"RS" (space) message & send to 7575

متبادل قیادت

عام انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں رہنا چاہیے۔ سپریم کورٹ میں آر اوز کی تعیناتی منسوخ کرنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل ہونے کے بعد انتخابی عملے کی تربیت پھر سے شروع ہو گئی ہے۔ اس سے الیکشن کمیشن کے امتحان کا بھی آغاز ہو گیا ہے اور نگران حکومت کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ شفاف انتخابات کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا نگران حکومت کا کام ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کی اب بھی پوری کوشش ہے کہ الیکشن کے عمل کو روک دیا جائے‘ یہی وجہ ہے کہ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے باوجود انتخابی ماحول و سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں سیاسی ملاقاتوں تک محدود ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بعد اب پاکستان پیپلز پارٹی بھی محض ملاقاتوں پر اکتفا کر رہی ہے۔ آصف علی زرداری نے دورۂ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی سے سیاسی اتحاد نہ کرنے کی ہدایت کی ہے البتہ انہوں نے پشاور میں گورنر خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سیاسی جماعتیں موروثی سیاست کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور فی الحال الیکٹ ایبلز کے پیٹرن کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی خاندان اور الیکٹ ایبلز سیاسی جماعتوں کی مجبوری بن چکے ہیں اور سیاسی جماعتیں عوام پر اعتماد کرنے کے بجائے الیکٹ ایبلز کی محتاج بن کر رہ گئی ہیں۔ اس سوچ کے تحت اگر انتخابات ہو بھی جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں نئی حکومت بھی قائم ہو جاتی ہے تو کیا ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے؟ عوام کی انتخابات میں عدم دلچسپی کی وجہ بھی یہی ہے کہ جو چہرے معاشی بحران کے ذمہ دار ہیں وہی دوبارہ ملکی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی زیادہ تر نشستیں ایسے نمائندوں کے پاس تھیں جو برسوں سے ایوان کا حصہ بنتے آ رہے ہیں۔ 8فروری 2024ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے والے نئے چہرے ابھی تک سامنے نہیں آ سکے ہیں مطلب یہ کہ وہی پرانے چہرے اس بار بھی ایوان میں نظر آئیں گے۔
جمہوریت میں عوام کی حکمرانی کا تصور تو یہ ہے کہ منصب اور طاقت کی منتقلی عوام کی مرضی پر ہو لیکن پاکستان جیسے معاشروں میں موروثی سیاست کا رواج اس تصور کی صریحاً خلاف ورزی کرتا ہے۔ موروثی سیاست میں کسی خاندان یا گروہ کے افراد خود کو حکمرانی کا حقدار سمجھتے ہیں اور نسل در نسل اقتدار ان کے ہاتھوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اس نظام کی خرابی یہ ہے کہ قابلیت اور لیاقت سے زیادہ خاندانی نسبت اہم ہوتی ہے۔ اس باعث نہ صرف باصلاحیت افراد مواقع سے محروم رہتے ہیں بلکہ نااہل افراد کے فیصلوں سے عوام کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ موروثی سیاست عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلہ بڑھاتی ہے۔ جب اقتدار ایک ہی خاندان کے پاس ٹھہر جاتا ہے تو عوام کی آواز کمزور پڑ جاتی ہے اور حکومتیں جوابدہی سے بچنے لگتی ہیں۔ عوام یہ جانتے ہوئے بھی کہ موروثی سیاست کی وجہ سے حکومتیں عوام کی ضروریات کو نظرانداز کرتی ہیں‘ اسے سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ سسٹم سماجی طبقات کے درمیان موجود عدم مساوات کو مزید گہرا کرتا ہے۔ اقتدار کے مراکز پر قبضہ رکھنے والے خاندان اپنی طاقت کا استعمال اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں‘ جس سے عام لوگوں کی سماجی و اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان میں متوسط طبقے کا حجم 1990ء کی دہائی سے نصف سے بھی کم رہ گیا ہے‘ جو جزوی طور پر موروثی سیاست کے اثرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ موروثی سیاست نئے خیالات اور اصلاحات کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جب اقتدار اسی گروہ کے پاس رہتا ہے تو نئے لوگوں کے لیے سسٹم میں داخل ہونا مشکل ہو جاتا ہے اور نتیجے میں سیاسی نظام جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں آئین کی بار بار تبدیلی کا ایک سبب موروثی سیاستدانوں کی اپنے مفادات کے تحفظ کی کوشش بھی ہے۔ موروثی سیاست جمہوریت‘ سماجی انصاف اور ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے عوام کا شعور بیدار کرنا اور سیاسی اصلاحات لانا ضروری ہے۔ پاکستان میں نوجوان طبقے کی بڑھتی تعداد اس حوالے سے امید کی کرن ہے کہ اس سے مستقبل میں اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف عوام بھی نفسیاتی طور پہ شاہ پرست ہیں۔ عوام کسی نئے کو یا کسی ایسے شخص کو جو انہی میں سے ہو‘ اپنا لیڈر یا بڑا ماننے کو تیار ہی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بعض لوگوں کا سیاست پہ موروثی حق ہے اور وہی خاندان حکمرانی کے مستحق ہیں۔ آپ ذرا تصور کریں کہ اگر مسلم لیگ (ن) شریف خاندان سے نکل جائے تو اس کے کتنے ٹکڑے ہوں گے۔ شاہد خاقان عباسی یا چودھری نثار علی خان اگر اپنے حلقے سے نکل کر کہیں بھی جلسہ کریں تو وہ مریم نواز کے جلسے کے عشر عشیر بھی لوگ اکٹھے نہیں کر سکتے بلکہ اپنے حلقے میں بھی اتنا بڑا جلسہ نہیں کر سکتے جتنا مریم نواز کا جلسہ ہو گا۔ یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے۔ بلاول بھٹو یا بھٹو خاندان کے ہاتھوں سے نکل کر پی پی پی بھی ٹکڑوں میں بٹ جائے گی۔ چودھری اعتزاز احسن کو اگر اپنے حلقے سے باہر کوئی کہے کہ کراچی یا پشاور میں بلاول جتنے لوگ اکٹھے کر کے دکھائیں تو وہ نہیں کر سکیں گے۔ یہی حال مولانا فضل الرحمان اور ایمل ولی کا ہے۔ لوگ ان خاندانوں سے باہر جاتے ہی نہیں۔ الیکٹ ایبلز کا حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ لوگ ہر ضلع اور تحصیل میں جن کو بڑا مانتے ہیں‘ انہی کو مانتے رہیں گے۔ شاہ محمود کا مقابلہ کوئی عام پڑھا لکھا جوان نہیں کر سکتا۔ بہت سے ووٹر ایسے خاندانوں پر بھروسا کرتے ہیں جو طویل عرصے سے سیاست میں ہیں اور جنہیں وہ جانتے اور پہچانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان خاندانوں کے پاس حکومتی نظام کو سمجھنے اور مسائل کو حل کرنے کا تجربہ ہے۔ اس سوچ کے حامل لوگ خاص طور پر دیہی علاقوں میں موجود ہیں جہاں لوگ برادری کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ کچھ لوگ خاندانی سیاست دانوں کو اپنے لیے فوری فائدے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ امید رکھتے ہیں کہ یہ سیاستدان انہیں سرکاری نوکریوں یا سماجی خدمات تک رسائی فراہم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ کچھ برادریوں میں ایک ہی بندے کو ووٹ دینا خاندانی وفاداری کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے خاندان کے سربراہ کی حمایت کو ضروری سمجھتے ہیں اور انہی کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ رجحان خاندانی سیاستدانوں کو مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کرتا ہے اور انہیں آئندہ انتخابات میں بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
اس کا ایک حل طلبہ سیاست ہے‘ جس پر کافی عرصہ سے پابندی عائد ہے۔ اگر طلبہ سیاست کی اجازت دی جائے تو نئی قیادت سامنے آ سکتی ہے۔ طلبہ سیاست سے عام لوگ سیاست میں آئے ہیں‘ بڑی مثال شیخ رشید کی ہے۔ ضیاء الحق نے 1984ء میں طلبہ سیاست پہ پابندی لگائی‘ اس کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت نے یہ بحال نہیں کی۔ سب کو ڈر ہے کہ اس سے متبادل قیادت سامنے آ جائے گی۔ تب طلبہ لیڈرز پورے صوبے بلکہ ملک میں مشہور ہو جاتے تھے۔ طلبہ سیاست سے معراج محمد خان جیسے مقرر بھی سامنے آ ئے۔ موروثی سیاست کا حل صرف طلبہ یونین ہی ہیں‘ ورنہ آپ کو ہر جگہ موروثی سیاست دان ہی ملیں گے۔ خاندانی سیاست پاکستان میں ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے میرٹ‘ شفافیت اور جوابدہی کم ہوتی ہے اور یہ عوام کے مفادات کے بجائے خاندانی مفادات کی ترجیح کا باعث بنتی ہے۔ جب تک نئی سوچ کے ساتھ نئی قیادت سامنے نہیں آتی‘ ہمارے حالات تبدیل ہونے کا کوئی راستہ نہیں نکلے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں