جنگوں میں حاصل ہونے والی فتح کے اثرات صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہتے بلکہ برسوں تک فاتح قوم کی تقدیر پر بھی چھائے رہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سات سے 10 مئی تک ہونے والی حالیہ جنگ نے خطے کی صورتحال اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جنگ سے قبل بھارتی حکام پاکستان کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ان کا لب ولہجہ کسی بھی اعتبار سے پڑوسی ممالک کے ساتھ برتاؤ والا نہ تھا۔ بھارت نے ہمیشہ خود کو خطے میں برتر ثابت کرنے کی کوشش کی‘ یہاں تک کہ کھیل کے میدان میں بھی ان کا رویہ متعصبانہ رہا۔ اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ خطے کے مجموعی امن کو مقدم رکھتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ ہماری امن کی خواہش کو بھارت نے ہماری کمزوری سے تعبیر کیا اور بزعم خود خطے کا مختار بن بیٹھا تھا۔ یہ صورتحال طویل عرصے سے چلی آ رہی تھی‘ جس نے دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کو بڑھا رکھا تھا۔ بھارت کی ساری غلط فہمی اور اکڑ محض چند گھنٹوں کی جنگ میں دور ہو گئی۔ پاک بھارت حالیہ جنگ بظاہر چار دن تک رہی مگر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جس عزت سے نوازا اور بھارت کے مذموم ارادے جس طرح خاک آلود ہوئے‘ اس کا اثر برسوں تک قائم رہے گا۔ اس جنگ کے بعد دنیا نے پاکستان کو ایک فاتح کے طور پر جانا اور برتاؤ کیا۔ جنگ بندی کے بعد بھارت اور پاکستان کے سفارتی وفود کے ساتھ دنیا کے برتاؤ میں اس فتح کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے مقام میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اب ہمیں ایک مضبوط اور ذمہ دار عسکری قوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ جنگ میں فتح کے اثرات مغربی سرحد پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں اور خطے میں امن واستحکام کے لیے پاکستان کے عزم کو مزید تقویت ملی ہے۔ شدت پسند عناصر کی جانب سے جو خطرات جنگ سے پہلے تھے‘ ویسے خطرات اب نہیں ہیں۔ اس واضح تبدیلی کی بنیادی وجہ ہماری فتح ہے کیونکہ شدت پسند عناصر کے جہاں سے مہرے ہلائے جا رہے تھے‘ وہ کمزور ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ شدت پسند عناصر بھی اب جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی حالات میں پاکستان محض ایک تماشائی نہیں بلکہ ایک فعال کھلاڑی کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ چین‘ امریکہ‘ سعودی عرب‘ ترکیہ اور ایران کے ساتھ بدلتے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا اسلام آباد کی سٹرٹیجک ضرورت بن چکا ہے مگر ان تعلقات سے بڑھ کر ایک اور محاذ ہے‘ وہ ہے افغانستان کے اندر پنپتی دہشت گردی‘ جس کے سائے میں بھارت ایک بار پھر خنجر تانے کھڑا ہے۔ سابق فاٹا بالخصوص شمالی وزیرستان‘ بنوں‘ خیبر اور باجوڑ میں حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کی نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے جس کے پسِ پردہ را اور این ڈی ایس کے بچھائے گئے نیٹ ورکس نمایاں ہیں۔ افغان سرزمین ایک بار پھر دہشت گردوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے اور کابل حکومت کی خاموشی یا ملی بھگت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بلوچستان میں بھی سکیورٹی خدشات بدستور موجود ہیں۔ جہاں بھارتی پراکسیز‘ خاص طور پر بی ایل اے‘ بی آر اے اور بی وائے سی چینی مفادات‘ سی پیک منصوبوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا کر پاکستان کی اقتصادی شہ رگ پر وار کر رہی ہیں۔ دوسری جانب کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان جیسے گروہ مذہب کے نام پر پاکستان کو عدم استحکام کی دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا گٹھ جوڑ محض نظریاتی نہیں بلکہ مالی‘ عسکری اور انٹیلی جنس سطح پر بھی مربوط ہے جس میں بھارتی اور بعض علاقائی دشمن طاقتوں کا ہاتھ شامل ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان چین کے ساتھ سی پیک اور ڈیجیٹل راہداری کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ڈیجیٹل راہداری کا منصوبہ ایک ایسا جامع فریم ورک ہے جس کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان ڈیجیٹل انفراسٹرکچر‘ مواصلات اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔ یہ منصوبہ روایتی اقتصادی راہداری سی پیک کے تحت سماجی رابطے کو ڈیجیٹل دنیا سے جوڑتا ہے۔ اس میں فائبر آپٹک نیٹ ورکس کی توسیع‘ ڈیٹا سنٹرز کا قیام‘ سائبر سکیورٹی میں تعاون‘ ای کامرس پلیٹ فارمز کی ترقی اور مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجیز میں مشترکہ تحقیق و ترقی شامل ہیں۔
پاک بھارت جنگ میں حالیہ فتح اور مشرقِ وسطیٰ بالخصوص ایران اسرائیل کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار کے بعد پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی معاشی اور سکیورٹی شراکت داری کو بحال کر رہا ہے۔ حالیہ علاقائی پیش رفتوں نے پاکستان کے سٹرٹیجک قد کو بڑھا دیا ہے جس کے بعد امریکہ پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کر رہا ہے۔ میدانِ جنگ میں کامیابی نے جہاں ہماری عسکری صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے وہیں مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے سفارتی کوششوں نے پاکستان کو ایک قابلِ اعتماد علاقائی کھلاڑی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس صورتحال نے واشنگٹن کو یہ باور کرایا ہے کہ پاکستان کو نظر انداز کرنا خطے کے استحکام کے لیے سودمند نہیں ہوگا لہٰذا اب امریکہ ایک توازن کے ساتھ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں معاشی تعاون کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے شعبے میں بھی محتاط شراکت شامل ہے۔
پاکستان عالمی سطح پر ایک منفرد مقام حاصل کر رہا ہے۔ ترکیہ اور سعودی عرب کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اور ایران کے ساتھ بارڈر سکیورٹی میکانزم کا قیام اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ پاکستان عالمی منظر نامے پر ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ایرانی آرمی چیف کی جانب سے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا شکریہ ادا کرنا اور ایرانی پارلیمنٹ اور پاکستان میں ایرانی سفیر کا پاکستان کا شکریہ ادا کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے‘ تاہم اس مثبت پیش رفت کے باوجود اگر ہمیں داخلی خطرات اور دہشت گرد حملوں کا سامنا جاری رہا تو ہماری یہ عالمی پذیرائی بے معنی ہو جائے گی۔ اندرونی سطح پر بڑھتی ہوئی شورش اور عدم استحکام سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں شدید رکاوٹ بنے گا اور یہ داخلی خطرات ہماری عالمی پوزیشن کو دیمک کی طرح چاٹ سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ملک کے اندر امن و امان قائم نہ ہو‘ بیرونی دنیا ہماری اہمیت کو تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی ہم اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کر پائیں گے۔ ہمیں اب دو ٹوک فیصلے کرنا ہوں گے‘ سب سے پہلے اپنے دشمن کو پہچاننا‘ چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی۔ پھر اسے عالمی سٹیج پر بے نقاب کرنا ہو گا۔ دوسرا اور سب سے اہم داخلی طور پر قومی سلامتی کی نئی حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی جو نہ صرف عسکری قوت بلکہ سفارتی‘ نظریاتی اور معاشی طاقت پر بھی مبنی ہو۔ ہمیں نہ صرف دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہو گی بلکہ ان نظریات کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا جو انتہا پسندی کو جنم دیتے ہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر حکمت عملی ہے جو حقیقی معنوں میں پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کرے گی اور عالمی سطح پر اس کی پوزیشن کو مزید مستحکم بنائے گی۔