علی امین گنڈا پور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹا کر ان کی جگہ جنید اکبر کو پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کا صوبائی صدر بنایا گیا ہے۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور کو صوبائی صدر کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟ اگر خان صاحب کی توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے انہیں صوبائی صدارت سے ہٹایا گیا تو بطور وزیراعلیٰ کون سی کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں؟ کیا خان صاحب علی امین گنڈا پور کی وزارتِ اعلیٰ سے مطمئن ہیں؟ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی قیادت کے مبینہ طور پر دو گروپ موجود ہیں‘ ایک کے سرپرست علی امین گنڈا پور ہیں جس کی اکثریت صوبائی حکومت کا حصہ ہے جبکہ دوسرا عاطف خان‘ شکیل خان‘ ارباب شیر علی‘ شہرام ترکئی گروپ ہے۔ گروپ بندی ہر جگہ اور ہر پارٹی میں ہوتی ہے مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کا حصہ نہ بننے والے پی ٹی آئی کے ارکان اپنی ہی پارٹی کے حکومتی عہدیداروں پر کرپشن کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ علی امین گنڈا کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کی کوششیں پچھلے تین ماہ سے ہو رہی تھیں بلکہ جب اگست 2024ء میں صوبائی وزیر شکیل خان کو ہٹایا گیا تو معاملہ اس کے بعد سے ہی شروع ہو گیا۔ شکیل خان کو وزارت سے ہٹانے پر عاطف خان نے ٹویٹ کے ذریعے ردِعمل کا اظہار کیا تھا جبکہ جنید اکبر نے علی امین گنڈا پور کے خلاف واضح مؤقف اختیار کیا تھا جس پر علی امین گنڈا پور نے شدید ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ یہی موقع تھا جب پی ٹی آئی کے اختلافات سامنے آئے اور خان صاحب نے صوبے میں گڈگورننس کیلئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں ایک نام جنید اکبر کا بھی تھا۔ علی امین گنڈا پور نے کمیٹی سے جنید اکبر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے کہنے پر جنید اکبر کو کمیٹی سے ہٹا کر مصدق عباسی کا نام گڈ گورننس کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ جنید اکبر اس پر نالاں تھے۔ علی امین مخالف پورا گروپ سمجھتا تھا کہ علی امین گنڈا پور کرپشن کے خلاف اپنے حمایتی بندے شامل کرکے اپنی مرضی کی تحقیقات کرانا چاہتے ہیں۔ یوں پارٹی کی صوبائی صدارت کے تبدیل ہونے کے پیچھے بڑا عنصر کرپشن تھا۔ اگر اس تاثر میں صداقت ہے تو کیا علی امین گنڈا پور دھڑا نئے صوبائی صدر جنید اکبر کو کامیاب ہونے دے گا؟ علی امین گنڈا پور کو صوبائی صدارت سے ہٹانے کے پیچھے بشریٰ بی بی کی شکایات کا عمل دخل بھی خارج از امکان نہیں کیونکہ اکتوبر 2024ء کو اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد بشریٰ بی بی نے پشاور کو اپنا مسکن بنایا تو انہوں نے صوبائی حکومت کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی۔ یہ باتیں زبان زدعام تھیں کہ صوبائی حکومت کے کچھ ذمہ داران براہِ راست بشریٰ بی بی سے احکامات لیتے ہیں۔ یہ صورتحال گنڈا پور کو قبول نہ تھی۔ شنید ہے کہ علی امین گنڈا پور کے بھائی فیصل امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کے درمیان کسی معاملے پر تکرار بھی ہوئی۔ یہ وہ موقع تھا جب علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کے درمیان اختلافات سامنے آنا شروع ہوئے۔ اس دوران کچھ بڑی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے اور کمیشن حاصل کرنے کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں۔ صوبائی حکومت کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے کئی معاملات پر بدنامی کے ڈر سے علی امین گنڈا پور فی الحال خاموش ہیں۔ ان سے سارے اختیارات واپس نہ لینے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر انہیں دیوار سے لگایا گیا تو وہ راز ہی نہ اُگل دیں۔
علی امین گنڈا پور کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو عمومی خیال تھا کہ وہ مقتدرہ کے قریب ہیں مگر پارٹی کا خیال اس کے برعکس تھا۔ خان صاحب اور پارٹی قیادت ان کو جارحانہ مزاج کی وجہ سے پسند کرتی تھی ۔چونکہ پی ٹی آئی مقتدرہ مخالف بیانیہ لے کر چل رہی تھی اس لیے علی امین گنڈا پور کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا مگر جلسوں کی ناکامی کے بعد پارٹی قیادت اور کارکنوں میں ان کے پرو اسٹیلشمنٹ ہونے کا تاثر قائم ہواجس میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ 26 نومبر کو اسلام آباد میں اس کی ایک جھلک اس وقت دیکھنے کو ملی جب علی امین گنڈا پور گاڑی سے باہر جانے کیلئے نکلے تو کارکنوں نے ان کا راستہ روک لیا اور نعرے لگانے شروع کیے کہ اڈیالہ جانا ہے۔علی امین گنڈا پور پر عدم اعتماد کا سلسلہ پچھلے کئی ماہ سے چل رہا تھا مگر اب پارٹی کی صوبائی قیادت اس پر کھل کر بول رہی ہے بلکہ کرپشن کے الزامات بھی لگا رہی ہے۔ بشریٰ بی بی بھی چاہتی ہیں کہ علی امین گنڈا پور کو ہٹا کر ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے جس کے ساتھ وہ اپنی منشا و مرضی کے مطابق امور کو ترتیب دے سکیں۔ بشریٰ بی بی کی خواہش ہے کہ سپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے جبکہ خان صاحب چاہتے ہیں کہ عاطف خان قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیں اور صوبائی اسمبلی کی نشست سے الیکشن جیت کر وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوں۔
جنید اکبر نے پارٹی کی تنظیم نو کا اعلان کیا ہے‘ جنید اکبر کے قریب سمجھے جانے والے عاطف خان اور ارباب شیر علی کو اہم ذمہ داریاں ملنے کا امکان ہے۔ پارٹی کے نومنتخب صوبائی صدر کی پہلی آزمائش 8 فروری کے احتجاج کو کامیاب بنانا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے دھمکی دی ہے کہ پنجاب کی طرف جانے والی شاہراہیں بند کر دیں گے۔ امید کرتے ہیں کہ یہ محض دھمکی کی حد تک ہی ہو ‘ عملی طور پر ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا جائے کیونکہ راستے بند کرنے کی صورت میں صوبے کے عوام کو بھی تکلیف ہو گی۔جو لوگ علاج‘ کاروبار یا ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد اورپنجاب کا سفر کرتے ہیں ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی‘ سو احتجاج ضرور کریں مگر اس طرح کہ عام شہریوں کی زندگی مفلوج نہ ہو۔ جنید اکبر پی ٹی آئی کے صوبائی صدر ہیں مگر ان کے اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خان صاحب کی طرف سے انہیں اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ اگر خان صاحب ایک ہی شخص سے صوبے اور وفاق کی سطح پر کام لینا چاہتے ہیں تو یہ پی ٹی آئی کیلئے قحط الرجال کے مترادف ہے ۔ جنید اکبر کے سامنے پارٹی ساکھ کی بحالی اور خان صاحب کی توقعات کا پہاڑ ہے۔ مذاکرات ختم ہو چکے ہیں‘ پہلے ہی اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ مذاکرات میں کامیابی کے آثار کم ہیں۔ خان صاحب مزاحمتی پالیسی پر قائم ہیں لیکن وہ مقتدرہ سے تلخی میں کمی کے خواہاں ہیں۔ بظاہر مزاحمتی پالیسی اور مقتدرہ سے تعلقات میں بحالی دو متضاد باتیں ہیں‘ اس کے باوجود خان صاحب دونوں آپشنز کو لے کر چل رہے ہیں۔خان صاحب سمجھتے ہیں کہ مفاہمتی پالیسی اختیار کی تو ووٹرز کو مطمئن کرنا مشکل ہو گا کیونکہ پچھلے دو برسوں کے دوران مقتدرہ مخالف سیاسی حکمت عملی اپنا کر ووٹرز کی ذہن سازی کی گئی ہے۔ خان صاحب شاید منتظر ہیں کہ مشکل وقت گزرنے ہی والا ہے۔ مقتدرہ طویل عرصے تک مزاحمتی رویے پر قائم نہیں رہ سکتی‘ بالآخر اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں نے تبدیل ہونا ہے۔ یہ حقیقت ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اُڑتی گرد بیٹھ جاتی ہے‘ زخم مندمل ہو جاتے ہیں مگر اس کیلئے مزاحمت ترک کر کے صبروتحمل اور برداشت سے کام لینا ہوتا ہے تاہم جنید اکبر کی بطور صوبائی صدر تقرری سے ثابت ہوتا ہے کہ خان صاحب مفاہمتی رویہ اپنانے کیلئے تیار نہیں۔ جنید اکبر‘ جنہیں ایک طرف صوبائی سطح پر علی امین گنڈا پور گروپ کی مخالفت کا سامنا ہو گا وہیں خان صاحب کو ان سے قومی سطح پر توقعات بھی ہیں۔ وہ ان چیلنجز سے کیسے نبردآزما ہوتے ہیں ‘ یہ اہم ہو گا۔