"RS" (space) message & send to 7575

امن کے خود ساختہ پیمانے

دمشق میں اپنے سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دینا ایران کیلئے ضروری تھا‘ سو جواب دے دیا گیا۔ ایران کی جانب سے داغے گئے بیلسٹک میزائل اور ڈرونز کی تمام تر تفصیلات میڈیا پر آ چکی ہیں اس لیے ہم یہاں ان کا ذکر نہیں کریں گے۔ جنگیں انسانیت کیلئے تو مہلک ہیں ہی‘ معیشت کیلئے بھی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ محض ایک رات میں اسرائیل کو ایرانی حملے روکنے کیلئے تقریباً ایک ارب 35کروڑ ڈالر خرچ کرنا پڑے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ایرانی حملے کے بعد یہ معاملہ ختم ہو جائے گا؟ ہماری دانست میں یہ منظر نامہ خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ حملے کے بعد اقوامِ متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ یہ کارروائی اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51کے تحت جائز دفاع میں کی گئی ہے جس کا مقصد دمشق میں ہمارے سفارت خانے کے خلاف صہیونی جارحیت کا جواب دینا تھا۔ سفارتی مشن نے کہا کہ معاملہ یہاں ختم سمجھا جا سکتا ہے۔ مطلب واضح ہے کہ ایران اس کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا۔ پاکستان کی طرح دیگر غیرجانبدار فریق بھی معاملے کو یہیں ختم کرنے پر زور دے رہی ہیں‘ تاہم اسرائیل کے عزائم خطرناک دکھائی دیتے ہیں۔ اسرائیل نے ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں نقصان پہنچانے والوں کو غزہ بنا دیں گے۔ اسرائیلی وزیر جنگ بینی گینٹز‘ جو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بھی ہے‘ نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف معاملہ ختم نہیں ہوا‘ علاقائی اتحادیوں کے ساتھ ایران کو جواب دیں گے۔ اس موقع پر اسرائیل نے اپنے ان اتحادیوں کا بالخصوص شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے ایران کے حملوں کو ناکام بنانے میں اس کا ساتھ دیا۔ امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کے بڑے اتحادی ہیں جنہوں نے ایران کے حملوں کو روکنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔برطانوی وزیراعظم رشی سوناک کا کہنا تھا کہ برطانیہ ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے کے لیے کاوشوں کا حصہ بنا اور برطانوی طیاروں نے متعدد ایرانی ڈرون مار گرائے۔ اسی طرح امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی افواج نے ایران کی جانب سے اسرائیل پر داغے جانے والے تقریباً تمام ڈرونز اور میزائلوں کو مار گرانے میں اسرائیل کی مدد کی ۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے اسرائیل پر حملے کے جواب میں امریکی فورسز نے 70 سے زائد ڈرونز اور کم از کم تین بیلسٹک میزائل مار گرائے۔ تاہم اسرائیل کے دفاع کا ذمہ دار امریکہ بھی اس کشیدگی کو بظاہر طول نہیں دینا چاہتا۔ امریکہ نے اسرائیل کو باور کرایا ہے کہ اگر وہ ایران پر جارحیت کا خواہاں ہے تو امریکہ ایران کے خلاف جارحانہ آپریشن میں اسرائیل کا ساتھ نہیں دے گا۔ امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک اس کشیدہ صورتحال میں اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ نہتے اور بے یار ومددگار فلسطینیوں پر حملے میں بھی مذکورہ ممالک اسرائیل کے حامی ہیں۔ اس کے برعکس ایران کی حمایت میں چند ایک ممالک ہی سامنے آئے ہیں ان میں عراق‘ شام اور یمن شامل ہیں۔ افغان طالبان نے بھی اسرائیل پر ایرانی حملے کو جائز قرار دیا ہے۔
اسرائیل اور امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی اسرائیل پر خطرات کے بادل منڈلانے لگتے ہیں تو امریکی فورسز حرکت میں آجاتی ہیں۔ 2015ء میں سابق امریکی صدر براک اوباما اور نیتن یاہو کی ملاقات میں اس دفاعی معاہدے کو 30 ارب ڈالر تک توسیع دی گئی تھی‘ اس لیے اسرائیل پر جب بھی باہر سے حملہ ہو گا امریکہ اس کا دفاع کرے گا۔ ایرانی حملے کے فوری بعد مغربی ممالک کی پریشانی‘ ہنگامی بنیادوں پر اجلاس طلب کرنا‘ امریکہ اور یورپی یونین کا سر جوڑ کر بیٹھنا اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیل پر جب بھی مشکل وقت آئے گا مغربی دنیا ایسے ہی بے تاب ہو گی۔ امریکہ اور برطانیہ کے بقول انہوں نے ایران کے اسرائیل پر حملے کو 99 فیصد ناکام بنا دیا۔ اسرائیل کا بظاہر کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی بے چینی دیدنی ہے۔ دنیا کو انسانیت کا درس دینے والے یہ ممالک غزہ میں 35 ہزار کے قریب انسانوں کے بے دردی کے ساتھ شہید کیے جانے پر خاموش ہیں۔ غزہ میں 20 لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے ہیں‘ وہاں کے باسی چند نوالوں کو ترس رہے ہیں لیکن اسرائیلی فورسز امدادی قافلوں کی راہ میں بھی رکاوٹ بنی کھڑی ہیں۔ غزہ کے مکینوں پر اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم پر ان ممالک کی صفوں میں مکمل خاموشی چھائی رہی ہے۔ غزہ کی کوئی عمارت مکمل طور پر محفوظ نہیں رہی حتیٰ کہ ہسپتال اور سکولوں کی عمارتوں کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن مغربی ممالک نے فلسطینیوں کے حقِ آزادی کیلئے کبھی آواز بلند نہیں کی۔ مجال ہے مغربی دنیا نے اسرائیل کی مذمت کی ہو۔ مغربی ممالک کے خود ساختہ امن کے پیمانے ہیں جس کا مشاہدہ ہمیں وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔
ایرانی حملوں کے بعد جی سیون ممالک نے غزہ کا نام لیا ہے۔ امریکی صدرجوبائیڈن کی جانب سے بلائے گئے ورچوئل اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں جلد امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ کشیدگی کم ہونے سے خطے میں استحکام آئے گا۔ اسرائیل کی درخواست پر طلب کیے گئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں چین نے ایرانی حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو قراردیتے ہوئے کہا کہ یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے نتیجے ہی میں اسرائیل کو جوابی کارروائی کے طور پر ایرانی حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چینی مندوب نے اس موقع پر کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی لازم ہے تاکہ انسانی المیے کی راہ روکی جا سکے۔ اس حوالے سے ایک اہم اجلاس امریکی قیادت کا بھی ہوا جس میں اگرچہ ظاہر یہ کیا گیا کہ امریکہ نے ایران پر حملے میں اسرائیل کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے‘ تاہم جوبائیڈن نے اسرائیل کیلئے 14 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج سے متعلق بل کی منظوری کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ مغربی دنیا کی پشت پناہی اور مالی تعاون اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ اگر اسرائیل کو مغربی ممالک کی حمایت حاصل نہ ہو تو اس کیلئے فلسطین کے خلاف جنگ جاری رکھنا بھی آسان نہ ہو گا‘ کجا کہ ایران کے خلاف جارحیت کی منصوبہ بندی کی جائے۔ اقتدار کو طول دینے کیلئے کیے گئے اقدامات کبھی پائیدار نہیں ہوتے۔ حماس کے خلاف چھ ماہ کی اسرائیلی جنگ ناکامی سے عبارت ہے۔ نیتن یاہو نے حماس کے خاتمے کا جو دعویٰ کیا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ اربوں ڈالر جنگ میں جھونکنے کے باوجود نہ حماس کو ختم کر سکے‘ نہ یرغمالیوں کو رہا کرایا جا سکا‘ اس لیے اسرائیل خفت مٹانے کیلئے جنگ کا دائرہ بڑھانا چاہتا ہے۔ ایران اسرائیل کشیدگی بڑھتی ہے تو مشرقِ وسطیٰ اس کی لپیٹ میں آ جائے گا یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک سمیت خطے کے دیگر ممالک کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
سعودی اعلیٰ سطح وفد کا دورۂ پاکستان اگرچہ پہلے سے طے شدہ ہے تاہم اس میں خطے کی سکیورٹی صورتحال کے امور بھی زیر غور آئیں گے۔ اسی طرح 22 اپریل کو ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہو گا۔ تاثر ہے کہ بڑے ممالک اثر و رسوخ استعمال کریں گے اور یہ جنگ بڑھنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ایسا بالعموم اس وقت ہوتا ہے جب نشانہ مغربی ممالک میں سے کوئی ہو‘ یوکرین پر حملہ ہوا تو مغربی دنیا اب تک اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب اسرائیل اور بڑے ممالک جنگ کے حق میں ہوں گے تب جنگ کو کیسے ٹالا جا سکے گا؟ جیسے2001ء میں افغانستان پر حملے کے وقت امریکہ کارروائی چاہتا تھا تو اس کے ایما پر دنیا اس کی ہمنوا بن گئی۔ دو درجن سے زائد ممالک نیٹو افواج کا حصہ تھے۔ اسرائیل نیتن یاہو کی قیادت میں ایک بڑی جنگ کیلئے تیار ہے اور اس جنگ میں مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے‘ اس کے مقابلے میں مسلم ممالک کی صفوں میں کس قدر اتحاد ہے‘ ہمارے لیے یہ اہم ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں