"RS" (space) message & send to 7575

بے مہار احتجاج سے بچیں

اتحادی حکومت کو اقتدار میں آنے کے کچھ ماہ بعد ہی بیک وقت کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے‘ ان میں معاشی چیلنجز سرفہرست ہیں جبکہ اپوزیشن اور عوامی احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ مہنگائی‘ بجلی بلوں اور ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف جماعت اسلامی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کہتے ہیں کہ پُرامن احتجاج ان کا جمہوری اور آئینی حق ہے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے مطالبات مان نہیں لیے جاتے۔بقول اُن کے حکومت اگر ایک گھنٹے میں مطالبات تسلیم کر لیتی ہے تو وہ ایک گھنٹے میں دھرنا ختم کر دیں گے۔ شہرِ اقتدار میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث سکیورٹی فورسز نے اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو دھرنے کی اجازت نہیں دی۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے کارکنان اور قیادت کو روکے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے پلان بی کے تحت جڑواں شہروں کے مختلف علاقوں میں دھرنا دیا۔ جمعہ کے روز جڑواں شہروں کی متعدد شاہراہوں پر احتجاج ہوتا رہا‘ اب راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جماعت اسلامی کا دھرنا جاری ہے۔ دھرنے میں شامل لوگوں کی تعداد سے قطع نظر اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا احتجاج ابھی تک پُرامن ہے جس کا کریڈٹ بہر صورت قیادت کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے کارکنوں کو بے مہار نہیں چھوڑا۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کا پوری نہ ہونا انہیں احتجاج پر مجبور کرتا ہے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ غربت اور بنیادی ضرویات سے محرومی جب حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو لوگ اپنی آواز بلند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے جسے روکا نہیں جا سکتا‘ کہا جا رہا ہے جماعت اسلامی کے دھرنے میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہے جو جماعت اسلامی سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود مہنگائی کے خلاف اس احتجاج کا حصہ بنے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ خالصتاً عوامی احتجاج دکھائی دیتا ہے لیکن اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ عناصر ایسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کو چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عناصر احتجاجی جذبات کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز بیانات‘ پروپیگنڈے اور غلط معلومات کی بوچھاڑ کر کے وہ عوام کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اقتدار کے کھیل میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا ہوتا ہے‘ وہ عوام کے اصل مسائل سے زیادہ اپنی سیاسی مخالفت کو فروغ دینے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ پی ٹی آئی اس جلسے کو کیش کرانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اسے جلسے کی اجازت نہیں مل رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے احتجاج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی نے بھی جمعہ کے روز کئی مقامات پر احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن پی ٹی آئی کے لوگ بہت کم تھے جسے خانہ پُری کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا۔ نو مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی اپنے کارکنان کو باہر نکالنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ‘شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی جے یو آئی سمیت ہر اس جماعت کے ساتھ ہاتھ ملانے کیلئے تیار ہے جس کے پاس افرادی قوت ہے۔
ایسے موقع پر جب حکومت معاشی مسائل میں الجھی ہوئی ہے اور اگست کے وسط میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایگزیکٹو سطح پر معاہدہ طے پانے کا امکان ہے‘ عوامی اور سیاسی احتجاج شروع ہونا مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لئے حکمت و بصیرت سے ہی احتجاج سے نمٹنا دانشمندی کہلائے گا۔ معمولی غلطی حکومت کو بند گلی میں داخل کر سکتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب عوام کی آواز کو طاقت کے زور پر دبایا جاتا ہے تو وہ خاموش طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔اکثر حکومتیں احتجاج کا غلط اندازہ لگا کر سنگین غلطیاں کرتی ہیں۔ ایک عام غلطی یہ ہوتی ہے کہ حکومت احتجاج کو نظر انداز کرتی ہے۔ یہ ایک خطرناک رویہ ہے کیونکہ اس سے احتجاج کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ جب عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آواز کو سنا نہیں جا رہا تو وہ زیادہ شدت کے ساتھ احتجاج کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ ہوتا جسے روکنے کیلئے انتظامیہ طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ جب حکومت احتجاج کو قابو کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس سے صورتحال مزید بگڑتی ہے۔ نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے بلکہ حکومت کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت احتجاج کے پیچھے چھپی ہوئی وجوہات کو سمجھے اور ان کا حل تلاش کرے۔ چند روز قبل جڑواں شہروں کو جوڑنے والے اہم پوائنٹ فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک نے بھی دھرنا دیے رکھا جو تقریباً ایک ہفتہ جاری ہے ‘اس دوران شہریوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔اگر جماعت اسلامی کادھرنا بھی چند روز تک جاری رہتا ہے تو شہریوں کے علاوہ حکومت کیلئے بھی خطرہ ہو گا کیونکہ طویل عرصے تک جاری رہنے والادھرنا کسی بھی حکومت کے لیے ایک چیلنج سے بڑھ کر خطرہ بن جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا طوفان ہے جس کی شدت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور جسے قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
طویل احتجاج سے معیشت کوبھی نقصان پہنچتا ہے۔ کاروبار متاثر ہوتے ہیں‘ سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنے پر ملک کی معاشی حالت انتہائی نازک ہو سکتی ہے۔ طویل احتجاج سے سوشل میڈیا پر حکومت کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت آج کے دور میں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک طرف تو احتجاج کرنے والے اپنی بات کو بھر پور طریقے سے پھیلاتے ہیں تو دوسری طرف حکومت کے پاس اپنی وضاحت پیش کرنے کے محدود مواقع ہوتے ہیں۔ طویل احتجاج سے ملک میں عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ جب عوام سڑکوں پر ہوں اور حکومت اپنے فیصلوں پر قائم رہے تو ملک میں کشیدگی کی صورتحال رہتی ہے۔ یہ کشیدگی وقت کے ساتھ ساتھ تشدد کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس سے ملکی امن و امان کو شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ مطالبات کا حل چاہتے ہیں‘ حکومت سے بات چیت کیلئے لیاقت بلوچ جیسے متحمل مزاج شخص کو مقرر کیا گیا ہے۔ حکومت نے بھی جماعت اسلامی کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ فریقین معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
بجلی بلوں میں 500 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو بل میں 50 فیصد رعایت‘ بجلی بلوں میں سلیب ریٹ کا خاتمہ‘ آئی پی پیز کے ساتھ کپیسٹی پیمنٹ اور ڈالر میں ادائیگی کا معاہدہ ختم کرنے اور غریب تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکسوں کا خاتمہ جماعت اسلامی کے اہم مطالبات ہیں۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ خالصتاً عوامی مسائل ہیں‘ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مذاکرات کی پیشکش سے آگے بڑھتے ہوئے عملی اقدام کرے۔ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ‘ طارق فضل چودھری اور امیر مقام شامل ہیں۔ حکومت کو جماعت اسلامی کے ساتھ فوری مذاکرات کرنا ہوں گے ‘ اگر پی ٹی آئی نے بھی اس احتجاج میں اپنا وزن ڈال دیا تو حکومت کے سامنے بے مہار احتجاجیوں سمیت مطالبات کی ایک طویل فہرست ہو گی جسے پورا کرنا حکومت کیلئے آسان نہ ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں