"RS" (space) message & send to 7575

سیلاب مستقل چیلنج

وطنِ عزیز میں موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات اب ایک مستقل چیلنج کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ حالیہ پری مون سون بارشوں نے اس حقیقت کو مزید واضح کر دیا ہے کہ ہمیں اس مستقل خطرے سے نمٹنے کے لیے جامع اور پائیدار حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ محض ایک سال کا موسمی تغیر نہیں بلکہ ایک طویل مدتی موسمیاتی بحران کا نتیجہ ہے جس کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں اپنی منصوبہ بندی اور تیاری کے طریقوں کو از سر نو ترتیب دینا ہو گا۔ سالہا سال کا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں پری مون سون بارشوں کا آغاز بالعموم جون کے وسط یعنی 15سے 20جون کے آس پاس ہوتا ہے۔ ماضی میں ان بارشوں کی نوعیت ہلکی ہوتی تھی اور سیلاب کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا مگر اس سال موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث غیرمعمولی رجحانات دیکھنے میں آئے ہیں۔ جون کے ابتدائی دنوں میں ہونے والی شدید بارشیں اور ان سے کئی علاقوں میں پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال متعلقہ حکام کے لیے ایک انتباہ تھی۔ پری مون سون بارشوں کے بعد سیلاب قطعی غیرمعمولی ہیں اور شدید خطرے کی علامت سمجھے جا رہے ہیں۔ رواں برس ایک اور پریشان کن تبدیلی کا مشاہدہ ہوا کہ جون میں ہی اگست جیسا شدید حبس محسوس ہونے لگا۔ ماضی میں حبس عام طور پر جولائی کے وسط کے بعد یا کبھی تو اگست کے وسط میں اپنے عروج پر پہنچتا تھا لیکن اب یہ بہت پہلے شروع ہو گیا ہے۔ پری مون سون میں سیلاب اور قبل از وقت شدید حبس کا یہ امتزاج موسمیاتی تبدیلیوں کے واضح اثرات ہیں اور آئندہ کیلئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ یہ موسمیاتی ترتیب میں تبدیلی کا اشارہ ہے جو بتاتا ہے کہ موسمیاتی شدت کے واقعات اب زیادہ تواتر سے رونما ہو سکتے ہیں۔
پری مون سون کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثرہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے اب 10جولائی تک ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کا الرٹ جاری کیا ہے‘ جو صورتحال کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ بارشوں سے جانی و مالی نقصان کا حتمی تخمینہ مون سون سیزن کے اختتام پر ہی لگایا جا سکے گا تاہم ابتدائی رپورٹس تشویشناک ہیں۔ حالیہ پری مون سون بارشیں توقع سے کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ یہ صورتحال کئی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔ خدانخواستہ اگر آگے چل کر اگست یا ستمبر میں مون سون کی بارشیں بھی توقع سے زیادہ ہوئیں تو کیا ہمارے پاس ان سے نمٹنے کا کوئی ٹھوس بندوبست ہے؟ سب سے اہم یہ کہ کیا ہم 2022ء جیسے تباہ کن سیلاب کا دوبارہ سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں؟ 2022 کے سیلاب نے ملکی معیشت‘ زراعت اور بنیادی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ اس سال پری مون سون میں ہی غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیاں اور بارشوں کی شدت یہ پیغام دے رہی ہے کہ آئندہ مون سون میں ہمیں مزید بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش انتہائی محدود ہے۔ معمول سے کچھ زیادہ بارش بھی ڈیموں کے سپل ویز کھولنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمارے موجودہ آبی ذخائر بڑھتی ہوئی بارشوں کا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے بارش کا قیمتی پانی ذخیرہ ہونے کے بجائے ضائع ہو جاتا ہے۔ دوسرا بڑا خدشہ یہ ہے کہ بھارت بھی مون سون کے دوران ہر سال کی طرح اپنے ڈیموں سے وافر پانی پاکستان کی طرف چھوڑے گا۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت دانستہ طور پر پانی چھوڑ سکتا ہے جس سے ہمارے دریاؤں میں طغیانی اور نچلے علاقوں میں سیلاب کا خطرہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔
2022ء کے تباہ کن سیلاب سے ہمیں ایک تلخ سبق ملا‘ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے سیلاب سے بچاؤ کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے اور نہ ہی عوام کو اس آفت سے نمٹنے کے لیے تیار کیا ہے۔ آج بھی صورتحال یہ ہے کہ ایک دن کی تیز بارش بھی شہری نظام درہم برہم کر دیتی ہے۔ پاکستان نے عالمی سطح پر یہ مقدمہ بھرپور طریقے سے پیش کیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے۔ اس دلیل کی بنیاد پر ہم نے عالمی برادری سے فنڈز اور تعاون کی اپیل کی۔ فنڈز فراہمی کے وعدے تو بہت ہوئے لیکن عملی طور پر خاطر خواہ تعاون نہیں ملا‘ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دنیا ہمارے ساتھ اظہارِ افسوس تو کرتی ہے مگر ہمیں اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس سنگین صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہم اب صرف بیرونی امداد پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے اندرونی وسائل پر توجہ دیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لیے ضروری آگاہی اور تربیت فراہم کرناس ہو گی۔ سیلاب سے قبل اور دوران کیا اقدامات کرنے ہیں‘ انفراسٹرکچر کو کیسے مضبوط بنانا ہے اور کمیونٹی کی سطح پر تیاری کیسے کرنی ہے۔ یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن پر عملی کام ناگزیر ہے۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ایک جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حکمت عملی میں سب سے پہلا قدم آبی ذخائر کی استعداد کار بڑھانا ہونا چاہیے جس کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر اور موجودہ آبی ذخائر کی صلاحیت میں اضافہ ناگزیر ہے تاکہ بارش کے اضافی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے اور سیلاب کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ دوسرا اہم پہلو سیلاب سے بچاؤ کے مؤثر نظام کا قیام ہے جس میں سیلاب کی پیشگی وارننگ کا نظام‘ بندوں کی مضبوطی اور سیلاب کی گزرگاہوں کو صاف رکھنا شامل ہے۔ تیسرا نقطۂ بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہے تاکہ سڑکوں‘ پلوں اور رہائشی علاقوں کی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے مطابقت پیدا ہو سکے۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کرنا ضروری ہے تاکہ مقامی سطح پر ان کے اثرات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جا سکے اور ان سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لایا جا سکے۔
صرف پاکستان ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے دوچار نہیں ہے‘ کئی ترقی یافتہ ممالک بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہیں۔ ان دنوں امریکی ریاست ٹیکساس بھی سیلاب کی زد میں ہیں جہاں اب تک سیلاب سے 78 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ان دنوں افغانستان‘ بھارت اور کئی دیگر ممالک میں بھی سیلاب سے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصانات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں اب کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں رہیں بلکہ یہ ایک عالمی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ یہ تباہ کاریاں ہمیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ دنیا کو اب مشترکہ طور پر ان کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ صرف متاثرہ ممالک کو ہی نہیں بلکہ ان ممالک کو بھی‘ جو کاربن کے اخراج میں سب سے آگے ہیں‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے تدارک میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ جن ممالک سے بڑے پیمانے پر ہونے والا کاربن اخراج موسمیاتی تبدیلیوں کو مہمیز دے رہا ہے‘ انہیں خاص طور پر متاثرہ ممالک کی مالی اور تکنیکی مدد کے لیے آگے آنا ہو گا تاکہ متاثرہ ممالک کو ان کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔ وقت آ گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری محض اظہار افسوس کے بجائے ٹھوس عملی اقدامات اور پائیدار حل کے لیے متحد ہو کر کام کرے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کی کوئی جغرافیائی حد نہیں ہوتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں