"RS" (space) message & send to 7575

پاور شیئرنگ فارمولہ

عام انتخابات کے دوسرے دن جب مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کیلئے میاں شہباز شریف کو ٹاسک سونپا تو خیال تھا کہ سیاسی جماعتیں ملکی حالات کے تناظر میں وقت ضائع کیے بغیر حکومت سازی کا عمل مکمل کرنا چاہیں گی۔ بلاول بھٹو نے بھی مسلم لیگ (ن) کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کو ووٹ دینے کا اعلان کرکے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی کیونکہ ان دونوں بڑی جماعتوں اور ایم کیو ایم کے اتحاد سے ایوان کے اندر مطلوبہ تعداد پوری ہو رہی تھی مگر پھر پاور شیئرنگ فارمولے پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اختلاف ہوا۔ پیپلز پارٹی وزارتِ عظمیٰ اور وفاقی وزارتوں سے تو دستبردار ہو گئی مگر صدرِ مملکت‘ سپیکر قومی اسمبلی‘ قائمہ کمیٹیوں کی سرابرہی‘ چاروں صوبوں کے گورنرز کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینیٹ جیسے آئینی عہدوں کا مطالبہ کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت میں رہتے ہوئے بھی کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو پاور شیئرنگ کا یہ فارمولہ قبول نہ تھا کیونکہ اس صورت میں حکومتی ناکامی کی ساری ذمہ داری مسلم لیگ (ن) پر عائد ہوتی اور آگے چل کر سیاسی قیمت بھی تنہا مسلم لیگ (ن) کو ہی چکانا پڑتی۔ سو مذاکرات میں ان تحفظات کا اظہار کیا گیا اور پیپلز پارٹی کو وزارتِ عظمیٰ کے علاوہ وفاق میں شراکتِ اقتدار پر راضی کر لیا گیا۔ ڈیڈ لاک ختم ہونے کے بعد وفاق میں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے وزرا ہوں گے۔ پاور شیئرنگ کے نئے فارمولے کے تحت صدارت‘ سپیکر شپ اور گورنرز کے عہدے پیپلز پارٹی کو دیے جائیں گے جسکے بدلے مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنانے میں حمایت کرے گی۔ دیکھا جائے تو پاور شیئرنگ کے نئے فارمولے کے تحت پیپلز پارٹی کو ڈیمانڈ سے زیادہ ملا ہے مگر اب (ن) لیگ کیساتھ ساتھ پی پی پی بھی معاملات کی ذمہ دار ہو گی۔ دونوں جماعتوں کے مابین پاور شیئرنگ کے اس فارمولے میں بھی اختلافات ہیں۔
پی ٹی آئی بھی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کی دعویدار ہے‘ وہ اس طرح کہ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ انتخابات میں ان کی 180کے قریب سیٹیں ہیں جنہیں دھاندلی کر کے کم کیا گیا۔ پی ٹی آئی پُرامید ہے کہ جب اسے الیکشن کمیشن یا عدالت سے اس کی سیٹیں واپس مل جائیں گی تو وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی‘ فی الحال وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاج کر رہی ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان کی چھوٹی جماعتیں بھی انتخابات کے بعد مسلسل احتجاج کر رہی ہیں۔ الیکشن سے قبل کسی حد تک مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا تاثر تھا۔ سندھ اور بلوچستان کی چھوٹی جماعتوں کا جھکاؤ اس تاثر کو تقویت دیتا تھا مگر الیکشن کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ غیرمتوقع نتائج کو دیکھ کر قوم پرست‘ مذہبی و علاقائی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ ملا رہی ہیں۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے الیکشن کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام اور چیف الیکشن کمشنر سمیت ممبرانِ الیکشن کمیشن سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ جی ڈی اے کو توقع تھی کہ وہ سندھ سے کچھ سیٹیں حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی مگر سندھ اسمبلی کے 130کے ایوان میں جی ڈی اے کو صرف دو نشستیں ہی حاصل ہو سکی ہیں۔ جی ڈی اے کے رہنما اور مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی نے انتخابی نتائج کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سندھ سے حاصل ہونے والی دو نشستوں کو احتجاجاً چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ جی ڈی اے کے احتجاج کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں وہ تھرپارکر‘ بدین‘ لاڑکانہ‘ دادو‘ شکارپور اور میرپور خاص میں یہ نشستیں حاصل کرتی رہی ہے مگر اس بار ان اضلاع میں بھی نشستیں حاصل کرنے سے محروم رہی جہاں اس کا مضبوط ووٹ بینک تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں چار جماعتوں نے پہیہ جام ہڑتال کر رکھی ہے جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی ‘ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ‘ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ جے یو آئی اگرچہ اس چار جماعتی احتجاج میں شریک نہیں؛ تاہم مبینہ دھاندلی پر سب سے زیادہ ردعمل کا اظہار جے یو آئی نے کیا ہے۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے وہ راز بھی افشا کر دیے جو عموماً زیر بحث نہیں لائے جاتے۔ مولانا اس قدر دلبرداشتہ ہیں کہ انہوں نے پارلیمانی سیاست چھوڑنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ''ہم نے اپنی جنرل کونسل سے پارلیمانی سیاست چھوڑنے کی سفارش کی ہے کیونکہ ہمارے فیصلے عوام نہیں کوئی اور کرتا ہے‘‘۔
ایسے موقع پر جب سیاسی جماعتیں الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھا رہی ہیں‘ کمشنر راولپنڈی کی جانب سے انتخابات پر سنگین الزامات اعلیٰ سطحی تحقیقات کا تقاضا کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر کمشنر راولپنڈی کے الزامات کو مسترد کیا ہے کہ ڈویژن کا کمشنر نہ تو ڈی آر او‘ آر او یا پریذائیڈنگ افسر ہوتا ہے اور نہ ہی الیکشن کے کنڈکٹ میں اس کا کوئی براہِ راست کردار ہوتا ہے؛ تاہم الیکشن کمیشن نے اس معاملے کی جلد از جلد انکوائری کرانے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی راولپنڈی کے ڈی آر او اور متعلقہ آر اوز کے بیانات قلمبند کرے گی۔ امید کی جانی چاہیے کہ کمیٹی تمام حقائق قوم کے سامنے لائے گی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں دو دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی شراکتِ اقتدار کے معاملات میں مصروف ہیں جبکہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ بڑی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اقتدار کی منتقلی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کو اگلے پانچ سال تک انتظار کرنا ہوتا ہے‘ اس لیے اس موقع پر غیر معمولی ردِعمل کا اظہار کیا جاتا ہے تاہم جب حکومت قائم ہو جائے تو حالات معمول پر آ جاتے ہیں۔ جو لوگ مسلسل احتجاج کر رہے ہیں اور الیکشن کو کالعدم قرار دینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر رہے ہیں‘ نہ کلی طور پر اس طبقے کی حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اُس طبقے کی جو احتجاج سے یکسر بے نیاز ہو کر حکومت سازی میں مصروف ہے۔ سیاسی جماعتوں کو کوئی ایسی درمیانی راہ نکالنا ہو گی جس سے نظام متاثر نہ ہو۔ سیاستدان کبھی بھی اپنے دروازے بند نہیں کرتے سو جو جماعتیں حکومت سازی میں پیش پیش ہیں‘ انہیں بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور الیکشن پر تحفظات کا اظہار کرنے والی جماعتوں کو باور کرانا چاہیے کہ جن حلقوں میں دھاندلی کے ٹھوس شواہد ان کے پاس ہیں‘ وہ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جائیں کیونکہ وہی پہلا قانونی فورم ہے۔ اگر الیکشن کمیشن سے رجوع کے باوجود تحفظات ختم نہیں ہوتے تو عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔ ان تحقیقات کے بعد جو بھی نتائج سامنے آتے ہیں‘ انہیں قبول کیا جائے کیونکہ آگے بڑھنے کا یہ طریقِ کار ہے۔ عام انتخابات جن حالات اور مالی مشکلات میں ہوئے وہ محتاجِ بیان نہیں‘ تقریباً 50 ارب روپے سے زیادہ کے حکومتی اخراجات ہوئے ‘ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے جو اخراجات کیے‘ وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں‘ اس لیے الیکشن کو کالعدم قرار دینے کی سوچ کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ البتہ بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذاکرات کی پیشکش درحقیقت اطمینان کیساتھ حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے کا پروانہ ہو گی کیونکہ تحقیقات کے نتیجے میں قائم ہونیوالی حکومت کو اخلاقی و قانونی برتری حاصل ہو جائے گی۔ اس کے بعد الیکشن نتائج پر کسی کو شکوہ ہو گا اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے پاس احتجاج کا کوئی جواز رہے گا۔ ایک لیڈر نے کہا کہ میں چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا‘ اس سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ پاور شیئرنگ اور عہدوں کی بندر بانٹ میں مصروف بڑی سیاسی جماعتیں ملک و قوم کے محفوظ مستقبل کی خاطر مذاکرات کی پیشکش کریں گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں