"RS" (space) message & send to 7575

سیاسی غلطیوں کا تسلسل

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کے ممکنہ انعقاد کا اعلان کیے جانے کے بعد نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے اس بیان سے کہ ''منصفانہ الیکشن پی ٹی آئی چیئرمین کے بغیر بھی ممکن ہیں‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف سمیت جو افراد نو مئی کے واقعات میں ملوث تھے‘ ان کے بغیر انتخابات کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ ہم چیئرمین تحریک انصاف کو عام انتخابات سے باہر رکھنے کے حق میں نہیں‘مگر ایسا لگتا ہے کہ چیئرمین کے بغیر جماعت کا الیکشن میں حصہ لینا نہ لینا برابر ہو گا۔
قارئین! تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے آج سے چھ برس قبل میاں نواز شریف کو 2018ء کے عام انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے جس قسم کی منصوبہ بندی کی تھی‘ اب بالکل ویسے ہی حالات اور چیلنجز کا انہیں بھی سامنا ہے۔ اب یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے بعض حلقوں کی ملی بھگت سے میاں نواز شریف کو الیکشن 2018ء سے ایک سال پہلے نہ صرف یہ کہ اقتدار سے ہٹایا بلکہ اپنے تئیں سیاست سے آؤٹ کرنے کی بھی کوشش کی‘ مگر اب آئندہ عام انتخابات سے قبل میاں نواز شریف سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہو رہے ہیں جبکہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پس پردہ جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح میاں نواز شریف کو الیکشن سے باہر رکھنے کی سوچ غلط تھی‘ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو انتخابات سے باہر رکھنے کی سوچ کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں سمجھنے والوں کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے‘ مگر المیہ یہ ہے کہ بہت کم لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک ہی کہانی کو پرانے انداز میں دہرانے کی روایت موجود ہے‘ بسا اوقات کردار بھی پرانے ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کمزور جمہوری اقدار کا تصور پایا جاتا ہے۔
اکتوبر 2011ء کو لاہور میں مینارِ پاکستان کے مقام پر پاکستان تحریک انصاف نے غیرمعمولی جلسہ کیا تھا جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی قومی سیاست پر نمایاں ہونا شروع ہوئے اور کچھ حلقوں کی جانب سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ جہاں باقی سب سیاسی جماعتوں کو آزمایا ہے وہیں پاکستان تحریک انصاف کو بھی موقع دیا جانا چاہیے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے مختلف حصوں میں پاکستان تحریک انصاف کے بڑے بڑے جلسے منعقد ہونے لگے۔ تب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو پہلی بار یہ اندازہ ہوا کہ عوام کو سڑکوں پر نکال کر اپنا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 2011ء کے مینارِ پاکستان جلسہ سے لے کر نو مئی کے واقعات تک پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کا طرزِ سیاست احتجاجی ہی رہا ہے۔ شاید ان کے ذہن میں یہ بات جاگزیں ہو گئی تھی کہ عوام جس کے ساتھ ہوں گے‘ مقتدرحلقے بھی اسی کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی میں جمہوری اقدار کو فروغ دینے پر توجہ نہ دی‘ کارکنوں کی سیاسی تربیت کرنے کے بجائے انہیں اشتعال انگیزی کے گُر سکھائے‘ سوشل میڈیا اس مہم جوئی کا اہم ٹول تھا۔ نو مئی کے واقعات دراصل اسی تربیت کا کھلا اظہار تھے۔ آج چاہتے ہوئے بھی چیئرمین تحریک انصاف کے لیے اس اشتعال انگیزی سے دامن چھڑانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف آج اپنی سیاسی غلطیوں کی ہی سزا بھگت رہے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ دوسرے سیاسی قائدین بھی ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کریں؟
2018ء کے عام انتخابات سے پہلے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے تسلسل کے ساتھ یہ مؤقف پیش کیا کہ وہ اقتدار میں آ کر چوروں کا احتساب کریں گے۔ پی ٹی آئی کے دور میں سیاسی مخالفین کا احتساب ہوتا ہوا نظر بھی آیا‘ لیکن ساڑھے تین سال تک جاری رہنے والے اس احتساب سے کچھ برآمد نہیں ہوا۔ ملک و قوم کو اس احتساب سے فائدہ کیا ہونا تھا اُلٹا نقصان یہ ہوا کہ جس حکومت نے عوام کے مسائل کو حل کرنا تھا اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا تھا‘ وہ نان ایشوز میں اُلجھ کر رہی گئی۔ آج میاں نواز شریف بھی ان کرداروں کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں جنہوں نے 2017ء میں ایک سازش کے تحت ان کی حکومت ختم کی تھی جس کے نتیجے میں ترقی کرتا ہوا ملک معاشی بحران کا شکار ہو گیا۔ ایک لمحے کے لیے دیکھا جائے تو میاں نواز شریف آئندہ عام انتخابات سے پہلے بالکل ویسا ہی مؤقف اختیار کرتے نظر آتے ہیں جیسا مؤقف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے 2017ء میں اختیار کر رکھا تھا۔ اگر ساڑھے تین سال کے احتساب سے چیئرمین پی ٹی آئی کو کچھ حاصل نہیں ہوا تو میاں نواز شریف کو کیا حاصل ہو سکے گا؟ ان کے ساتھ ماضی میں جو زیادتیاں ہوئی ہیں وہ اپنی جگہ‘ تاہم ایک لیڈر کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے بجائے ملک و قوم کے مفادات کو سامنے رکھ کر سوچے۔ عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کی قید و بند کی صعوبتیں مجموعی طور پر تین دہائیوں پر محیط ہیں۔ اس دوران ان پر کون سا ستم ہے جو نہیں ڈھایا گیا مگر طویل جدوجہد کے بعد جب قوم ان کے مخالفین کا بیانیہ مسترد کر چکی تو مخالفین نے مجبوراً مذاکرات کی پیش کش کی۔ نیلسن منڈیلا نے فوری حامی بھر لی۔ ان کے حامیوں نے کہا کہ اب جبکہ ہماری کامیابی نوشتہ دیوار ہے تو مذاکرات کیوں؟ نیلسن منڈیلا نے تب تاریخی جواب دیا کہ میری قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ انہیں مزید ابتلا میں نہ ڈالا جائے۔
پاکستان کے معاشی‘ سیاسی اور سکیورٹی کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ مہنگائی کے باعث عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ نامساعد حالات تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی قیادت بالغ نظری کا مظاہرہ کرے۔ ذاتی رنجشوں پر قومی مفادات کو ترجیح دے۔ ایک قومی ایجنڈے پر اتفاقِ رائے ہو۔ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔ ماضی کے تلخ ایام کو یاد کر کے افسردہ ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ حال اور مستقبل کے سنہرے خوابوں میں مسرت کے لمحات تلاش کیے جائیں۔ سوچنے کا مقام صرف اور صرف یہ ہونا چاہیے کہ خطے کے دیگر ممالک نے کیسے ترقی کی اور ہم ترقی کی دوڑ میں کیوں پیچھے رہ گئے؟ عالمی بینک ہمیں بھارت‘ انڈونیشیا اور ویتنام کی مثالیں دے کر بتا رہا ہے کہ ان ممالک نے بحران میں کون سے مشکل فیصلے لیے اور کیسے درپیش چیلنجز پر قابو پایا۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مفاہمت کی سیاست ہی پاکستان کو آگے لے کر جا سکتی ہے۔ اُن کا تاریخ سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہی دانش مندی کہلائے گا۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ ترقی کا سفر اسی صورت ممکن ہے جب ہم سیاسی غلطیوں کا تسلسل روک کرمستقبل اور کو سامنے رکھ کر سوچیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں