"RS" (space) message & send to 7575

ووٹوں کی خریداری‘ کیسی جمہوریت؟

اس بار عام انتخابات شدید سکیورٹی چیلنجز کے سائے میں ہو رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں اتوار کو رات گئے تھانہ درابن پر دہشت گردوں کے حملے میں 10اہلکار شہید اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گرد کمزور اہداف کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ متعلقہ حکام کو چوکس رہنا ہو گا تاکہ پُرامن انتخابات کا انعقاد ہو سکے۔ ملک میں جب انتخابات کا میدان سجتا ہے تو امیدوں اور خوابوں کا ایک جہان آباد ہو جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب عوام اپنے مستقبل کی ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں‘ جب امیدوں کا چراغ روشن ہوتا ہے اور تبدیلی کی ہواؤں کا احساس ہوتا ہے مگر اس خوبصورت سراب کے پیچھے ایک تلخ حقیقت بھی چھپی ہے اور وہ ہے لوگوں کی تشنگی اور امیدوں کے درمیان کا وسیع فاصلہ۔ یہ موقع تین خطرناک پہلوؤں سے لپٹا ہوتا ہے جو جمہوریت کے چہرے پر بدنما داغ کی مانند ہیں کیونکہ جہاں عوام سے ووٹ خریدے جاتے ہوں‘ پارٹی ٹکٹوں کی فروخت کیلئے بولیاں لگتی ہوں اور منتخب عوامی نمائندے وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہوں وہاں کیسی جمہوریت؟ جمہوریت پر پہلا وار ووٹوں کی خریداری سے ہوتا ہے جو امیدواروں میں پارٹی ٹکٹوں کی فروخت اور ایوان میں منتخب نمائندوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے پر منتج ہوتا ہے۔ ووٹوں کی خریداری ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف عوام کی حقیقی آواز کو دبا دیتا ہے بلکہ پورے نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ووٹ کی خریداری کی جڑیں غربت اور معاشی مشکلات سے جا ملتی ہیں‘ جب لوگ بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہوں تو چند روپوں کا لالچ انہیں اپنا ووٹ بیچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ سیاسی شعور کی کمی بھی اس عمل کو آسان بنا دیتی ہے۔ اکثر لوگ نہیں سمجھتے کہ ان کا ووٹ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ ووٹ خریدنے والے امیدوار اس کم علمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ملک کے پسماندہ علاقوں میں جاگیردارانہ نظام کا وجود اس عمل کو فروغ دیتا ہے۔ غریب عوام مقامی سرداروں اور جاگیرداروں پر انحصار کرتے ہیں جو اکثر اپنی طاقت برقرار رکھنے کیلئے ووٹ خریدنے کا سہارا لیتے ہیں۔ ووٹ کی خریداری کے اثرات نہایت سنگین ہیں‘ یہ عوام کی غلط نمائندگی کا باعث بنتی ہے۔ خریدے گئے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے عوام کے حقیقی مسائل اور ضروریات سے لاتعلق ہوتے ہیں جس سے ترقی اور خوشحالی کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔
جمہوریت کی روح عوام کی رائے میں بستی ہے لیکن جب ووٹ کی خریداری کا بازار گرم ہوتا ہے تو اس کا ایک اور سنگین نتیجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت سامنے آتا ہے۔ جب انتخابات غیرمنصفانہ ہو اور ووٹوں کی خریداری عام ہو تو لوگوں کا جمہوری عمل سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے جس سے وہ سیاسی عمل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ اس نظام میں قابل‘ باصلاحیت اور ایماندار قیادت سامنے آنے کے بجائے مالدار افراد ہی عوامی نمائندے بننے کے اہل ٹھہرتے ہیں۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ پیسوں کی طاقت سے انتخابات جیتے جا رہے ہیں تو وہ جمہوری نظام کی بنیادوں پر سوال اٹھانے لگتے ہیں۔ یہ شک اور عدم اعتماد جمہوریت کی روح ہی کو نگل جاتا ہے اور ملک کو غیریقینی صورتحال کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ پسماندہ علاقوں کے ووٹر بالعموم ووٹ کی خریداری کے اعتبار سے آسان ٹارگٹ سمجھے جاتے تھے مگر اب شہری علاقوں میں بھی یہ چلن عام ہونے لگا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عطا اللہ تارڑ نے لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے127 سے مبینہ طور پر ووٹ خریدنے والے پیپلز پارٹی کے دو افراد کو گرفتار کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیگی رہنما نے کہاکہ دونوں افراد رقم کے عوض لوگوں سے پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالنے کا حلف لے رہے تھے۔ اسی طرح این اے1 چترال سے قومی اسمبلی کے ایک امیدوار طلحہ محمود پر الزامات ہیں کہ وہ ووٹرز میں راشن اور پیسے تقسیم کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماضی میں جہانگیر ترین اور شہرام ترکئی پر بھی ووٹ کی خریداری کے الزامات لگائے جا چکے ہیں۔اس مکروہ سلسلے کا ایک پہلو پارٹی ٹکٹوں کی خریداری ہے۔ یہ عمل قطعی طور پر عوام کی رائے کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ پیسے کی طاقت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس سے جمہوری عمل میں عدم مساوات پیدا ہوتی ہے اور وہ مستحق امیدوار جو عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں مگر مالدار نہیں ہوتے‘ وہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ایوانِ اقتدار ایسے افراد سے بھر جاتا ہے جو عوام کی حقیقی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے وہاں پہنچتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف نااہل اور کرپٹ عناصر کو اقتدار دلاتا ہے بلکہ پورے نظامِ حکومت کو متاثر کرتا ہے۔ منتخب نمائندے اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے‘ نتیجتاً عوامی مفادات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور کرپشن‘ بدانتظامی اور ناانصافی جیسے مسائل پھلنے پھولنے لگتے ہیں۔ پارٹی ٹکٹوں کی خریداری معاشرے میں اخلاقی اقدار کے تنزل کا باعث بنتی ہے۔ نوجوان نسل میں یہ غلط تاثر پھیلتا ہے کہ کامیابی صرف پیسے ہی سے ملتی ہے۔ محنت‘ لگن اور صلاحیت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ عمل سماجی ناہمواریوں کو جنم دیتا ہے اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اگر ہم ایک مضبوط اور حقیقی جمہوریت قائم کرنا چاہتے ہیں تو اس ناسور کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس کیلئے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن میں انتخابی قوانین میں اصلاحات‘ سیاسی جماعتوں کے مالی معاملات میں شفافیت اور عوام میں سیاسی شعور کی بیداری شامل ہیں۔
ووٹوں کی خریداری کا یہ سلسلہ اعلیٰ ایوانوں تک جاتا ہے جہاں منتخب نمائندے وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں‘ جو پارلیمنٹ میں عوام کی آواز کے برعکس اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ کسی ایک جماعت یا دور کا خاصہ نہیں بلکہ تقریباً تمام بڑی پارٹیوں میں دیکھا گیا ہے۔ ایک پارٹی سے جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچنے والے کچھ ممبران ذاتی مفادات یا پھر وزارتوں اور دیگر مراعات کے لالچ میں دوسری پارٹی کا دامن تھام لیتے ہیں۔ وفاداریاں بدلنے کے اس کھیل کے کئی منفی اثرات ہیں۔ یہ عمل پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کو کمزور کرتا ہے۔ جب ممبران پارٹی لائن سے انحراف کرتے ہیں تو پارٹی قیادت کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور اہم فیصلوں پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسرا‘ یہ عمل ووٹروں کے اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ انکے منتخب نمائندے اصولوں سے زیادہ اقتدار کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کا جمہوری نظام پر سے یقین ڈگمگا جاتا ہے۔ جب ووٹ کی خریداری اور وفاداریوں کی تجارت کا یہ کھیل کھیلا جاتا ہے تو اسکے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ بنتا ہے جو جمہوریت کے حقیقی اصولوں سے بہت دور ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے میں عوام کی بالادستی ایک خواب بن جاتی ہے‘ ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور منتخب نمائندے ان کے مفادات کے محافظ نہیں ہوتے بلکہ ان کا استحصال کرنے والے بن جاتے ہیں‘ اس صورتحال کو جمہوریت کہنا ایک تلخ حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے۔
جمہوریت ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور اس جدوجہد میں ہم اب بھی پیچھے نہیں ہیں۔ عوام میں سیاسی شعور بیدار کر کے‘ سخت اور مؤثر قوانین بنا کر‘ الیکشن کمیشن کو مضبوط بنا کر اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داریوں کو واضح کرکے ہم اس زہر کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ بات خود ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس قسم کے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم ووٹ کی خریداری اور وفاداریوں کی تجارت جیسے جرائم کو قبول کر لیں گے اور ایک برائے نام جمہوری معاشرے کی پہچان برقرار رکھیں گے یا پھر ہم اس جرم کے خلاف کھڑے ہوں گے‘ اپنی آواز بلند کریں گے اور ایک حقیقی جمہوری معاشرے کی بنیاد رکھیں گے جہاں ووٹ کی کوئی قیمت نہ ہو اور وفاداریاں خریدی نہ جا سکیں؟ یہ انتخاب ہمیں خود کرنا ہے‘ دونوں راستے ہمارے پاس موجود ہیں‘ درست راستے کا انتخاب ہی ہمارے بہتر مستقبل کا تعین کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں