سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حقدار ہے۔ پی ٹی آئی اگرچہ متاثرہ فریق ضرور تھی مگر وہ اس کیس میں درخواست گزار نہیں تھی‘ سنی اتحاد کونسل درخواست گزار تھی جس نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ 77مخصوص نشستیں‘ جو سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیے تھیں‘ وہ دیگر جماعتوں کو دے دی گئیں۔ الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی بینچ نے چار مارچ کو متفقہ فیصلے میں کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔ الیکشن کمیشن کے چار اراکین نے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ دیا۔ الیکشن کمیشن کے ایک رکن بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ میں آئین کے آرٹیکل 51اور 106میں ترمیم تک مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کے بجائے خالی رکھنے کا فیصلہ دیا تھا مگر انہوں نے الیکشن کمیشن کے باقی چاروں ارکان سے اس حد تک اتفاق کیا کہ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو الاٹ نہیں کی جا سکتیں کیونکہ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے ترجیحی فہرست وقت پر جمع نہیں کرائی گئی۔ اس کے بعد سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر دیا تاہم پشاور ہائی کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا اور سنی اتحاد کونسل کی درخواست خارج کر دی۔ بعد ازاں سنی اتحاد کونسل نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اٹارنی جنرل کی استدعا پر سپریم کورٹ کا 13رکنی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا جس نے اس اہم کیس کا فیصلہ سنایا۔ آٹھ اور پانچ کے تناسب سے دیے جانے والے اس فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کا حقدار نہیں سمجھا گیا۔ سو تینوں اعلیٰ فورمز الیکشن کمیشن‘ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کر دیا اور پی ٹی آئی‘ جو اس کیس میں درخواست گزار نہیں تھی‘ کے حق میں فیصلہ آیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر حکمران جماعت کے رہنما سپریم کورٹ کے فیصلے کو ''سیاسی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کے مارچ میں دیے گئے فیصلے کو ماورائے آئین قرار دیا گیا ہے اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی کالعدم قرار پایا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے مطابق اس فیصلے پر عملدرآمد چھ مئی ہی سے تصور ہو گا۔ اس فیصلے میں پی ٹی آئی کو حکم دیا گیا ہے کہ 15روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنی فہرست الیکشن کمیشن کو جمع کروائے۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے جو امیدوار آزاد حیثیت میں عام انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں وہ اب اپنی جماعت کی وابستگی سے متعلق بیانِ حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں اور الیکشن کمیشن اس جماعت کے ساتھ رابطہ کرکے تصدیق کرے اور تصدیق ہونے کے سات روز کے اندر اس امیدوار کو اس جماعت کا رکن تصور کیا جائے۔
پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن تبدیل ہو جائے گی۔ حکمران اتحاد کو ایوان کے اندر اگرچہ نمبر گیم کے حوالے سے کوئی خطرہ نہیں ہے تاہم مخصوص نشستیں ملنے کے بعد حکمران اتحاد کو جو دوتہائی اکثریت حاصل ہوگئی تھی وہ ختم ہو جائے گی۔ دوسری طرف خیبرپختونخوا میں سینیٹ کی 11نشستوں پر الیکشن ہونے کے بعد پی ٹی آئی سینیٹ میں بھی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی 19‘ 19 نشستیں ہیں‘ اگر پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا میں سینیٹ کی 11میں سے 9نشستیں بھی مل گئیں تو پی ٹی آئی کی سینیٹ میں 28نشستیں ہو جائیں گی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اس فیصلے کو سیاسی قرار دیتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آزاد اراکین نے خود لکھ کر دیا کہ وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اور سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ہیں۔ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے یہ 80لوگ کبھی سپریم کورٹ میں آکر کھڑے نہیں ہوئے کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں اور انہیں سنی اتحاد میں کیوں شامل ہونا پڑا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ آئین کی تشریح عدالت کا اختیار ہے مگر بات آئینی تشریح سے آگے نکل گئی ہے۔وزیر قانون کے بقول فیصلہ آئین کے آرٹیکل 51 کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں سارا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈالا گیا ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن ٹھیک نہیں کروائے۔ پارٹی ٹکٹ اور ڈیکلریشن بھی جمع نہیں کروائے۔ اس بنا پر الیکشن کمیشن نے اس کا انتخابی نشان واپس لیا۔ تحریک انصاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو قانون و انصاف پر مبنی قرار دے رہی ہے اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں سیاسی انارکی کم ہو جائے گی؟ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے تحریک انصاف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے‘ مگر پی ٹی آئی نے 13 رکنی فُل کورٹ کے اس فیصلے کو قبول کیا ہے‘ اگر فیصلہ توقع کے برعکس آتا تو کیا تب بھی اُن کا مؤقف یہی ہوتا؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی دباؤ میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی تمام ترذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد کی ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا‘ لیکن کیا الیکشن کمیشن کے فیصلے کو محض ماورائے آئین قرار دے دینا کافی ہے؟ سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے کوئی ماورائے آئین اقدام اٹھایا ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک بڑی سیاسی جماعت کو امتحان سے گزرنا پڑا حتیٰ کہ سپریم کورٹ کو فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی نوبت پیش آئی تو کیا الیکشن کمیشن کیلئے کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جانی چاہیے؟ ماضی میں سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں پارلیمان سے رجوع کیا ‘ کیا اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ پارلیمان کی صوابدید پر یہ فیصلہ چھوڑ سکتی تھی؟ جس طرح الیکشن کمیشن کے بارے کہا گیا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق اس کا فیصلہ درست نہیں تھا‘ حکمران جماعتیں اور بعض آئینی ماہرین ایسا ہی خیال سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بارے ظاہر کررہے ہیں۔ اس فیصلے سے پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ فائدہ خیبرپختونخوا میں ہو رہا ہے جس سے جے یو آئی متاثر ہو گی ‘ لیکن مولانا فضل الرحمن نے اس فیصلے کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ جزوی طور پر فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں ‘ انہوں نے بطور جماعت فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی کارروائی نہ کرنے کا بھی کہا۔ صاف سی بات ہے کہ پی ٹی آئی کی جو نشستیں جے یو آئی کے پاس گئی تھیں‘ وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔قوی امکان ہے کہ حکومت براہ راست اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرے مگر الیکشن کمیشن کی طرف سے دی گئی سیٹوں سے جو اراکین محروم ہوں گے وہ اپیل کریں۔سوال یہ بھی ہے کہ جو لوگ مخصوص نشستوں پر نامزد ہوئے ان کا سٹیٹس اب کیا ہو گا؟ اگر غلطی الیکشن کمیشن سے ہوئی ہے تو اراکین کی کریڈیبلٹی کو نقصان کیوں پہنچایا گیا؟
مخاصمت کا یہ کھیل آخر کہیں جا کر رکے گا بھی یا قوم ہر کچھ عرصہ کے بعد ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوتی رہے گی؟ سیاسی مکالمہ ہی مسائل کا دیرپا حل ہے جس کا بلاتاخیر آغاز ہونا چاہیے۔ 2017ء میں بھی تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ کرکے ایک منتخب وزیراعظم کو رخصت کیا گیا تھا‘ کیا اس کے بعد سیاسی تناؤ میں کمی آ گئی تھی؟ سیاسی جماعتوں کو ساتھ نہ بیٹھنے کی سوچ ترک کرنی ہو گی۔ پی ٹی آئی کو بطور جماعت سپریم کورٹ کے فیصلے سے فائدہ ہے اور پارٹی کی ساکھ بحال ہوئی ہے‘مگر سوال یہ ہے کہ ہم ملکی استحکام کیلئے ویسی کوشش کیوں نہیں کرتے جیسی کوشش ہم اپنی ذات اور پارٹی کیلئے کرتے ہیں؟