"RS" (space) message & send to 7575

90روزہ احتجاجی تحریک

ہفتہ اور اتوار کو لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کا اجلاس ماضی کے مظاہروں کے برعکس خوش آئند تبدیلی کا اشارہ ہے جو نہ صرف حکومت کے جمہوری رویے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ احتجاج کرنے والی جماعت کیلئے بھی نئی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔ یہ بدلتا ہوا منظر نامہ پاکستانی سیاست میں ایک نئی جہت کا آغاز ہو سکتا ہے‘ جہاں پُرامن احتجاج کو ایک جمہوری حق کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ لاہور اجلاس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ حکومت کی طرف سے اسے روکنے کیلئے کوئی رکاوٹیں کھڑی نہیں کی گئیں۔ یہ ایک جمہوری حکومت کا صحیح طرز عمل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اجلاس یا پُر امن احتجاج کے آئینی حق سے محروم نہ کرے۔ جمہوری معاشروں میں اظہارِ رائے کی آزادی اور پُرامن احتجاج کا حق بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف سیاسی ماحول میں تناؤ کم کرتا ہے بلکہ اعتماد سازی کو بھی فروغ دیتا ہے۔ جب حکومتیں پُرامن احتجاج کو برداشت کرتی ہیں تو یہ ان کی اپنی ساکھ کو مضبوط کرتا ہے اور عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان کی آواز سنی جا سکتی ہے۔ جہاں حکومت کا یہ جمہوری رویہ قابلِ تعریف ہے‘ وہیں احتجاج کرنے والی جماعت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوامی اور قومی املاک کو نقصان نہ پہنچائے۔ مہذب معاشروں میں عوام کو احتجاج کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ پُرامن رہیں اور قانون کی پاسداری کریں۔ پاکستان میں ماضی میں ہونے والے کئی احتجاجی مظاہروں نے پُرتشدد رخ اختیار کیا جس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان ہوا‘ اس ضمن میں ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے حالیہ پُرامن اجلاس نے ایک مثبت مثال قائم کی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں بھی اس کی پاسداری کرے گی۔ دراصل پُرامن احتجاج ہی کسی سیاسی تحریک کو اخلاقی جواز فراہم کرتا ہے اور عوامی حمایت حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔
پی ٹی آئی کے لاہور اجلاس کا اختتام ایک اہم اعلان پر ہوا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ پی ٹی آئی نے سیاسی تحریک کا آغاز کر دیا ہے اور آئندہ 90روز میں اس تحریک کو عروج پر لے جا کر 'آر یا پار‘ کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب بات فیصلہ سازوں سے ہو گی اور عمران خان پاکستان کی خاطر مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت نے اپنی اس سیاسی تحریک کو ''عوام کے آئینی حقوق کی بازیابی‘‘ کا نام دیا۔ علی امین گنڈا پور نے یہ بھی کہا کہ لکھ کر دیتا ہوں اس تحریک میں کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہو گی۔ یہ اعلان بلاشبہ ایک بڑی سیاسی پیشرفت ہے اور ملک کی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کیلئے یہ 90روزہ احتجاجی تحریک کتنی آسان ہو گی‘ یہ بھی اہم سوال ہے کہ 90روزہ احتجاجی تحریک کا خیال کہاں سے آیا؟ اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی پانچ اگست کو خان صاحب کی گرفتاری کے دو سال مکمل ہونے پر بڑے احتجاج کا ارادہ رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت 90روزہ احتجاج کا اعلان سامنے آتے ہی ششدر رہ گئی۔ 90روز تک مسلسل احتجاج کس نوعیت کا ہو گا‘ اس بارے میں اگرچہ کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں تاہم یہ واضح ہے کہ اس مقصد کیلئے بڑے پیمانے پر وسائل اور کارکنوں کی شمولیت درکار ہو گی۔ کارکنوں کو احتجاج کیلئے تیار کرنا اور ہزاروں کارکنوں کو مسلسل احتجاج کا حصہ بنائے رکھنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو احتجاج کا اعلان کرکے پی ٹی آئی نے ایک بڑا رسک لیا ہے۔ ایک طویل احتجاجی تحریک کیلئے مالی وسائل‘ لاجسٹک سپورٹ اور کارکنوں کی مستقل حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کیلئے یہ ایک بڑا امتحان ہو گا کہ وہ ان تمام عوامل کو کیسے منظم کرتی ہے۔ کارکنوں کو 90دن تک متحرک رکھنا اور انہیں کسی قسم کی مایوسی سے بچانا ایک مشکل کام ہے۔ پی ٹی آئی کی بقا اس احتجاج کی کامیابی سے جڑ ی ہے۔ اگر پی ٹی آئی واقعی 90روزہ احتجاجی تحریک کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو حکومت پی ٹی آئی کی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ احتجاج کی کامیابی کی صورت میں پی ٹی آئی بہت کچھ حاصل کر سکتی ہے۔ اگر یہ احتجاج ناکام ہو جاتا ہے تو پی ٹی آئی مزید کمزور ہو سکتی ہے۔ احتجاج کی ناکامی کی صورت میں سب سے پہلے وہ کارکن مایوس ہوں گے جو اب بھی عمران خان کا دم بھرتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر انہیں جیل سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ طویل احتجاجی تحریک کافی صبر آزما معاملہ ہے۔ پی ٹی آئی کو غلطیوں سے بچنا ہو گا اور اس داغ کو دھونا ہو گا کہ اس کے احتجاج پُرتشدد ہوتے ہیں‘ کیونکہ احتجاج کے دوران کوئی بھی غلطی منزل سے دور لے جا سکتی ہے‘ جیسا کہ نو مئی کے واقعات کی غلطی کا خمیازہ پی ٹی آئی آج تک بھگت رہی ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کو ایک مضبوط اور پُرامن حکمت عملی اپنانی ہو گی جو کارکنوں کو پُرامن رہنے کی تلقین کرے اور کسی بھی اشتعال انگیزی سے گریز کرے۔ قیادت کو ہر لمحہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومتوں کے خلاف کامیاب تحریکیں اکثر و بیشتر اس وقت جنم لیتی ہیں جب حزبِ اختلاف کی جماعتیں متحد ہو کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں۔ ماضی قریب میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اس کی ایک مثال ہے جس نے اپوزیشن کو یکجا کرکے اس وقت کی حکومت کیلئے چیلنج کھڑا کیا۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت تنہا حکومت کو ہٹانے میں کامیاب ہو جائے۔ اپریل 2022ء سے لے کر اب تک پاکستان تحریک انصاف حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہی ہے‘ لیکن اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی بلکہ الٹا اس دوران پی ٹی آئی نے اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے‘ اس کی اہم قیادت کا ایک حصہ پارٹی چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں شامل ہو چکا ہے اور جو قیادت باقی ہے وہ یا تو جیلوں میں ہے یا زیر عتاب ہے۔ کارکنوں میں بھی شدید مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے حالات میں جب پارٹی بکھری ہوئی ہو‘ قیادت کمزور ہو اور کارکن مایوس ہوں‘ تنہا سیاسی جدوجہد جاری رکھنا نہ صرف غیر مؤثر ثابت ہوتا ہے بلکہ پارٹی کے مستقبل کیلئے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ سیاسی حکمت عملی میں لچک اور وقت کے تقاضوں کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ نامساعد حالات سے سبق سیکھنے کے بجائے اگر کوئی جماعت تنہا سفر جاری رکھتی ہے تو ایسی احتجاجی تحریکوں کی کامیابی کے امکانات انتہائی محدود ہو جاتے ہیں۔ سیاسی میدان میں کامیابی کیلئے صرف عوامی حمایت ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ مؤثر اتحاد سازی اور منظم حکمت عملی بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یوں لگتا ہے حکومت گرانا پی ٹی آئی کے پیش نظر ہی نہیں ہے۔ اگر یہ مقصود ہوتا تو پی ٹی آئی عدم اعتماد لانے کیلئے ووٹوں کی گنتی پر توجہ دیتی یا پھر ایسا احتجاجی مظاہرہ کرتی جو حکومت کو بیک فٹ پر لے جاتا یا درپردہ قوتوں کے ساتھ روابط بڑھا کر ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان کرتی‘ مگر ایسا کچھ سامنے نہیں آیا جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی احتجاج کا مقصد حکومت گرانا نہیں بلکہ خان صاحب کیلئے ریلیف حاصل کرنا ہے۔ پی ٹی آئی قیادت اپنے تئیں یہ سمجھتی ہے کہ جب خان صاحب جیل سے باہر آ جائیں گے تو ان کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے۔ علی امین گنڈا پور کے بقول ہفتہ 12جولائی کو 90روزہ احتجاجی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے‘ اس اعتبار سے 12اکتوبر تک یہ تحریک چلے گی۔ پی ٹی آئی نے ایک لائن کھینچ کر خود ہی حکومت کو وقت دے دیا ہے‘ باقی رہی یہ بات کہ پی ٹی آئی اس احتجاجی تحریک سے کیا حاصل کرتی ہے‘ اس کیلئے ہمیں طویل انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں