"RS" (space) message & send to 7575

ریجنل سکیورٹی فورم کی تشکیل

دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے جو کسی ایک خطے یا ملک کی سرحدوں تک محدود نہیں۔ اس کے تدارک کیلئے عالمی سطح پر مشترکہ اور ٹھوس حکمت عملی ناگزیر ہے۔ یہ تصور کہ کوئی ملک تنہا اس عفریت کا مقابلہ کر لے گا محض خام خیالی ہے۔ اس سنگین چیلنج سے نبرد آزما ہونے کیلئے ہر ریاست کو اپنی ذمہ داری سمجھنا ہو گی اور باہمی تعاون کو فروغ دینا ہو گا۔ اس عالمی مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے 15 جولائی کو چین کے شہر تیانجن میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں ایک اہم تجویز سامنے آئی۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ''شنگھائی ریجنل سکیورٹی فورم‘‘ کے قیام کی تجویز پیش کی جو خطے میں سکیورٹی تعاون کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس فورم کا بنیادی مقصد ممبر ممالک چین‘ روس‘ پاکستان‘ بھارت‘ ایران اور پانچ وسطی ایشیائی ریاستوں کے انٹیلی جنس اور دفاعی حکام کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے تاکہ وہ معلومات کا تبادلہ‘ مشترکہ حکمت عملیوں پر غور اور دہشت گردی کے خلاف زیادہ مؤثر طریقے سے کارروائی کر سکیں۔ یہ فورم نہ صرف خطے میں امن و امان کے قیام کو مضبوط کرے گا بلکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نئی روح پھونکنے میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایسے ہی عملی اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے جو محض بیانات سے بڑھ کر حقیقی تبدیلی لا سکیں۔ ایران کی طرف سے ریجنل سکیورٹی فورم کی تشکیل کی تجویز ایک اہم پیش رفت ہے۔ طویل عرصے سے پاکستان ہی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اور علاقائی تعاون کا پُر زور مطالبہ کرتا رہا ہے۔ پاکستان کا یہ مؤقف تھا کہ دہشت گردی کا مسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں پورے خطے کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے اجتماعی کوششیں ناگزیر ہیں۔ اب ایران کی جانب سے بھی ایسی تجویز کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ خطے کے دیگر ممالک پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کر رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت اشارہ ہے کہ خطے کے ممالک یہ احساس کر رہے ہیں کہ جب تک وہ مل کر کام نہیں کریں گے‘ اس عفریت سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ خطے کو درپیش سکیورٹی کے بیشتر خطرات‘ بالخصوص دہشت گردی کے واقعات افغان سرزمین سے جنم لیتے ہیں یا وہاں سے انہیں مدد ملتی ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام اور وہاں سے دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کے بغیر خطے میں پائیدار امن کا قیام ایک چیلنج رہے گا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ افغان قیادت بھی اس علاقائی سکیورٹی فورم کا حصہ بنے اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ اور عملی اقدامات کی یقین دہانی کرائے۔ صرف باہمی تعاون اور تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت ہی سے خطے کو اس عفریت سے نجات مل سکتی ہے۔
تاریخی طور پر وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان تجارت اور روابط میں حائل جغرافیائی رکاوٹیں ایک بڑا چیلنج رہی ہیں۔ اسی چیلنج کو عبور کرنے کیلئے پاکستان‘ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان ایک اہم ریلوے منصوبے کا تصور پیش کیا گیا جسے 'ٹرانس افغان ریلوے‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا بنیادی خیال صدیوں پرانی شاہراہ ریشم کے جدید ریلوے متبادل کے طور پر ابھرا تاکہ وسطی ایشیائی ریاستوں کو پاکستان کے بحری راستوں سے جوڑا جا سکے‘ یوں انہیں گرم پانیوں تک رسائی مل سکے اور عالمی منڈیوں سے ان کی تجارت آسان ہو سکے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف تجارتی حجم میں بے پناہ اضافہ ہو گا بلکہ علاقائی روابط‘ سیاحت اور عوام کے درمیان تعلقات کو بھی فروغ ملے گا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس منصوبے پر پیش رفت نہ ہونے کی بنیادی وجہ افغانستان میں مسلسل عدم استحکام اور جنگی صورتحال ہے۔ امن و امان کی خراب صورتحال‘ سیاسی غیریقینی اور مالی وسائل کی کمیابی نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دھارنے سے روکے رکھا۔ بین الاقوامی برادری کی عدم توجہی اور ترجیحات کا بدلنا بھی اس کی تاخیر کا ایک اہم سبب رہا‘ تاہم حال ہی میں اس منصوبے کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ اسحاق ڈار کے حالیہ دورۂ کابل کے موقع پر پاکستان‘ ازبکستان اور افغانستان نے ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹ کی فزیبلٹی سٹڈی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے جو اس منصوبے کی عملی شکل کی جانب پہلا قدم ہے۔ اسحاق ڈار کی افغان وزیر داخلہ خلیفہ صاحب سے ملاقات بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ تینوں ممالک اس منصوبے کی تکمیل کیلئے سنجیدہ ہیں۔ اس منصوبے کی کامیابی کیلئے علاقائی سکیورٹی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ افغانستان میں پائیدار امن کا قیام اور سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ اس ریلوے لائن کی فعالیت کیلئے ناگزیر ہے۔ جب تک اس روٹ پر سکیورٹی کی ضمانت نہیں ہو گی‘ سرمایہ کار اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لیں گے اور نہ ہی اس کے ذریعے تجارتی سرگرمیاں پروان چڑھ سکیں گی۔ تینوں ممالک کو نہ صرف اپنی اپنی سرزمین پر امن و امان کو یقینی بنانا ہو گا بلکہ مشترکہ طور پر سرحد پار سکیورٹی میکانزم بھی وضع کرنا ہوں گے۔ یہ منصوبہ صرف معاشی نہیں بلکہ سٹرٹیجک اہمیت کا حامل بھی ہے جو پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے اور اسے دنیا کے اہم تجارتی مراکز سے جوڑ سکتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں ریجنل سکیورٹی فورم کی تشکیل کی تجویز سامنے آنے کے فوراً بعد پاکستان کی جانب سے اعلیٰ سطح کے دورے‘ خاص طور پر نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر داخلہ محسن نقوی کا افغانستان کا دورہ خطے میں سکیورٹی تعاون کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ماضی میں اس معاملے پر عموماً وزرائے خارجہ کی سطح پر ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں لیکن اب وزرائے داخلہ کی سطح پر بات چیت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید ٹھوس اور عملی اقدامات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کا مختصر مگر انتہائی اہم دورۂ کابل‘ جس میں ان کے ہمراہ سیکرٹری داخلہ اور پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان بھی تھے‘ افغان وزیر داخلہ ملا سراج الدین حقانی سمیت دیگر افغان حکام سے ملاقاتوں پر مشتمل تھا۔ اس دورے کا سب سے اہم نکتہ پاکستان میں جاری دہشت گرد کارروائیوں پر تشویش کا اظہار تھا جو افغانستان کے اندر سے آپریٹ ہو رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس ملاقات میں پاک افغان بارڈر مینجمنٹ‘ منشیات کی روک تھام اور سرحد پار نقل و حرکت کو منظم کرنے کے طریقہ کار پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس دورے کے مثبت نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ افغان حکام نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سرحدی علاقوں میں تخریب کاروں کے خلاف مؤثر کارروائی کریں گے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے اپنی پوزیشن واضح کی ہے کہ اس کی سرگرمیاں صرف اپنی سرزمین پر امن کے قیام تک محدود ہوں گی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ چین اور پاکستان کے مسلسل دباؤ اور قائل کرنے کے بعد افغان طالبان بھی یہ حقیقت تسلیم کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ علاقائی امن و استحکام اور ترقی کا راستہ ہمسایہ ممالک سے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ پیش رفت خطے میں پائیدار امن کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے‘ بشرطیکہ تمام فریق اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نبھائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں