قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد پاک ایران کشیدگی میں کمی آ چکی ہے‘ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ایران نے برادر اسلامی اور پڑوسی ملک پاکستان میں حملے کیوں کئے؟ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ایران کی جانب سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کئے جانے والے حملے‘ جغرافیائی حدود اور پاک ایران سرحدی علاقے میں سرگرم مسلح گروہوں کے مقاصد کو سمجھنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں بلوچستان ہے ایران میں بھی بلوچستان ہے جسے ایرانی بلوچستان کہا جاتا ہے۔اور جس طرح ہمارے ہاں بلوچ علیحدگی پسند مسلح گروہ ہیں‘ ایران میں بھی ہیں۔ دونوں ممالک کیلئے یہ شدت پسند چیلنج بنے ہوئے ہیں کیونکہ اطراف میں رہنے والے بلوچ علیحدگی پسند ایک جیسی بودوباش رکھتے ہیں اور پاک ایران ملحقہ سرحدی علاقوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ملک میں کارروائی کر کے دوسرے ملک میں گھس جاتے ہیں۔ ایران نے منگل کو رات گئے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میں میزائلوں اور ڈرون سے حملہ کر دیا‘ مؤقف اپنایا کہ پنجگور کے جس علاقے کو نشانہ بنایا گیا وہاں دہشت گرد گروپ' جیش العدل‘ کے لوگ چھپے ہوئے تھے۔ جیش العدل ایک شدت پسند اور بلوچ علیحدگی پسند گروپ ہے جو 2012ء میں وجود میں آیا تھا۔ یہ خود کو ایرانی بلوچستان میں خود مختاری کے لیے لڑنے والا گروپ کہتا ہے لیکن اسی مقصد کے تحت پاکستان میں بھی حملے کرتا ہے۔ اس گروپ کی سرگرمیاں بنیادی طور پر ایران کے سیستان اور بلوچستان صوبے میں مرکوز ہیں لیکن یہ پاکستان کے بلوچستان صوبے میں بھی سرگرم ہے‘ خصوصاً پاک ایران سرحد کے قریب کے علاقوں میں۔ یوں جیش العدل دونوں ممالک کے لیے سکیورٹی خطرہ ہے۔ یہ مسلح لوگ بلوچستان میں اپنے حملوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے استحکام کو چیلنج کرتے ہیں اور خطے میں عدم استحکام پھیلاتے ہیں۔ اس گروہ کے سرحد پار حملے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بنتے ہیں اور ایک ایسے خطے میں جہاں پہلے ہی سے عدم اعتماد موجود ہے‘ مزید مسائل کھڑے کرتے ہیں۔ ایران اپنے دعویٰ کے مطابق ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہا کہ پاکستان میں جن افراد کو نشانہ بنایا گیا وہ دہشت گرد تھے۔پاکستان کیلئے ان حملوں کا جواب دینا ضروری تھا کیونکہ خودمختاری اور ریاستی مفادات تعلقات سے بہر صورت مقدم ہوتے ہیں سو پاکستان نے 48 گھنٹوں سے کم وقت میں ایران کو جواب دیا۔ پاکستانی ایئر فورس نے ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا حملے میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ عام شہری نشانہ نہ بنیں۔ پاکستانی حملے میں متعدد دہشت گرد مارے گئے جس کی ایران نے بھی ان الفاظ میں تصدیق کی کہ حملے میں مارے جانے والے ایرانی شہری نہیں تھے۔ پاکستان کیلئے ایران کے حملوں کا جواب دینا ضروری تھا کیونکہ ایرانی حملوں کو برداشت کر لیا جاتا اور روایتی جواب پر اکتفا کیا جاتا تو پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی پر سوالات اٹھتے۔ ایران نے پاکستان میں حملے کر کے نہایت غیر ذمہ داری کو مظاہرہ تو کیا ہی ساتھ پڑوسی اور برادر ملک کے تعلقات کا پاس بھی نہیں رکھا۔ اس کے برعکس پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیا اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بعد کوئی اضافی قدم نہیں اٹھایا۔
دنیا کی تاریخ دیکھ لیں‘ بھائی چارے اور قربت کے رشتے چاہے جتنے بھی گہرے ہوں‘ قومی سلامتی اور خود مختاری کو ان پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تاریخی و مذہبی رشتے مضبوط ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان اپنی سرزمین کی حفاظت کو نظر انداز کرے گا۔ جب کسی بیرونی طاقت کی جانب سے ملک کی سالمیت کو چیلنج کیا جاتا ہے تو برادرانہ تعلقات کی پروا کیے بغیر اس کاجواب دینا ہی واحد راستہ ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ تعلقات کے باوجود ریاستی مفادات کو مقدم رکھا گیا۔ ریاستی مفادات کو سمجھنے کیلئے چند مثالیں ملاحظہ ہوں: 2014ء میں فرانس نے مصر کو مسٹرال جنگی جہازوں کی فروخت کا معاملہ طے کیا تھا‘ حالانکہ امریکہ اس معاملے پر سخت مخالفت کر رہا تھا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ یہ جہاز مصر کی فوجی طاقت میں اضافہ کریں گے اور خطے میں عدم استحکام کا باعث بنیں گے‘ تاہم فرانس نے اپنے اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معاملہ طے کیا اور امریکہ کی ناراضی کے باوجود جہاز مصر کو بھیج دیے۔ 2016ء اور 2017ء میں امریکہ نے یمن میں سعودی عرب کی فوجی مہم کی مذمت کے باوجود انہیں اسلحہ کی فروخت جاری رکھی۔ یمن میں سعودی عرب کی کارروائیوں پر عالمی سطح پر عسکری قوت کی بجائے مسئلے کا پرامن حل نکالنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن امریکہ نے اپنے اسلحہ سازوں کی خوشنودی اور سعودی عرب کے ساتھ اپنے سٹریٹجک تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے اسلحہ کی فروخت جاری رکھی۔ 2019ء میں برطانیہ نے امریکہ کے تحفظات کے باوجود اپنے 5G نیٹ ورک میں ایک چینی کمپنی کے آلات کو شامل کرنے کی اجازت دی۔ امریکہ کا خیال تھا کہ یہ ایک خطرہ ہے‘ لیکن برطانیہ نے اپنی ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کی ترقی کے لیے چینی کمپنی کے ساتھ معاملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مذکورہ مثالوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک کیلئے اس کی خود مختاری کی حفاظت سب سے اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ برادرانہ تعلقات جتنے بھی قیمتی ہوں‘ سرحدوں کی سالمیت اور عوام کی سلامتی ان سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے‘ اسی لیے بلوچستان پر حالیہ حملے کے ردعمل میں پاکستان کا فوری ردعمل اپنے دفاعی عزم کا واضح اظہار ہے۔ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایران کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘ دونوں ممالک کی مذہبی و ثقافتی اقدار مشترک ہیں‘ لیکن جب خودمختاری پر حملہ ہوا تو 77 برسوں میں پہلی بار ایسا موقع آیا کہ پاکستان کو ایران سے اپنا سفیر واپس بلانا پڑا جبکہ ایران کا سفیر جو دورے پرایران گیا ہوا تھا اُسے پیغام دیا گیا کہ وہ فی الحال واپس نہ آئے۔ پاکستان کی طرف سے اس سخت ردعمل کی نوبت کیوں آئی ؟ یہ ایران کیلئے سوچنے کامقام ہونا چاہئے۔
ہر مسلح جدوجہد کے پیچھے یا معاشی مفادات ہوتے ہیں یا دفاع ہوتا ہے‘پاک ایران حالیہ کشیدگی میں یہی عوامل کارفرما تھے‘ کیونکہ اطراف کے سرحدی علاقے پسماندہ ہیں‘ سی پیک کی تکمیل کو اگرچہ خطے کیلئے خوشحالی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہاہے تاہم اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان اور بلوچستان کی مقامی آبادی کو ہو گا اس لئے بلوچستان میں دراندازی کر کے وہاں کا امن خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ بلوچ علیحدگی پسندوں کے نیٹ ورک چلانے اور انہیں اپنے ہاں پناہ فراہم کرنے میں بھارت کا کردار کسی ڈھکا چھپا نہیں‘ لیکن دھچکا اس وقت لگتا ہے جب پاکستان کے خلاف ایران اور بھارت ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت کی شہ پر دسمبر 2017ء میں ایرانی چاہ بہار کے رسمی افتتاح کے مقاصد کیا تھے؟ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا ایرانی دستاویزات کے ساتھ بلوچستان سے پکڑا جانا‘ اور ایران کی جانب سے پاکستان کی حدود میں حملے سے ایک روز قبل بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ ایران نے شکوک و شبہات کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد ایران کی جانب سے نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں حملے محض اتفاقیہ نہ تھے۔ پاکستان نے ہر دور میں ایران کا ساتھ دیا مگر ایران کا پلڑا ہمیشہ بھارت کی جانب جھکا رہا۔ حالیہ کشیدگی کو چین‘ روس اور ترکیہ جیسے مخلص دوستوں نے ختم کرا دیا ہے اور پاکستان نے بھی حملے کا جواب دے کر تحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن پاکستانی حدود میں ایرانی حملوں سے جو دراڑ پڑ چکی ہے یہ ختم نہ ہو گی اور یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ ایران نے پاکستان پر حملے کیوں کئے؟