وطنِ عزیز میں سینیٹ انتخابات جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہیں جو ایوانِ بالا میں تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی فراہم کرتے ہیں۔ یہ عمل صوبائی اکائیوں کے حقوق کے تحفظ اور وفاق کی مضبوطی کے لیے ناگزیر ہے جس سے ملک کے متنوع جغرافیائی و ثقافتی علاقوں کی آواز ایوانِ بالا تک پہنچتی ہے۔ اس طرح سینیٹ جمہوری توازن قائم رکھنے اور قانون سازی کے عمل میں تمام اکائیوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ دو اپریل 2024ء کو تین صوبوں میں سینیٹ انتخابات منعقد ہوئے تاہم خیبر پختونخوا کی 11نشستوں پر یہ انتخابات نہیں ہو سکے تھے۔ اس تعطل کی بنیادی وجہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر اراکین کے حلف سے متعلق ایک پیچیدہ قانونی اور سیاسی تنازع تھا۔ الیکشن کمیشن نے اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے خیبرپختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس کے ذریعے جمہوری عمل میں شفافیت اور آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ مخصوص نشستوں کا معاملہ حل ہونے پر الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا کی سینیٹ کی 11خالی نشستوں پر انتخابات کا نیا شیڈول جاری کیا تو صوبائی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2024ء کے سینیٹ انتخابات میں وفاقی سطح پر اتحادی جماعتوں نے اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا اور امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرایا گیا تھا جو سیاست میں ایک مثبت اشارہ تھا۔ خیبرپختونخوا کے سینیٹ انتخابات میں بھی اتحادی جماعتوں کے درمیان اسی طرح کا اتفاقِ رائے دیکھنے کو ملا۔ اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف جو صوبے میں اکثریت رکھتی ہے‘ اسے اندرونی سطح پر شدید مزاحمت اور اختلافات کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے نامزدگی کے معاملے پر اختلافات سامنے آئے‘ جہاں پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کر کے نو وارد مالدار لوگوں کو ٹکٹ دینے کے الزامات لگائے گئے۔یہ اختلافات ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے تھے کہ خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرانے پر اتفاقِ رائے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ یہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی‘ جس میں فریقین نے طویل مشاورت کے بعد متفقہ فیصلہ کیا۔ اس ملاقات میں طے پایا کہ حکومت کو سینیٹ کی چھ جبکہ اپوزیشن کو پانچ نشستیں دی جائیں گی اور یہ فارمولا برقرار رکھا جائے گا۔ ابتدائی طور پر یہ تاثر قائم ہوا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے یہ ایک بڑا اور غیرمعمولی قدم اٹھایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سینیٹ الیکشن کے معاملے پر علی امین گنڈا پور بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔ اس بات کی تصدیق بیرسٹر گوہر علی خان نے بھی کی جنہوں نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات ہونا کوئی نئی بات نہیں ‘ بلکہ یہ پاکستان کی انتخابی تاریخ کا حصہ ہے۔ بیرسٹر گوہر علی خان کے مطابق سینیٹ کے موجودہ امیدواروں کی منظوری بانی پی ٹی آئی نے خود دی ہے اور بانی کے فیصلے پر عملدرآمد پوری پارٹی پر لازم ہے‘ مگر پارٹی کے ناراض اراکین یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ جب علی امین گنڈا پور اپنے طور پر ناراض رہنماؤں کو راضی کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو معاملہ پی ٹی آئی کی پولیٹیکل کمیٹی کے پاس چلا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی پولیٹیکل کمیٹی میں سامنے آنے والی پیش رفت کے بعد خیبرپختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات اب بلامقابلہ ہونے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاسی اور پارلیمانی کمیٹی نے اس حوالے سے متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔ پارٹی قیادت کا مؤقف ہے کہ اس اقدام کا مقصد انتخابی عمل کو ہر ممکن حد تک شفاف بنانا ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی جس میں بیرسٹر گوہر علی خان‘ شوکت بسرا‘ سلمان اکرم راجہ‘ علی اصغر اور ارباب شیر علی جیسے اہم رہنما شامل ہیں‘ انہوں نے اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق جنرل نشستوں پر مراد سعید‘ فیصل جاوید‘ مرزا آفریدی اور نور الحق قادری کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ ٹیکنوکریٹ کی نشست کے لیے اعظم سواتی میدان میں اُتریں گے۔ خواتین کی ٹیکنوکریٹ نشست پر روبینہ ناز اور سابق سینیٹر ثانیہ نشتر کی خالی ہونے والی نشست پر مشال یوسفزئی کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ناراض امیدوار جن میں عرفان سلیم‘ عائشہ بانو‘ خرم ذیشان‘ ارشاد حسین اور وقاص اورکزئی شامل تھے‘ نے بھی اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ جس سے بلامقابلہ انتخاب کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کی پولیٹیکل کمیٹی کے اعلامیہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کی پارلیمانی پارٹی نے سینیٹ انتخابات کے لیے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ بلامقابلہ انتخاب کو ترجیح دی جائے تاکہ ہارس ٹریڈنگ جیسے شرمناک عمل کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے بلکہ سیاسی بلوغت اور اتفاقِ رائے کی ایک اہم مثال بھی ہے جو آئندہ کے سیاسی منظرنامے پر مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو دیگر صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی سینیٹ الیکشن کا معاملہ پُرامن طریقے سے طے پا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری اقدار پنپ رہی ہیں‘ تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ پی ٹی آئی جو کچھ عرصہ پہلے تک دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ دستِ تعاون بڑھانے کے لیے تیار نہ تھی‘ وہ سینیٹ انتخابات میں تعاون پر کیسے راضی ہو گئی؟ شاید پی ٹی آئی نے جان لیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو ایوان سے باہر رہ کر کیا قیمت چکانا پڑتی ہے اور یہ کہ کسی سیاسی جماعت کی ایوان کے اندر موجودگی کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ اس وقت سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کے سینیٹرز کی تعداد 24ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی تعداد 19ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز کی تعداد بھی 19تھی مگر پروفیسر ساجد میر کی وفات کے بعد ان کی نشست خالی ہو گئی تھی‘ نئے الیکشن میں یہ نشست بھی مسلم لیگ (ن) کو مل جائے گی۔ اس نشست پر مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے عبدالکریم امیدوار ہیں جبکہ حزبِ اختلاف (پی ٹی آئی) نے عبدالستار کو میدان میں اتارا ہے۔ دو آزاد امیدوار اعجاز حسین منہاس اور خدیجہ صدیقی کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ پروفیسر عبدالکریم کا تعلق مرحوم سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی جماعت مرکزی جمعیت اہلحدیث سے ہے اور یہ جماعت ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کی اتحادی رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا سے چھ نشستیں ملنے کے بعد سینیٹ کے اندر اس کی نشستوں کی مجموعی تعداد 25ہو جائے گی۔ اگر پی ٹی آئی کے اراکین اپنے قائد کے اس اہم فیصلے پر اعتماد کا مظاہرہ نہ کرتے تو اس کے نتائج پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے۔ اس بار خان صاحب نے جس سیاسی پختگی اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے‘ بلاشبہ اسے تصادم سے اتفاق تک کا سفر قرار دیا جا سکتا ہے جو ماضی کے جذباتی فیصلوں کے برعکس ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔
خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات کے تناظر میں یہ حکمتِ عملی نہ صرف جمہوری اقدار کو تقویت دیتی ہے بلکہ سیاسی تصادم سے بچتے ہوئے افہام و تفہیم کی ایک نئی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ یہی وہ معتدل اور حقیقت پسندانہ سیاسی طرزِ عمل ہے جو ایوان کی سیاست کو مثبت سمت دیتا ہے اور ملک میں جمہوری استحکام کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔