ایک عشرہ قبل‘ اگست کے مہینے میں تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج تھی۔ یہ احتجاج کئی جگہوں پر پھیلا ہوا تھا۔ پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی اسمبلی نے احتجاجاً سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو اپنے استعفے جمع کرا دیے تھے۔ خان صاحب آزادی مارچ کے نام سے احتجاج شروع کر چکے تھے جبکہ انہیں اس وقت کے بااثر حلقوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا طوطی بول رہا تھا۔ شاہ محمود قریشی‘ جہانگیر خان ترین‘ علیم خان اور جاوید ہاشمی جیسے قد آور سیاستدان خان صاحب کے ہمنوا تھے اور کئی نامور سیاستدان دھڑا دھڑ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر رہے تھے۔ آئے روز خان صاحب پی ٹی آئی میں شمولیت پر کسی نہ کسی کو پارٹی کا رومال پہنا کر اپنے بڑھتے لشکر کا فاتحانہ انداز میں اعلان کرتے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت شدید دباؤ میں تھی‘ یہ صورتحال یقینا حکومت کیلئے باعثِ تشویش تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے خان صاحب کے ساتھ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی اور پی ٹی آئی کے ایک کے علاوہ تمام مطالبات پر اتفاق ہو چکا تھا مگر یہ کوششیں بے سود رہیں کیونکہ خان صاحب وزیراعظم کے استعفے سے کم پر راضی نہ تھے‘ اس لیے نواز شریف فکر مند تھے سو انہوں نے پی ٹی آئی کے خلاف سیاسی اتحاد تشکیل دینے کی حکمت عملی اپنائی اور آصف علی زرداری کو ملاقات کیلئے جاتی امرا مدعو کیا۔ 23اگست 2014ء کو زرداری صاحب نے جاتی امرا میں میاں صاحب سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ مدت پوری کرنا پارلیمنٹ کا حق ہے۔ دیگر چھوٹی جماعتوں نے بھی میاں صاحب کو حمایت کا یقین دلایا جس سے ایوان مضبوط ہو گیا اور ایک ماہ کے اندر وزیراعظم کے استعفے کا جو مطالبہ کیا جا رہا تھا وہ کمزور پڑ گیا۔ خان صاحب اپنے پارٹی اراکین اور کارکنان کے ساتھ 126دن تک اسلام آباد میں سراپا احتجاج رہے مگر چونکہ ایوان مضبوط تھا اور سیاسی جماعتیں حکمران جماعت کا ساتھ دے رہی تھیں اس لیے قبل از وقت حکومت کے خاتمے کا خواب پورا نہ ہو ا۔
سیاسی بحرانوں سے نکلنے کے لیے سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور تعاون بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت اپنے بل بوتے پر کسی بحران کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے ہی اسے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ پارٹی قائد پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کونسی حکمت عملی اپناتا ہے۔ پی ٹی آئی کو اس وقت سیاسی ساکھ کی بحالی کے چیلنج کا سامنا ہے‘ ایسی صورتحال میں اگر پارٹی قیادت دیگر جماعتوں کیلئے اپنے دروازے بند کیے رکھے گی تو مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں نکلے گا۔ عام انتخابات کے بعد جب مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی نے حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک چلانے کا اعلان کیا تو خیال تھا کہ اس اتحاد کی بدولت پی ٹی آئی سیاسی بحران سے باہر نکل آئے گی مگر سیاسی اتحاد کیلئے جس اعتماد اور لچک کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے تھا وہ دیکھنے میں نہ آیا۔ جے یو آئی اور پی ٹی آئی قیادت کی کئی ملاقاتوں کے باوجود اجنبیت برقرار رہی۔ اُدھر مولانا بلا شبہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں لیکن وہ جب بھی مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملتے ہیں تو اس ملاقات میں اپنائیت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ مولانا اور حکومتی اتحاد میں شامل رہنماؤں کی ملاقاتیں خوشگوار ماحول میں ہوتی ہیں۔ جے یو آئی کو سیاسی ساکھ کی بحالی جیسے چیلنج کا سامنا نہیں ہے‘ نہ ہی پی ٹی آئی کی طرح مقدمات کا سامنا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مولانا کی ناراضی وقتی ہے اور وہ جلد حکومتی قافلے میں آ ملیں گے۔ مولانا اور صدر آصف علی زرداری کی ملاقات اس مؤقف کو تقویت دیتی ہے۔ مولانا پر پاور پالیٹکس کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے لچکدار رویے کی بدولت حکومتوں کا حصہ بنتے آئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کسی کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے‘ ان کے بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ مراسم ہیں۔ ماضی کے اوراق پلٹنے سے معلوم پڑتا ہے کہ جس جماعت نے زیادہ عرصے تک رنجشوں کو پالے رکھا اس نے سیاسی نقصان اٹھایا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی حریف جماعتیں سمجھی جاتی ہیں لیکن میثاقِ جمہوریت کے بعد جب بھی کسی غیر آئینی اقدام یا کسی منتخب حکومت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو دونوں جماعتیں اپنے اختلافات بھلا کر متحد ہو جاتی ہیں۔ ماضی میں اس اتحاد کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ماضی سے بہت کچھ سیکھ لیا مگر لگتا ہے پی ٹی آئی نے کچھ نہیں سیکھا۔ خان صاحب جسے اصولوں کی سیاست کا نام دیتے ہیں وہ انا کی سیاست ہے اور سیاست میں انا نہیں چلتی۔ آپ صدر آصف علی زرداری کے طرزِعمل پر غور کریں‘ وہ ضرورت پڑنے پر مولانا کے پاس چل کر گئے۔ اس طرح چل کر جانے کی سیاست میں بہت اہمیت ہے۔ خان صاحب ابھی اس سے ناواقف ہیں۔ پی ٹی آئی مارچ 2022ء سے سیاسی تنہائی کا شکار ہے اور بظاہر اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ خان صاحب اپنی سیاسی حکمت عملی پر تنہا سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ خان صاحب کے پاس بات چیت اور مذاکرات کے کئی مواقع آئے مگر انہوں نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ خان صاحب مسئلہ کشمیر کو مودی کے ساتھ سیاسی انداز سے حل کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں لیکن ملک و قوم کی خاطر اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے کے لیے وہ آمادہ نہیں ۔
خان صاحب کے لیے یہ غور کا مقام ہونا چاہیے کہ باقی سیاسی جماعتیں مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہیں‘ اس کے برعکس پی ٹی آئی پر جب مشکل وقت آیا تو اسے سہارا دینے کیلئے سیاسی جماعتیں آگے کیوں نہ بڑھیں؟ کیا یہ سیاسی جماعتوں کی پی ٹی آئی سے بے اعتنائی ہے یا خان صاحب کا رویہ اصل رکاوٹ ہے؟ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے مگر جو جماعت فیصلہ سازی میں فردِ واحد کی مرہونِ منت ہو اسے سیاسی جماعت کیسے کہا جا سکتا ہے؟ جیل میں جانے کے بعد بھی پارٹی اختیارات خان صاحب ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ پارٹی امور سے متعلق ہر فیصلہ وہی کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی حکومت بھی انہیں کی ہدایات پر چل رہی ہے۔ اس اجارہ داری سے پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ کمزور پڑ گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مشکل وقت میں جب پارٹی کو متبادل قیادت کی ضرورت پیش آئی تو پارٹی میں کوئی متبادل قیادت موجود نہیں تھی۔ جو لوگ متبادل قیادت ثابت ہو سکتے تھے خان صاحب ان پر اعتماد کیلئے تیار نہ تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ خان صاحب سے جیل میں ملاقات کرنے والا ہر شخص دعویدار ہے کہ اسے جیل سے خاص ہدایت ملی ہے۔ خان صاحب نے اس لیے بھی پارٹی میں تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط نہیں ہونے دیا کیونکہ وہ امپائر کی انگلی اٹھنے کے منتظر رہے۔ مقتدرہ کا سایہ اٹھنے کے بعد وقت کاتقاضا تھا کہ خان صاحب سیاسی حکمت عملی تبدیل کرتے اور اپنے ووٹ بینک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی کو مضبوط کرتے۔ مشکل وقت میں متبادل قیادت پارٹی کو سنبھالتی‘ سیاسی ملاقاتیں کی جاتیں لیکن اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ اس سب کے باوجود خان صاحب اب بھی کسی ایسے کرشمے کے منتظر ہیں جو انہیں سلاخوں سے نکال کر تخت پر بٹھا دے۔