حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین اب تک مذاکرات کی دو نشستیں ہو چکی ہیں‘ تیسری نشست کو نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے مگر اس سے قبل پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی حکومت پر عدم تعاون کا الزام عائد کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ انہیں اپنے بانی سے مشاورت کیلئے بار بار جیل میں جانا پڑتا ہے جہاں انہیں ملاقات میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے اس مقصد کیلئے حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات میں سہولت فراہم کی جائے۔ حکومت کی طرف سے اس کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر جب جمعہ کے روز مذاکراتی ٹیم کے ارکان بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل پہنچے تو ملاقات میں کسی قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑا جس پر انہوں نے اڈیالہ جیل کے باہر ہی اعلان کر دیا کہ جب تک بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کرائی جاتی‘ مذاکرات کا سلسلہ آ گے نہیں بڑھ سکتا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ تعاون کیا جا رہا تھا مگر خان صاحب کے ایک اشتعال انگیز ٹویٹ کے بعد تعاون میں کسی قدر کمی آئی۔ مذاکراتی ٹیم کی اس دھمکی کے بعد اتوار کے روز مذاکراتی ٹیم کے ارکان کی ملاقات بانی پی ٹی آئی سے کرا ئی گئی اور بیرسٹر گوہر علی خان کے بقول خان صاحب نے انہیں حکومت کو تحریری طور پر مطالبات پیش کرنے اور مذاکرات جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ خان صاحب کی اس ہدایت کے بعد امکان تھا کہ اب حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کا تیسرا دور جلد شروع ہو جائے گا مگر پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی نے خان صاحب سے جیل میں ملاقات کے بعد حکومت سے مذاکرات میں پیشرفت کو جوڈیشل کمیشن کے قیام سے مشروط قرار دے کر اس تاثر کو زائل کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی نو مئی اور 26نومبر کے واقعات پر سپریم کورٹ کے سنیئر جج کی سربراہی میں غیرجانبدار جوڈیشل کمیشن کے مطالبے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ 31جنوری تک مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ایک لمحے کیلئے تصور کرتے ہیں کہ حکومت پی ٹی آئی کے دونوں مطالبات کو تسلیم نہیں کرتی تو پی ٹی آئی کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ کیا پی ٹی آئی مذاکرات ختم کر کے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس وقت حکومت احتجاج کے دباؤ سے نکل چکی ہے اور پی ٹی آئی دوبارہ احتجاج کی پوزیشن میں نہیں۔ کم از کم موسم سرما میں حکومت کو احتجاج کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت معاشی بحران سے بھی بتدریج باہر نکل رہی ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں تیزی اور پی ٹی آئی کی بسیار کوششوں کے باوجود رواں مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ میں ترسیلاتِ زر میں 33فیصد اضافہ حکومتی کامیابی کی دلیل ہے۔ رواں سال معاشی میدان میں مزید کامیابیاں حاصل ہونے کی توقع بھی ہے‘ اس لیے پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کا دروازہ بند کرنے کی سوچ کا نقصان اُسی کو ہو گا۔
پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان بانی پی ٹی آئی سے ملاقات میں رکاوٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں‘ حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں‘ مگر جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کرتے۔ مذاکرات کی کامیابی اور انہیں مؤثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا سے تنقید کا سلسلہ بند ہو۔ خان صاحب محاذ آرائی میں پیش پیش ہیں تو کارکنان پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ روزِ اول سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پہلی فرصت میں پی ٹی آئی تحریری شکل میں مطالبات پیش کرے مگر پی ٹی آئی اب تک تحریری طور پر مطالبات پیش کرنے سے قاصر ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے جب بھی بات ہو گی اس میں مطالبات کی بات سرفہرست ہو گی۔ اگر پی ٹی آئی یہ چاہتی ہے کہ پہلے مرحلے میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے اور کارکنان کو رہا کیا جائے تو سب کی سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس خواہش کے پیچھے نو مئی کے مقدمات سے بچنے کی سوچ کارفرما ہے‘ منصوبہ یہ ہے کہ اگر نو مئی کے واقعات سے بچ گئے تو باقی معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا آسان ہو گا۔ دوسری طرف حکومت اور مقتدر حلقوں کا مقدمہ اس بات پر قائم ہے کہ نو مئی کو پی ٹی آئی ریاستی اداروں پر حملہ آور ہوئی۔ حکومت چاہتی ہے کہ کم از کم پی ٹی آئی نو مئی کے واقعات کی غلطی کو تسلیم کر لے۔ مطلب یہ کہ نو مئی کے واقعات فریقین کیلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر حکومت اور پی ٹی آئی اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہتی ہیں تو مذاکرات محض مشقِ لاحاصل ہوں گے۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کا تیسرا دور اہم ہو گا‘ دونوں فریق آمادہ ہیں کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جائے اور کوئی فریق ایسی شرط نہ رکھے جو مذاکرات سے دور لے جائے۔ یہ مذاکرات بظاہر حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹیوں کے مابین ہو رہے ہیں‘ تاہم پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ مقتدرہ بھی مذاکرات کا حصہ بنے۔ ابھی تک مطالبات سامنے نہ آنے کا اہم سبب بھی شاید یہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر مقتدرہ مذاکرات کا حصہ نہیں بنتی تو پی ٹی آئی مذاکرات کے سلسلے کو مزید جاری نہیں رکھے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کو بہرصورت جاری رہنا چاہیے اور اگر مقتدرہ مذاکرات کا حصہ نہیں بنتی تو اس بنیاد پر مذاکرات کو ختم کر دینا درست رویہ نہیں ہو گا بلکہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں جو کچھ حاصل ہوتا ہے‘ پہلے مرحلے میں وہ حاصل کر لینا چاہیے۔ یہ واضح ہے کہ اس وقت مذاکرات کی جتنی ضرورت پی ٹی آئی کو ہے‘ حکومت کو نہیں‘ سو لچک کا مظاہرہ پی ٹی آئی کو کرنا ہو گا۔ بات بات پر مذاکرات ختم کرنے کی دھمکی دینے کا نقصان پی ٹی آئی کو ہو گا۔ ذرا تصور کریں کہ پی ٹی آئی مذاکرات کو ختم کر دیتی ہے تو کیا حکومت اس کے نتیجے میں بیک فٹ پر چلی جائے گی‘ کیا حکومت کو ایوان کے اندر کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا؟ ہرگز نہیں! اس سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ الٹا تحریک انصاف کی مشکلات بڑھ جائیں گی کیونکہ اس کے آپشنز محدود رہ جائیں گے۔
اگر حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوا تو اس انقطاع کی ذمہ داری بانی پی ٹی آئی پر عائد ہو گی جنہوں نے بظاہر مذاکراتی کمیٹی کو بااختیار بنایا مگر اصل اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے۔ ہم نے انہی سطور میں لکھا تھا کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی نمائشی ہے‘ جو ہر لمحہ خان صاحب سے مشاورت کی محتاج ہو گی۔ بانی پی ٹی آئی سے مشاورت ضروری ہے لیکن یہاں تو ہر قدم بانی پی ٹی آئی سے پوچھ کر اٹھایا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں معاملات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ پی ٹی آئی کے پاس مذاکرات کی شکل میں ایک بہترین موقع ہے‘ اگر اسے ضائع کیا گیا تو پھر اسے طویل انتظار اور جدوجہد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ تیسری بار مؤخر ہو گیا ہے‘ مذاکرات کے اہم موڑ پر 190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ مؤخر ہونا تعجب خیز ہے مگر یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ ایک خان صاحب اور پی ٹی آئی کے وکلا کے عدم تعاون کے باعث فیصلے میں تاخیر کی اطلاعات ہیں‘ دوسرا پی ٹی آئی 190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ مؤخر ہونے پر صفائیاں پیش کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی مقدمات کا سامنا کرنے سے کیوں کترا رہی ہے‘ کیا اب بیرونی سہارے ہی پی ٹی آئی کی واحد امید ہیں؟