‘ میاں نواز شریف کی واپسی ہو گی۔ جب میاں نواز شریف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے تو عمران خان کے پاس پیش کرنے کیلئے کوئی کارڈ نہ ہو گا شاید یہی مسلم لیگ (ن) کی سیاسی حکمت عملی تھی کہ انتخابات سے قبل عمران خان کو تھکا دیا جائے کہ انتخابی مہم ان کیلئے مشکل ہو جائے۔