چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں عدالت نے طلب کر رکھا تھا‘ عدم حاضری پر وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے کہ گرفتار کر کے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے‘ خان صاحب کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ وڈیو لنک کے ذریعے کیس سنا جائے‘ عدالت نے اسے رد کر دیا‘ خان صاحب کی بیماری کو جواز بنا کر التوا حاصل کیا گیا‘ جب خان صاحب کی سیاسی سرگرمیاں سامنے آئیں تو عدالت نے انہیں حاضر ہونے کا حکم جاری کیا‘ خان صاحب کے وکلا نے سکیورٹی کا جواز پیش کیا کہ ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں اسلئے انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے‘ عدالت نے چار مرتبہ خان صاحب کو حاضری سے استثنیٰ دیا مگر بوجوہ وہ عدالت میں حاضر نہ ہوئے تو اسلام آباد پولیس وارنٹ گرفتاری تھامے ان کی رہائش گاہ زمان پارک لاہور جا پہنچی۔ تحریک انصاف قیادت و کارکنان پولیس اور خان صاحب کے درمیان دیوار بن گئے‘ ڈنڈا بردار کارکنان پولیس کے سامنے سینہ سپر ہو گئے ۔ جب پولیس پر پتھراؤ ہوا تو انتظامیہ کی طرف سے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا لیکن دوسری طرف سے پولیس پر پتھر اور مبینہ طور پر پٹرول بم پھینکے گئے‘ ایک وڈیو میں کارکنان کو پولیس اہلکاروں پر پٹرول بم پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔پی ٹی آئی کی ایک رہنما کی مبینہ ٹیلی فونک کال‘ جو لیک ہوئی ہے‘ اس میں انہوں نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان کو زمان پارک جمع کیا گیا‘ پی ٹی آئی کی خاتون رہنما سے منسوب ایک ایسی ٹیلی فونک کال بھی لیک ہوئی ہے جس میں وہ اعجاز شاہ سے کہہ رہی ہیں کہ بندے لے کر پہنچیں‘ اگر پی ٹی آئی کا ٹکٹ چاہئے تو فوراً پہنچیں۔ اس کے بعد زمان پارک میں جو کچھ ہوا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ عقل و خرد کا حامل ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اسلام آباد اور لاہور کی پولیس تو عدالتی حکم کی تعمیل کر رہی تھی‘ تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان کس مقصد کیلئے وہاں جمع تھے؟
یہ جانتے ہوئے بھی کہ کیس کا فیصلہ بہر صورت عدالت میں ہونا ہے‘ تحریک انصاف نے مزاحمتی رویہ اختیار کر کے جو روایت قائم کی اس کی مثال نہیں ملتی ۔ خان صاحب اپنے سیاسی حریفوں کو مختلف القاب سے پکارتے رہتے ہیں تاہم اگر پچھلے تیس چالیس برسوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف‘ آصف زرداری‘ وزیراعظم شہباز شریف‘ سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف‘ دیگراعلیٰ سیاسی قیادت حتیٰ کہ خواتین جن میں مریم نواز اور فریال تالپور نے کسی مزاحمت کے بغیر قید و بند کا سامنا کیا۔ مذکورہ بالا تمام شخصیات کو تحریک انصاف کے دور میں جیلوں میں ڈالا گیا‘تب پی ٹی آئی کی قیادت پریس کانفرنسوں میں طرح طرح کے الزامات عائد کرتی تھی جو عدالتوں میں ثابت نہیں ہو پائے۔ تحریک انصاف کی قیادت برملا کہتی ہے کہ خان صاحب ان کی ریڈ لائن ہیں‘ جب زمان پارک میں پولیس وارنٹ گرفتاری لے کر پہنچی تو اس نعرے کو ایک بار پھر دہرایا گیا کہ ان کی ریڈ لائن کو کراس کیا گیا‘ پھر کیا تھا کہ ملک بھر سے دیوانہ وار لوگ خان صاحب کی حفاظت کے لیے لاہور پہنچنے لگے۔ جب ہر سیاسی جماعت اپنے قائدین کے لیے اس طرح کے خود ساختہ اصول تراش لے گی تو ملک میں قانون کی بالادستی کیسے قائم کی جا سکے گی؟ خان صاحب واحد رہنما ہیں جو عدالتی حکم پر سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اپنی مرضی کے وقت پیش ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر بوگس دلائل دینے لگتے ہیں‘ کیا کسی دوسرے شہری کو بھی اس طرح کی سہولت حاصل ہے؟ مان لیتے ہیں کہ خان صاحب کو کروڑوں لوگ پسند کرتے ہیں‘ ہر شہر میں ان کے لاکھوں فالورز موجود ہیں لیکن کیا مقبولیت کی بنا پر عدالتوں کے سامنے پیش نہ ہونا عقل مندی کہلائے گا؟ خرابیٔ بسیار کے بعد عدالت میں وارنٹ گرفتاری کو معطل کرنے کی درخواست دائر کی گئی تاہم سیشن کورٹ کے جج بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ عدالتوں میں سرنڈر کرنے کے بجائے عمران خان عدالت سے ریلیف کے خواہاں ہیں۔ سیشن کورٹ کے جج نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے ریاست کی رِٹ اور وقار کو چیلنج کیا۔ گزشتہ روز اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے لیے خان صاحب لاہور سے روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ اپنے حامیوں کا بڑا جلوس تھا۔ آپ عدالت میں پیش ہونے جا رہے تھے تو کارکنان کو ساتھ لے جانے کا کیا مقصد تھا؟ محض زبان سے قانون کی بالادستی یا سب کے لیے یکساں قانون کا نعرہ لگا نا کافی نہیں‘ ان کا عمل اس کے خلاف ہے‘ وہ مقبولیت کی بنا پر رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں وہ اپنے ساتھ خصوصی برتاؤ کے خواہاں ہیں۔خان صاحب کو اپنے رویے کو تبدیل کرنا ہو گا۔
ادھرافغان نژاد امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد کی طرف سے جون میں الیکشن کے مطالبے نے نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔زلمے خلیل زاد اقوام متحدہ اور امریکہ کی چھتری تلے جن ممالک میں تعینات رہے ہیں ان میں عراق اور افغانستان سرفہرست ہیں۔ان ممالک کی تاریخ آگ اور خون سے عبارت ہے‘ اب یہ صاحب پاکستان میں مداخلت کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ایک طرف پاکستان تحریک انصاف انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے تو دوسری طرف زلمے خلیل زاد اس مطالبے کی حمایت میں ٹوئٹ کر رہے ہیں۔ اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ انتخابات ہونے چاہئیں مگر یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے‘ زلمے خلیل زاد کس حیثیت سے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ خان صاحب کو بھی زلمے خلیل زاد کو جواب دینا چاہئے۔ خان صاحب بیرونی مداخلت بارے ٹھوس مؤقف رکھتے ہیں‘ پچھلے چند ماہ کی تقاریر ریکارڈ پر موجود ہیں کہ انہوں نے امریکی مداخلت پر کیا مؤقف اختیار کیا۔ اب وہ زلمے خلیل زاد کی مداخلت پر خاموش کیوں ہیں؟ سیاسی خلفشار نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں کہ زلمے خلیل زاد جیسے لوگ ہمیں مشورہ دینے لگے ہیں۔ ایسے حالات میں انتخابات کا انعقاد مشکل دکھائی دیتا ہے۔ گورنر خیبر پختونخوا الیکشن کمیشن کو صوبے کے سکیورٹی حالات سے آگاہ کر چکے ہیں۔قوی امکان ہے خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا جائے‘ سکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف مصروف ہوں گی تو الیکشن کا انعقاد آسان نہیں ہو گا۔ان خدشات اور تحفظات کے باوجود اگر انتخابات ہو جاتے ہیں تو یہ متنازع انتخابات ہوں گے جن کے نتائج تسلیم نہیں کئے جائیں گے۔شایدخان صاحب نتائج تسلیم نہ کرنے والوں میں سرفہرست ہوں کیونکہ وہ جس مقبولیت کا دعویٰ کر رہے ہیں اس سے کم پر تیار نہیں ہوں گے۔ سو ضروری ہے کہ وزیراعظم کی پیشکش کو قبول کر لیا جائے اورسیاستدان الیکشن سے پہلے چند امور کو اتفاق رائے سے طے کر لیں۔ خان صاحب کا تلخ رویہ اپنی جگہ مگر ہماری دانست میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ملکی مفاد میں بات چیت کے لیے پہل کرے۔ایوان کے اندر تقاریر اور پریس کانفرنسوں سے کبھی بھی بات چیت کا آغاز نہیں ہو سکتا‘ سیاسی جماعتوں کو پرامن انتخابات کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔اگر پرامن انتخابات کے لیے کوشش نہ کی گئی تو جو نقشہ بنے گا اس کی ایک جھلک زمان پارک میں نظر آ چکی ہے۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں زمان پارک میں پولیس کا سرچ آپریشن جاری تھا۔پولیس کا دعویٰ تھا کہ اُس کے پاس ایسے شواہد ہیں کہ زمان پارک میں مسلح جتھے موجود ہیں اور یہ آپریشن انہیں تلاش کرنے کے لیے کیا گیا ۔ اسلام آباد کے حالات بھی تشویشناک ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اس کا کوئی قابلِ قبول حل نکالنا بہرصورت ضروری ہے۔